دوپہر کے وقت تیز دھوپ نے ہر شے کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا کورٹ میں خاصی گہما گہمی تھی
سفید کرتا پہنے اوپر کالا کوٹ پہن رکھا تھا سیاہ بال پونی میں بندھے تھے سفید کاغذ جج کے سامنے لہرایا اور
کٹہرے میں بیٹھے شخص سے مخاطب ہوئی
آپ ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتے ہیں آپ کماتے بھی نہیں اور آپ کی فیملی ہر دوسرے دن
فاقہ کر کے گزارتی ہے۔۔۔از دیٹ رائٹ؟۔۔۔ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر نرمی سے پوچھا
جی ایسا ہی ہے۔۔۔
اس کے باوجود اپ ہر روز مہنگی ڈرگز لیتے ہیں۔۔ مسٹر جنید !۔۔اب کی بار لہجے میں سختی لئے بولی
ن-ج -جی۔۔جنید گھبرا گیا ۔
یہ تب ہی ممکن ہے جب یا تو آپ کے پاس بہت پیسے موجود ہوں جو آپ اپنی فیلمی سے چھپا کے رکھتے ہیں یا آپ کسی گروہ میں ملوث ہوں۔۔
نہیں۔۔ میڈم جی۔۔۔ وہ ہمارا دوست ہمیں کم قیمت پر دے دیتا ہے ۔۔۔ وہ اپنی گھبراہٹ کو سنبھالتے
ہوئے بولا
حورین نے جج کی طرف رخ کیا۔۔مجھے اور کچھ نہیں پوچھنا یوآنر ۔۔۔ سر کو خم دے کر دائیں طرف مڑتے نظر دوسرے پراسیکیوٹر پر پڑی تو آنکھوں میں سختی در آئی وہ سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھاسماعت کاوقت ختم ہو گیا حورین کورٹ روم سے باہر نکلی تو سامنے سے چلتا ایک شخص آرہا تھا حورین کو دیکھتے اس نے ہاتھ ہلایا ۔ہائے!۔۔ مس حورین ۔۔ مسکراتا ہوا آگے بڑھا
ہائے مسٹر عابد!۔۔
میں آپ سے ہی ملنے آرہا تھا آپ سے ضروری کام تھا۔۔
کیا کام تھا آپ کو مجھ سے ؟۔۔ حورین نے آبرو اٹھائی تب ہی دوسرا پروسیکیوٹر باہر نکلا
او ہ ۔۔مسٹر حادی بھی یہی ہیں۔۔ کیسے ہیں آپ؟۔۔ عابد نے مسکراتے ہوئے گرم جوشی سے ہاتھ آگے بڑھایا حادی نے ایک نظر دونوں پر ڈالی حورین کی نظریں عابد پر ہی مرکوز تھیں۔
میں ٹھیک ہوں آپ بتائیں۔۔ حادی نے جواب دیا
چلیں اچھا ہو گیا آپ دونوں مجھے ساتھ میں ہی مل گئے ۔۔۔جسٹس عالم نے آپ دونوں کو رات کھانے
پر مدعو کیا ہے جہاں باقی سب بھی ہوں گے۔۔ اس نے اطلاع دی حورین کی آنکھوں میں نا گواری آئی
میں دیکھوں گی اگر مجھے ٹائم ملا تو۔۔میں ضرور آؤں گی۔۔
جی ہم ضرور آئیں گے۔۔آپ کا شکریہ۔۔ حادی بولا
اوکے سی یو۔۔ عابد چلا گیا
حورین آنکھوں میں ناگواری لیے وہاں کھڑی تھی حادی نے اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالی
جسٹس عالم نے بلایا ہے ہمیں جانا پڑے گا ۔۔حورین مڑی اور سرد آنکھیں حادی پر جمائیں
جن لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے میرا دم گھٹتا ہے وہاں جانے سے میں اجتناب کرتی ہوں۔۔ کیونکہ دم گھٹنےسے آپ کی۔۔ موت واقعہ ہو سکتی ہے۔۔ اور ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی اتنے میں فون بجا حورین نے بیگ سے فون نکال کر کان سے لگایا حادی اب آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا
جی سر۔۔ جی مجھے اطلاع مل گئی ہے۔۔ جی میں ضرور آؤں گی۔۔ حادی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
حورین نے فون بند کیا اور ایسے ہی غصیلی آنکھوں سے حادی کو دیکھنے لگی
تیار رہنا میں تمہیں پک کرنے آ جاؤں گا ۔۔مسکراتے ہوئے سر کو خم دیا حورین بنا کچھ کہے تیزی سے پلٹ
کر اس سے دور جاتی رہی حادی اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا جب تک کہ وہ لوگوں کی بھیڑ میں گم نہ ہوگئی۔
سہ پہر کے وقت گرمی تقریباً اپنا دم توڑ چکی تھی اور فضا خوشگوار تھی۔
حورین ڈرائیٹنگ روم میں بیٹھی ٹیبل پر کاغذ بکھیرے کام میں مصروف تھی ساتھ ہی صوفے پر اس کی چھوٹی بہن عینی بیٹھی موبائل میں کچھ سن رہی تھی جس کی آواز حورین کو تنگ کر رہی تھی۔
عینی آواز کم کرو کیا شور لگایا ہوا ہے۔۔ کاغذ میں نظریں جمائی بولی
اسے شور نہیں کہتے حور آپی۔۔ سونگ کہتے ہیں ۔۔ جونکوک کا سونگ۔۔۔ عینی آبرو اٹھائے بولی
جو بھی کہتے ہیں فلحال یہ میرے کانوں میں شور بن کر گونج رہا ہے۔۔ تو مہربانی کر کے آپ اپنے کورین نامہ سے باہر نکل آئیں گی؟۔۔ حورین بازو پر بازو لپیٹے اسے دیکھنے لگی۔
حور آپی آپ کو میرا کورین نامہ اتنا برا کیوں لگتا ہے؟۔۔۔عینی کی آنکھوں میں خفگی آئی
برا کیوں نہ لگے تم نے بھی تو پورا دن ایک ہی گردان لگائی ہوتی ہے میراجو نکوک ۔۔میرا یہ ۔میرا وہ ۔۔حورین بیزار ہوئی
ہاں تو میرا منہ میری مرضی۔ میرا جونک۔۔ عینی منہ بنائے بول رہی تھی کہ حورین نے بات کاٹ دی
تو پھر میرے کان میری مرضی۔۔ میں تو کہتی ہوں ایک صبح تم اٹھو تو تمہارے موبائل سے سارے کورین ہم شکل غائب ہو جائیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔۔حورین نے ہاتھوں کو دعا کی طرح اپنے منہ پر پھیرا
کیا کر رہی ہو حورین؟۔۔عدیلہ نے ٹیبل پر بکھرے کاغزو ں کو دیکھا
دوسروں کی خوشیوں کو بد دعاؤں کی نظر کر رہی ہیں ۔۔ عینی نے کہا اور پاؤں پٹختی چل دی حورین نے سکھ کا سانس لیا۔
کچھ نہیں ممی کیس کی کچھ فائلز ملی تھیں انہی کو اسٹڈی کرنے یہاں بیٹھ گئی۔۔
کیوں ہلکان کرتی ہو خود کو۔۔ اس وکالت سے چھٹی کیوں نہیں لے لیتی۔۔ عدلیہ صوفے پر بیٹھی
ہاں بلکل لوں گی چھٹی جب اپنے آخری مجرم کو اس کی اصل جگہ پر پہنچاؤں گی۔۔ حورین فائل سمیٹنے لگی
خدا کو مانو حورین۔۔ چھوڑ دو ان سب چیزوں کو۔۔ حورین کے ہاتھ رک گئے
مانتی ہوں خدا کو۔۔ لیکن آپ یہ کہہ کر میرے راستے میں خلل نہیں ڈال سکتیں۔۔ مجھے اپنے ساتھ ہوئی ایک ایک ذیادتی کا بدلہ لینا ہے۔۔ وہ سرد لہجے میں بولی
تمہیں کون سمجھائے تمہاری سوئی جب ایک جگہ اٹک جائے تو وہاں سے ہلتی نہیں۔۔
جب آپ کو پتا ہے تو کیوں مجھ سے بار بار ایسی بات کرتی ہیں۔۔حورین فائل کو بازوؤں میں لئے کندھے اچکاتی چلی گئی
اس لڑکی کو اللہ ہدایت دے۔۔ عدیلہ بس یہی کہہ سکی
بھئی کیا ہوا ہے میری بیٹی کو کیوں سنا رہی ہو؟۔۔جمشید صاحب دونوں بازوؤں سے وہیل چیئر کو چلاتے ہوئے آرہے تھے
میں نے کیا سنانا ہے ابا جی اسے ۔۔ وہ تو سنتی ہی نہیں۔۔ بس انتقام کی رٹ لگا رکھی ہے۔۔
اس کے ساتھ جو ہوا ہے عدیلہ وہ کسی قیامت سے کم نہیں۔۔ اسے وقت دو۔۔ جمشید صاحب بظاہر نرمی سے بولے
میں ڈرتی ہوں کہ وہ انتقام کی غرض میں اپنا ہی نقصان نہ کر بیٹھے۔۔ عدیلہ کے دل میں کرب سا اٹھا
رات کو حادی اپنے وقت پر آپہنچا تھا عدیلہ اسے دیکھ بہت خوش ہوئی
ارے حادی بیٹا کیسے ہو؟۔۔بڑے دنوں بعد دکھائی دے رہے ہو۔۔ اس نے حادی کے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرا
جی میں ٹھیک ہوں ۔۔آپ کی دعائیں۔۔ حادی نے جھک کر پیار لیا
عینی لان کے سلائیڈ سے حادی کو دیکھ رہی تھی اس کی بے چین نظریں حادی کے پیچھے کسی کو تلاش کر رہی تھیں
آؤ بیٹا اندر آجاؤ۔۔ عدیلہ نے اندر کی طرف اشارہ کیا
نہیں پھوپھو آپ حورین کو بلا دیں۔۔ ٹائم کم ہے پھر کسی دن صحیح۔۔ حادی نے ٹال دیا
اچھا میں بلاتی ہوں اسے ۔۔
حورین ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ائیرنگز پہن رہی تھی اس نے کالا کرتا پہن رکھا تھا جس پر ہلکا گولڈن کا کام تھا گلے میں سکن ڈوپٹہ اور بازوؤں میں سکن شال لے رکھی تھی بال کھلے ہوئے تھے ائیرنگز پہننے کے بعد اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا تو نظر ماتھے پر بنے نشان پر گئی
" محبت کو ایسے جسٹیفائی کر کے اس کی توہین مت کرو کہ محبت کرنے والوں کا اعتبار ہی اٹھ جائے محبت سے"
دروازہ کھلا اور عینی اندر آئی حورین نے چونک کر اسے دیکھا
آپ کی سواری آگئی ہے۔۔ اس نے اطلاع دی حورین نے گہری سانس بھری اور خود کو نارمل کیا
آپ کے پاس موقع اچھا ہے۔۔ جب وہ آپ کے ساتھ اندھیرے میں تنہا ہوں تو انہیں شوٹ کر دینا۔۔ کہیں تو میں دادا ابو کی گن لا دوں آپ کو؟۔۔ اور عینی نے اپنا معصوم دماغ چلانے کی کوشش کی حورین نے اسے ایک گھوری سے نوازا تو وہ دنیا بھر کی معصومیت اپنے چہرے پر لے آئی۔
حورین اور حادی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے ہر ٹیبل پر سفید چادر تھی اور کھانا سرو کیا جا چکا تھا حادی نے گول گلے والی بلیک ٹی شرٹ کے اوپر گرے کوٹ پہن رکھا تھا اور سنجیدہ نظر آرہا تھا حورین سامنے رکھی ڈرنک سے بار بار ایک سپ لیتی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی کچھ دیر یوں ہی گزر گئی جسٹس عالم اپنے ساتھی کے ساتھ یہاں آئے حورین اور حادی انہیں دیکھ کر کھڑے ہوگئے
مجھے بہت خوشی ہوئی تم لوگ میرے کہنے پر آئے۔۔ جسٹس عالم خوشی کا اظہار کرتے بولے
آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔ حادی مسکرایا
بھئی تم دونوں ایک ساتھ آتے ہو تو محفل میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔۔ حادی نے سر کو خم دیا حورین نے ایک گہری سانس اندر لی جسٹس عالم نے اپنے ساتھی کا تعارف کروایا
مسز حورین اور مسٹر حادی ایک اچھے پارٹنر ثابت ہوں گے۔۔ اگر یہ ایک ساتھ کیس لڑیں گے ۔۔ تو کوئی بھی کیس ہار نہیں سکتے۔۔ مگر افسوس یہ اکثر کیسز میں ایک دوسرے کے مخالف ہی لڑ رہے ہوتے ہیں۔۔ عالم اپنے ساتھی عبید کو بتا رہے تھے حادی کے دونوں ہاتھ اب پینٹ کی جیب میں تھے حورین کو فضا ایک دم گرم ہوتی محسوس ہوئی یا شاید وہ خود گرم ہو رہی تھی
اگر تمہیں کوئی کیس لڑنا ہو تو۔۔ مِس حورین تمہارا کیس ضرور لڑیں گیں۔۔ عالم نے حورین کی طرف رخ کیا
کیا واقعی ایسا ہے۔۔ مجھے تو بہت خوشی ہوگی۔۔ عبید نے ہاتھ حورین کی طرف پیش کیا حورین کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی وہ کچھ دیر اس کے ہاتھ کو دیکھتی رہی (اسے اپنا ہاتھ نہیں بڑھانا تھا)
پھر چہرے پر دوبارہ مسکراہٹ گہری ہوئی اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا
مجھے بہت خوشی ہوگی آپ کے کام آکر۔۔ وہ گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولی پھر کنکھیوں سے حادی کو دیکھا جو سپاٹ کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا
تو میں آپ کو کس نام سے پکار سکتا ہوں۔۔ مس حورین ؟۔ ۔ عبید نے محظوظ ہو کر پوچھا
مسز عبدالحادی!۔۔ حادی دانت پیسٹ ہوئے بولا حورین کے کھولتے لب ایک دم بند ہو گئے اور شعلہ باز انکھوں کے ساتھ حادی کو دیکھا
اوہ اچھا۔۔ اچھا لگا آپ دونوں سے مل کر۔۔ عبید کی مسکراہٹ سمٹ گئی
ہمیں بھی اچھا لگا۔۔ حادی نے سر کو خم دیا حورین بدقت مسکرائی۔
رات گہری ہو چکی تھی حادی سامنے نظر جمائے کار ڈرائیو کر رہا تھا اور حورین سپاٹ سی بیٹھی سامنے دیکھ رہی تھی
آپ کی کوشش بھی کیسے ہوئی اپنا نام میرے نام کے ساتھ جوڑنے کی۔۔ حورین حادی کو دیکھ غرائی
جو پہلے سے ہو چکا ہو اس میں کوشش کیا کرنی؟۔۔ حادی نے سامنے ہی دیکھتے ہوئے کندھے اچکائے
(حورین سوچ رہی تھی کہ آج وہ عینی کی بات مان ہی لیتی اور اسے شوٹ کر دیتی)
فکر نہیں کریں بہت جلد میں ہمارا نام۔۔ الگ کر کے دکھاؤں۔۔ گی آپ کو ۔۔ حورین تلخی سے بولی
تب کی تب دیکھی جائے گی۔۔ ابھی تو تمہیں میرے نام کے ساتھ ہی جینا ہے۔۔
اسے جینا نہیں کہتے۔۔ اسے گھٹ گھٹ کر مرنا کہتے ہیں۔۔ نا جانے کب تمہیں اپنا کیس ہر حال میں جیتنے کے لیے مجھے بھی قتل کرنا پڑے۔۔ حورین کی آنکھوں میں سرخی آگئی حادی کے دل پر جیسے کسی نے پاؤں دے دیا تھا کار حورین کے گھر کے باہر رک گئی
آئیندہ میرے ساتھ کسی بھی پارٹی میں جانے کے لیے۔۔ سوچنا بھی مت ۔۔ وہ غصے سے کہتی ہوئی دروازہ بند کر کے چلی گئی حادی نے تھوک نگلی جیسے اس نے بہت سے کرب کو بھی نگلا ہو حورین نے اسے " آپ" کہہ کر مخاطب کیا تھا لیکن وہ ایسا " آپ" تو سننے کی خواہش نہیں رکھتا تھا ۔
"سال پہلے "
کورٹ میں سماعت کا وقت تھا حورین نے سفید کرتا اور اوپر کالا کور پہن رکھا تھا بال آدھے کیچڑ میں اور آدھے سیدھے تھے اور ایک لٹ چہرے کو چھو رہی تھی اس کا رخ چیمبر میں بیٹھے شخص کی طرف تھا حادی نے سفید شرٹ اور کالا کوٹ پہنے بازو ٹیبل پر ٹکائے رکھے تھے اور منہ ہاتھوں پر ٹکائے حورین اور چیمبر میں بیٹھے شخص کی گفتگو سن رہا تھا
تو آپ کے مطابق مسٹر امجد اپنے آفس میں تھے ۔۔اور آپ نے انہیں دیکھا اپنے ٹیبل کی ڈرار سے وہ ڈاکومنٹس نکالتے ہوئے؟۔۔ حورین اب اس شخص کی بات دہرا رہی تھی
جی ایسا ہی ہے۔۔ زاہد بولا
تو اس کا مطلب مسٹر امجد نے جو ڈاکومنٹس غائب ہونے پر کیس کیا ۔۔وہ اصل میں انہوں نے ہی غائب کیے ہیں اور اسے چوری کا نام دے دیا۔۔ ایسا ہی ہے؟۔۔ حورین نے پوچھا زاہد اد نے نظر حادی کے پاس بیٹھے امجد پر ڈالی جو اسے غصیلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اس کے گلے میں گلٹی ابھری جو بمشکل وہ نیچے لے گیا اور حورین کو دیکھ کر سر ہلایا
دیٹس آل یور آنر۔۔حورین نے جج کی طرف رخ کر کے سر کو خم دیا اور اپنی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے اور بازو پر بازو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔۔ حادی اپنی کرسی سے اٹھا اور مسکراتا ہوا زاہد کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا
جی تو مسٹر زاہد۔۔آپ نے وہاں مسٹر امجد کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا ؟۔۔حادی نے پوچھا
جی۔۔زاہد نے جواب دیا
یا میں یوں کہوں کہ آپ نے مسٹر امجد کو بھی نہیں دیکھا؟ ۔۔حادی کے چہرے کی مسکراہٹ برقرار
تھی
جی ؟۔۔زاہد کو سمجھ نہیں آئی
جی کیونکہ آپ کے کیبنٹ سے آفس تک کا ویو کلیئر نہیں ہے آپ وہاں سے سب کچھ نہیں دیکھ سکتے۔۔ یہاں تک کہ چہرے بھی نہیں آپ کو کیبنٹ سے صرف اس شخص کے ہاتھ نظر آئے۔۔اور چونکہ آپ کو لگا وہاں مسٹر امجد کے علاوہ کوئی نہیں آ سکتا تو آپ نے اس شخص کو مسٹر امجد ہی مان لیا ۔۔حادی ریوانگی سے زاہد کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے بولا زاہد کا منہ کھلا رہ گیا اور چہرہ سپاٹ حورین کے بازو ڈھیلے پڑ گئے وہ ایک دم اٹھی
یور آنر!۔۔مسٹر حادی مس لیڈ کر رہے ہیں وہ اپنی طرف سے ہی کہانی بنا کر ویٹنس کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔۔
سسٹینڈ۔۔ جج نے ہتورا مارا اور حادی کو دیکھا
آپ وٹنس سے سوال کریں جواب انہیں خود دینے دیں۔۔حادی نے گہری سانس لی اور زاہد کے قریب آیا
مسٹر زاہد آپ مجھے بتا سکتے ہیں کیا آپ اس وقت اپنے کیبنٹ میں تھے۔۔جب مسٹر امجد آفس میں گئے؟۔۔ حادی نے پھر سے سوالوں کا سلسلہ جاری کیا
نہیں۔ میں تب ریسٹ روم میں تھا جب واپس آیا تو وہ آفس میں موجود تھے۔۔ زاہد گھبراہٹ کا شکار ہو چکا تھا
مطلب آپ نے انہیں آتے نہیں دیکھا؟۔۔حادی اس کے چہرے پر نظریں ڈالے سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا نہیں۔۔
جب مسٹر امجد آفس سے نکلے تو آپ نے انہیں نکلتے دیکھا؟۔۔
مجھے ۔۔یاد نہیں ۔۔وہ الجھ کر بولا
ہاں یا نہیں مختصر جواب دیں ۔۔حادی نے زور دے کر پوچھا
نہیں میں تب کلائنٹس میں مصروف تھا جب آفس میں دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔۔
نہ آپ نے انہیں آتے دیکھا نہ ہی جاتے دیکھا۔۔اور آپ کے کیبنٹ سے آفس میں بیٹھے شخص کا چہرہ نظر نہیں آتا۔۔آپ نے صرف اس کے ہاتھ دیکھے ۔۔تو کیا آپ ہاتھ دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ وہ مسٹر امجد کے تھے؟۔۔حادی کی آبرو اٹھی زاہد نے امجد کی طرف دیکھا جو تیکھی مسکراہٹ لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر حورین کی طرف نظر گھمائی جو سر دونوں ہاتھوں میں دے چکی تھی۔
نہیں۔۔ زاہد نے سر جھکا لیا ۔۔حادی نے رخ جج کی طرف موڑا
یور آنر!۔۔میرے موکل پر جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے گواہ کا بیان غیر قابل اعتبار ہے اور کچھ ثابت نہیں کرتا ۔۔حادی نے سنجیدی سے کہتے ہوئے سر کو خم کیا جج نے گہری سانس لی اور عینک لگا کر فیصلہ سنانے لگے
مددگار اثبات اور گواہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوا ہے کہ مجرم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا عدالت کی نظر میں مسٹر امجد نون گلٹی ہیں۔۔ جج کے فیصلے پر حورین نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور ایک سرد آہ بھر کر رہ گئی۔۔
حادی اور امجد کورٹ روم سے باہر نکل آئے۔۔ تمہارا شکریہ حادی تم بہت ماہر وکیل ثابت ہوئے ہو ۔۔اگر تم نہ ہوتے تو میں یہ کیس نہ جیت پاتا ۔۔امجد نے حادی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا
آپ کا بھی شکریہ ۔۔مجھے خوشی ہے کہ میں آپ کے کام آ سکا۔۔حادی نے مسکراتے ہوئے کہا
حورین بازو پر کوٹ لٹکائے گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی
حورین!۔۔ تب ہی آواز پر یک دم مڑی حادی مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے اس کی طرف بڑھا اسے دیکھتے ہی حورین کا منہ بن گیا
گھر جا رہی ہو؟۔۔ اس نے ایک نظر گاڑی کو دیکھا
ہاں۔۔حورین اکڑوں ہو کر بولی
تم مجھ سے خفا ہو ؟۔۔حادی نے بڑی ہی معصومیت سے پوچھا حورین بازو پر بازو جمائے اس کی طرف مڑ گئی
تم جانتے بھی ہو کہ امجد بے قصور نہیں ہے۔۔ پھر بھی تم نے کس طرح اس کا دفاع کیا ۔۔حادی کی مسکراہٹ سمٹ گئی وہ دو قدم آگے ہوا
حورین میرا کام اپنے موکل کا دفع کرنا ہے چاہے میں جانتا ہوں کہ وہ مجرم ہیں۔۔ میں اسے بڑی کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش کرتا ہوں۔۔ سنجیدگی سے بولا
لیکن یہ انصاف نہیں ہے حادی۔۔ حورین خفگی سے بولی
میں تمہارے جذبات سمجھتا ہوں حورین لیکن اس پیشے میں ہمیں اپنے ذاتی جذبات کو کنارے پر رکھ کر اپنے کلائنٹس کے لیے بہترین کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔۔
تم ایک بہترین بیڈ کاپ ثابت ہوتے ہو۔۔
میں اسے کمپلیمنٹ سمجھ کر رکھ لیتا ہوں۔۔ حادی نے چھیڑتے ہوئے بولا( حادی کو لفظوں میں مات دینا ناممکن تھا) حورین نے مسکراتے ہوئے سر جھٹک دیا جیسے سارے غصے کو بھی جھٹک دیا ہو
میں آؤں گا آج پھوپوں سے ملنے۔۔
آہاں ۔۔پھوپھو سے ملنے آنا ہے ؟۔۔حورین نے آبرو اٹھا کر دیکھا
ہاں بھئی پھوپھو کا گھر ہے تو پھوپھو سے ہی ملنے آؤں گا نا۔۔ حادی کے چہرے پر اب شرارت تھی
ہاں میں بھول گئی تھی وہ صرف تمہاری پھوپھو کا گھرہے۔۔ حورین لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی
صرف تو نہ کہو یار۔۔حادی اندر کی طرف جھکا اس کی آنکھیں سیدھا حورین کی آنکھوں پر جمی ہوئی تھیں حورین کا سانس پل بھر کو رک گیا اور وہ نظر اٹھائیں اسے ہی دیکھتی رہی پھر یک دم آنکھیں جھپکی اور سانس بحال کیا
تو اور کیا کہوں؟
وہ صرف میری پھوپھو کا گھر تو نہیں ہے۔۔ میری منگیتر کا گھر بھی ہے ۔۔اور کچھ دنوں میں شاید میری بیوی کا بھی ہو جائے ۔۔حورین کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری جسے وہ دونوں لب دبائے چھپا گئی
شاید!۔۔ حورین نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے حادی کو دیکھا اور دروازے کے ہینڈل کو پکڑے دروازہ بند کرنے لگی تو حادی پیچھے ہٹ گیا۔
" حادی دو سال کا تھا جب حورین دنیا میں آئی تھی تب ہی حادی کی ماں رفت بیگم نے حورین کو حادی کے لئے مانگ لیا تھا اور بچپن میں ہی ان کی منگنی طے ہوگئی تھی انہوں نے ابھی جوانی کی دہلیز پر پاؤں بھی نہ رکھا تھا جب حورین کے والد اورنگزیب اور حادی کے والدین عبدلرافع اور رفت بیگم کار اکسیٹنڈ میں دنیا فانی سے کوچ کر گئے حورین کی والدہ عدیلہ بیگم نے حادی کو اپنے ساتھ ہی رکھا اور رافع ویلا کو تالا لگ گیا۔۔جب حادی اتنا بڑا ہوا کہ وہ خود کو سنبھالنے لائق ہوگیا تو اس نے دوبارہ اپنے گھر جانے کی اجازت چاہی تھی جو عدیلہ بیگم کو بھی مناسب لگا "
حورین ڈرائیٹنگ روم میں داخل ہوئی تو دادا کو ٹیبل پر بیٹھے دیکھا جو اخبار پڑھنے میں مصروف تھے
اسلام علیکم دادا ابو کیسے ہیں؟۔۔ جمشید صاحب کی کرسی کے ساتھ والی کرسی پر کوٹ رکھا اور بیٹھ گئی
وعلیکم اسلام دادا کی جان میں ٹھیک ہوں۔۔ تم بتاؤ کیا بنا پھر آج؟ ۔۔جمشید صاحب نے اخبار سائیڈ پر رکھا اور دلچسپی سے حورین کو دیکھنے لگ گئے
حادی کے ہوتے ہوئے میرا کیا بننا تھا دادا ابو۔۔ حورین افسردگی سے بولی
کیوں کیا ہوا؟۔۔ اپنے دادا کو اب حورین پورے دن کی رو ُ دادسنا نے لگی
بے شک حادی ایک قابل وکیل ہے ۔۔ جمشید صاحب ہنس کر بولے
آپ کا مطلب میں کاقابل نہیں ہوں؟۔۔ حورین دادا کے انداز پر خفا ہوئی
نہیں میرا بچہ ۔۔ میں نے کہا کہ وہ قابل وکیل ہے۔۔ لیکن تم ایک ایماندار اور راست باز وکیل ہو۔۔ اور دونوں میں بہت فرق ہے۔۔(واہ کیا بات کہی دادا نے)
مطلب آپ مانتے ہیں نا کہ میں ایک اچھی وکیل ہوں؟۔۔حورین نے شان سے گردن اکڑائی
کیا باتیں ہو رہی ہیں دادا پوتی میں۔۔عدیلہ ہاتھ میں تھال لئے ان کے پاس بیٹھ گئی جس میں چکن رول کا مکسچر ٹھنڈا ہونے رکھ رہی تھی۔
کچھ نہیں میں اپنی بیٹی کی ذہانت کی داد دے رہا تھا۔۔ جمشید صاحب بولے حورین نے تھال دیکھتے ہی ہاتھ بڑھایا
مجھے تو اس میں ذرا برابر بھی ذہانت نظر نہیں آتی۔۔عدیلہ نے اس کے بڑھتے ہاتھ پر ہاتھ مارا لیکن وہ تو منہ میں لے ہی گئی ( گندی بچی چٹخارے کی شوقین)
یہ ذہانت تو مجھے شادی کے بعد شاید ہی آئے ممی۔۔ حورین نے غصہ ہوتی ماں کو اور غصہ دلا دیا
کرائیں ابو اس کی آج ہی شادی۔۔ اس بلا سے تھوڑا سکوں ملے ۔۔ عدیلہ کا تو سارا موڈ ہی خراب ہوگیا جیسے
بلایا ہے میں نے آج اسے کرلینا تم بات۔۔ جمشید صاحب ہنس دیئے حادی کے نام پر حورین پھولے نہیں سما رہی تھی اپنا کوٹ پکڑتی چلی گئی
رات کے وقت حورین بستر پر بیٹھی اپنے بالوں کا جوڑا بنا رہی تھی تب ہی موبائل کی رنگ ہوئی حورین نے بال باندھ کر فون اٹھایا
ہیلو حماد کیسے ہو؟۔۔
ہاں میں آج کل فارغ ہوں جب چاہو مل سکتے ہیں۔۔ حورین نے کچھ دیر بات کر کے فون رکھ دیا دروازہ کھلا اور عینی اندر آئی
حور آپی آپ کا موبائل چاہیے۔۔
وجہ ؟۔۔حورین نے آبرو اٹھائیں
کچھ سانگز سننے کا دل کر رہا ہے۔۔معصومانہ انداز میں بولی حورین نے ایک نظر دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا اور پھر عینی کو
تمہیں اس وقت موبائل چاہئے؟۔۔ وہ بھی گانا سننے کے لئے؟۔۔
جی!۔۔ اس نے بچوں کی طرح آنکھیں جھپکی
عینی چلی جاؤ یہاں سے اس سے پہلے میں ممی کو شکایت لگا کر تمہاری موت کو بلوا لوں۔۔ آنکھیں پھاڑ کر دیکھتی کہا ۔۔بس اتنا کہنا تھا کہ اگلے لمحے میں عینی غائب تھی
(تو بھلا عینی کا فون کہاں گیا ؟۔ہاں اس کے تو بارہویں کے امتحانات ہو رہے ہیں عینی ذہین تو بہت ہے لیکن اس کی عادتیں ان بچوں جیسی ہیں جنہیں امتحانات شروع ہوتے ہی کوئی نیا ڈرامہ دیکھنا یاد آ جاتا ہے یا کوئی نیا ناول پڑھنا یاد آ جاتا ہے تو ان سب سے دور رکھنے کے لیئے عدیلہ بیگم نے فلحال اس کا موبائل دور کر لیا تھا لیکن وہ تو دوسروں کے موبائل پر بھی گزارا کر ہی لے گی۔۔چچ چچ) *
دوپہر کے وقت سورج کو بادلوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور فضا خوشگوار تھی عدیلہ بیگم کچن میں مصروف کھانا بنا رہی تھیں اور خالدہ بوا ان کا ہاتھ بٹا رہی تھی جمشید صاحب معمول کے مطابق ڈرائنگ روم میں وہیل چیئر پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے عینی اپنے کمرے میں بستر پر بیٹھی ارد گرد کتابیں پھیلائے امتحان کی تیاری میں صبح سے مصروف تھی کچھ دیر یوں ہی گزر گئی پھر تھکاوٹ کے مارے اس نے انگرائی لی اور عینک اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی گہری سانس لیے اٹھ کھڑی ہو گئی کمرے سے باہر نکل کر سامنے حورین کے کمرے کی طرف بڑھی دروازہ کھول کر کمرے کا جائزہ لیا حورین کمرے میں نہیں تھی عینی نے موقع کو غنیمت جانا چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھے موبائل کی طرف بھوکی شیرنیوں کی طرح لپکی موبائل پکڑے اب کچھ سرچ کرنے لگ گئی
او ہ۔۔میں نے تمہیں بہت مس کیا۔۔ اس نے ویڈیو پلے کیا
باتھ کا دروازہ کھلا اور حورین بالوں کو ٹاول میں لپیٹے باہر نکلی تو عینی کو دیکھ حیران ہوئی عینی اسے دیکھ کر تھوڑا پیچھے ہو گئی
تمہارے ایگزمز ہو رہے ہیں عینی اور تم ہر وقت موبائل پر لگی رہتی ہو۔۔ حورین غصے سے بولی
میں نے بس ابھی ہی پکڑا ہے موبائل سچی۔۔
ہاں جب بھی تمہیں دیکھو تم یہی کہتی ہو ابھی پکڑا ہے ۔۔حورین نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں بولا۔۔عینی کا منہ بن گیا وہ بھی بہت بڑا
"سارا دن پڑھتے رہو تب کسی کو میری یاد نہیں آتی جیسے ہی موبائل پکڑو تو پوری دنیا میری طرف کسی مقناطیس کی طرح کھینچی چلی آتی ہے"
چلو اب دے دو ادھر۔۔ جا کر پڑھو ۔۔حورین نے ہاتھ بڑھایا
میں تو نہیں دے رہی۔۔ عینی نے موبائل کو لہرایا اور چہرے پر شرارت بکھیرے وہ موبائل لے کر بھاگ گئی
عینی کی بچی!۔۔ بچو تم مجھ سے۔۔ حورین نے بھی اس کے پیچھے بھاگنے کے لیے بالوں سے ٹاول اتار کر بیڈ پر پھینکا اور ڈوپٹہ گلے میں ڈالتے اس کے پیچھے بھاگی
عینی میرا موبائل شرافت سے واپس کرو ورنہ تم پر مقدمہ چلا دوں گی۔۔اور حورین کے اندر کا وکیل جاگ گیا وہ دونوں سیڑھیوں تک آگئیں
میرے پاس قابل وکیل موجود ہے ۔۔ عینی تو جیسے واقعی خود پر مقدمہ کروانا چاہتی تھی جمشید صاحب جو ڈرائنگ روم میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے انہیں بھاگتے ہوئے دیکھا
ارے ذرا دھیان سے گرنا ۔۔(جمشید صاحب کا مطلب گر جاؤ لیکن دھیان سے ۔۔ہممم)
حورین گیلے اور بکھرے بالوں کے ساتھ اس کے پیچھے بھاگتی جا رہی تھی دونوں ننگے پاؤں تھیں بھاگتے بھاگتے انہوں نے ڈرائنگ روم اور ڈائننگ روم بھی پار کر لیا ۔۔عینی!!۔۔ حورین اسے بلاتی لیکن اس پر کوئی فرق نہیں پر رہا تھا وہ بھاگتے مین ڈور تک آ رہے تھے حورین اچانک کسی سے ٹکرا گئی
عینی تم اتنی سخت کب سے ہو گئی۔۔ حورین نے ماتھے کو مسلتے ہوئے سامنے دیکھا اور بس دیکھتی ہی رہی وہ عینی نہیں ۔۔ حادی تھا
تم بھی خاصی سخت ہو۔۔وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھے مسل رہا تھا
ت۔تم۔یہاں کیسے؟؟۔۔وہ پھولے سانس کے ساتھ بمشکل بولی اور دو قدم پیچھے ہٹ گئی
لگتا ہے آپ کی یادداشت کمزور ہو گئی ہے۔۔حادی نے مسکراتے ہوئے آبرو اٹھائیں
میری تو نہیں ہوئی البتہ تمہاری ضرور ہوگئی ہے۔۔ جو کل کو آج بنا کے بیٹھے ہو۔۔وہ منہ بنائے دوبارہ سر کو مسلنے لگ گئی حادی ہنس دیا۔
تب ہی میں سوچوں کہ حور آپی کل سارا دن بیچاری دیوار پر لگی گھڑی کو دیدے پھاڑ کر کیوں دیکھ رہی تھیں۔۔عینی نے حادی کے پیچھے سے اپنا چھوٹا سا چہرہ نکالا اور ساتھ چھوٹی سی زبان بھی حورین نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا جو اب زبان کو دانتوں تلے چبا کرحادی کے پیچھے سے نکلی اور اندر کو بھاگنے لگی "عینی تمہارا قتل واجب ہو گیا ہے " حورین اپنے دونوں بازوؤں کو اوپر کرنے کے انداز میں اس کے پیچھے بھاگنے لگی کہ اس کے بازو کو پکڑے حادی نے اسے روک لیا اور وہ وہیں رک گئی "جیسے رک جانا تو لازم تھا"
گھر آئے مہمان کا بھی کچھ خیال کر لیں آپ۔۔حادی نے حورین کے گیلے بالوں پر ایک نظر ڈالی وہ ہر حال میں خوبصورت لگتی تھی۔۔
انہو۔۔ تم اپنی پھوپھو کے گھر آئے ہو تو مہمان بھی۔۔ تم اپنی پھوپھو کے ہو۔۔حورین نے حادی کے ہاتھ کی گرفت سے اپنا بازو آزاد کروایا
پھوپھو خاصی خاطر تواضع کریں گی تمہاری۔۔ کس انداز سے گردن اکڑا کر کہتی اندر چلی گئی اور حادی نے ہنستے ہوئے سر جھٹک دیا۔
حادی اب عدیلہ اور جمشید صاحب کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہو گیا اور یوہی دوپہر شام میں ڈھلتی گئی کچھ دیر بعد عینی سیڑھیاں چڑھتی بھاگتے ہوئے حورین کے کمرے کی طرف گئی اور دروازہ کھولا حورین جو بستر پر بیٹھی کچھ مصروف نظر آرہی تھی عینی کو دیکھ حیران ہوئی عینی کی سانس بھاگنے کی وجہ سے پھول چکی تھی
کیا کوئی قیامت آگئی ہے جو ایسے بھاگ رہی ہو؟۔۔
قیامت کا تو نہیں پتا ۔لیکن ۔آپ۔کی ۔۔عینی کے الفاظ پھولے سانس کے ساتھ ٹوٹ رہے تھے
ذرا تھم جاؤ کیا بول رہی ہو۔۔ کیا آپ کی؟۔۔ حورین الجھ کر بولی عینی نے گہری سانس لی اور خود کو نارمل کیا لیکن اب کی باراس کے چہرے پر خوشی نمایاں ہو رہی تھی
اگر میں نے بتا دیا تو آپ تھم کر رہ جائیں گی حور آپی۔۔ مسکراہٹ کو چھپائے ہوئے بولی
اگر تم نے سیدھے سے بتانا نہیں تو جاؤ ۔۔میں کام کر رہی ہوں۔۔ تمہاری پہیلیاں بجھانے کا وقت نہیں میرے پاس۔۔ حورین منہ بنا کر کہتی کام میں مصروف ہوں گئی
ممی اور حادی بھائی کی بات ہوئی ہے ۔۔شادی کے متعلق۔۔ عینی یکدم بولی حورین نے چہرہ اٹھا کر عینی کو دیکھا اس کا دل بہت زور سے دھڑکنے لگا اور سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں
اور اس مہینے کے آخر میں۔۔ حورین اورنگزیب کو سپرد عبدالحادی کرنا قرار پایا گیا ہے۔۔ حورین کا دھڑکتا دل تھم گیا اور بے ترتیب سانسیں اپنی جگہ رک گئیں جیسے اب وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی
اوہو ۔میں تو خبر سنانے آپ کے پاس بھاگ آئی۔۔عینی نے اپنے سر پر ہاتھ مارا
میں ذرا ہونے والے دولہے کو سی اوف تو کر آؤں۔۔وہ دروازہ بند کرتی چلی گئی حورین نے بند دروازے کو دیکھا پھر اٹھ کر کھڑکی کے پاس آئی اور باہر کی طرف جھانکا حادی مین ڈور پر کھڑا عدیلہ سے پیار لے کر دروازہ بند کر کے باہر نکلا اور سامنے سیاہ گاڑی میں بیٹھ گیا گاڑی روانہ ہوئی تو حورین کی نظروں نے گاڑی کا تعاقب کیا اتنے میں بیڈ پر رکھے موبائل کی رنگ ہوئی جیسے حادی کی گاڑی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوئی تو وہ کھڑکی سے ہٹ کر بیڈ کی طرف آئی اور فائلز کے نیچے گم ہوئے موبائل کو تلاش کیا تب ہی سکرین پر نام جلتا ہوا نظر آیا وہ حادی تھا حورین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آئی فون اٹھا کر کان سے لگایا
تمہیں خبر تو مل ہی گئی ہوگی۔۔ حادی کی آواز آئی
کون سی خبر؟۔۔ حورین نے انجان بننے کی کوشش کی
اب ایسے تو نا پوچھو۔۔ عینی جس راکٹ کی رفتار سے وہاں سے گئی تھی میں نے دیکھا ہے ۔۔حورین بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی
ویسے ہمارے بڑوں نے کوئی تو اچھا فیصلہ لیا۔۔ہماری بچپن میں منگنی کروا کے اور ۔۔اب عنقریب شادی۔۔ حادی کے لہجے سے اس کی خوشی صاف واضح تھی
لیکن تم نے مجھ سے تو پوچھا ہی نہیں۔۔ کہ مجھے تم سے شادی کرنی ہے یا نہیں ۔۔حورین کے چہرے پر شرارت تھی
اوہ۔ تو وہ میں اب پوچھ لیتا ہوں۔۔ حادی نے گہری سانس بھری
حورین اورنگزیب کیا تم مجھ سے ۔۔عبدالحادی سے شادی کرو گی؟۔۔ حادی کے اس طرح پوچھنے کے انداز پر کتنی لڑکیاں فدا ہو جائیں اور خود حورین بھی ہو گئی تھی
نہیں۔اوہو۔۔ اب کیا ہوگا جب تمہیں خالی ہاتھ بارات کے ساتھ واپس جانا پڑے گا ۔۔حورین نے اپنے ہنستے لب دانتوں تلے دبا دیے حادی نے قہقہہ لگایا۔
دیکھنا حورین میں اپنے ساتھ لاہور کے تمام دیوانہ وار عاشقوں کو اکٹھا کر لاؤں گا ۔۔پھر تو تمہیں اتنے عاشقوں کے سامنے اس عاشق کو ہاں کہنا ہی پڑے گا ۔۔بارات تو حورین کو لئے بغیر واپس نہیں جائے گی۔۔
دیکھتے ہیں ۔۔ حورین نے فون بند کر دیا وہ اتنا خوش تھی کہ پھولے نا سمائے اس کا بس چلتا تو وہ اپنی خوشی نمایاں ہی نہ ہونے دیتی تاکہ کسی کی نظر نا لگ جائے لیکن بھلا کیا وہ یہ خوشی کسی سے چھپا سکتی تھی؟
صبح کا وقت تھا حورین نے سفید کرتا اور کالا کوٹ پہنے بالوں کو پونی میں بند رکھا تھا سیڑھیاں اترتی ہوئی ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھ رہی تھی
حورین بیٹا تم کام پر جا رہی ہو؟ ۔۔ عدیلہ نے صوفے پر بیٹھے ہوئے حورین کو دیکھا
جی ممی۔۔ اس نے فائل بند کر دی
مطلب آج تم مصروف ہو گی۔۔
جی آج ٹرائل ہے اور اس کے بعد حماد نے ریسٹورنٹ بلایا ہے ملنےکے لئے ۔۔ حورین سامنے صوفے پر بیٹھ گئی اور فائل گھٹنوں پر رکھ دی۔
کوئی کام ہے آپ کو؟۔۔
نہیں میں سوچ رہی تھی آج شاپنگ کر لیتے ہیں کچھ۔۔ وقت زیادہ نہیں ہمارے پاس ۔۔
ممی آپ کو پتا تو ہے میں آپ کی پسند کی چیزیں ہی لیتی ہوں۔۔آج عینی کا آخری پیپر ہے تو آپ دونوں چلے جانا جو بھی اچھا لگے لے لینا۔۔
آج تو ٹھیک ہے لیکن ہر بار ایسا نہیں چلے گا بھئی شادی تمہاری ہے تو تمہارا ہونا ضروری ہے۔۔عدیلہ نے حفگی سے کہا حورین اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا کر اٹھ گئی
ٹھیک ہے ممی اللہ حافظ۔۔
خدا حافظ۔۔
حادی اپنے آفس کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور سامنے ٹیبل کے دوسری پار کرسی پر ایک خاتون دبلی پتلی اور تیکھی ناک والی بالوں کا جوڑا کیے ہوئے اور کانوں میں گول بالیاں پہنے ہوئے بیٹھی حادی کو دیکھ رہی تھی۔
میں نے تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کیا؟۔۔
نہیں بالکل نہیں آپ جب چاہیں آ سکتی ہیں۔۔ یہ آفس جتنا میرا اتنا حماد کا بھی ہے ۔۔حادی بولا
مجھے تم دونوں کی دوستی کو دیکھ کر رشک آتا ہے ۔۔
شکریہ تو آپ کا کیسے آنا ہوا؟۔مسز شفیع۔۔حادی نے کرسی سے ٹیک لگا لی
مجھے کیس کے لیے ایک قابل وکیل کی تلاش تھی اور مجھے یقین ہے کہ میں صحیح جگہ آئی ہوں۔۔وہ تیکھی مسکرا ہٹ کے ساتھ بولی
جی آپ بالکل صحیح جگہ آئی ہیں ۔۔ کیس کس کے متعلق ہے؟؟۔۔
تمہیں تو معلوم ہی ہوگا کہ بڑے بزنس میں ہر کسی کے پارٹنرز ہوتے ہیں۔۔ اسی طرح میرے بزنس میں بھی ایک پارٹنر ہے اور اس سے ایک چھوٹی سی غلطی ہو گئی ہے ۔۔ماہ جبین نے رک کر حادی کے چہرے کو بغور دیکھا ۔۔تو میں اپنے پارٹنر کی غلطی کی سزا اپنے بزنس کو تو نہیں دے سکتی ۔۔ میں چاہتی ہوں تم اس کے لیے لڑو ۔۔
اور ان کی غلطی کتنی چھوٹی ہے ؟۔۔اب کی بار حادی کے چہرے پر تیکھی مسکراہٹ ابھری
اتنی چھوٹی ہے کہ بس ایک لڑکی ہاسپٹل پہنچ گئی ہے ۔۔ماہ جبین نے اپنے دونوں بازو ٹیبل پر ٹکائے
آپ کا مطلب؟۔۔حادی کے ماتھے پر بل پڑے
ہاں میرا وہی مطلب ہے جو تم سمجھے۔۔ اس نے آبرو دو اٹھائیں
لیکن تم فکر نہ کرو۔۔کوئی وکیل اس لڑکی کے کیس کو پکڑنے کی غلطی نہیں کرے گا میں صرف احتیاطی تدابیر کا انتظام کر رہی ہوں۔۔
دوپہر کا وقت ہو چکا تھا حورین کورٹ سے فارغ ہو کر ریسٹورنٹ پہنچ گئی وہ چلتی ہوئی کسی کو ڈھونڈ رہی تھی تب نظر کسی پر ٹھہر گئی وہ مسکراتی ہوئی اس کے پاس پہنچی حماد موبائل میں مصروف نظر آرہا تھا
اہم اہم۔ ۔حورین نے اپنا گلا کھنکھارا حماد نے چونک کر دیکھا
اوہ تم آگئی۔۔ میں تمہیں ہی کال کرنے لگا تھا ۔۔موبائل ٹیبل پر رکھ کر سیدھا ہوا
" اس کی کلین شیو اور بال چھوٹے بلیک ٹی شرٹ جس کے بازو فل تھے اور جینز پہنی ہوئی تھی آنکھیں بڑھی اور لبوں پر آئی مسکراہٹ اسے کس قدر پرکشش بنا رہی تھی"
سوری مجھے تھوڑی دیر ہو گئی۔۔ حورین نے کرسی کھسکا کر اس پر کوٹ لٹکایا اور بیٹھ گئی
کوئی بات نہیں مجھے تو تمہارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ تم نے میرے لیے وقت نکالا۔۔
اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔۔ حورین نے ہاتھ اٹھا دیے
کیا لوگی تم؟۔۔ حماد نے ویٹر کو اشارہ کیا
تم کھلا رہے ہو ؟۔حورین نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا
ہاں بھئی میں ہی کھلاؤں گا ۔۔کیا لوگی بتاؤ۔۔ ویٹر ان کے پاس آگیا
پھر تو میں چکن چاومن ۔چکن منچورین۔ چکن سپیشلیک۔ اممم اور چیز پاستہ اور کوک۔۔ بس یہ لوں گی ۔۔حورین نے کسی بچے کی طرح انگلیوں پر گنتی کر کے اتنی چیزوں کا نام لیا
بس؟۔۔ حماد حیران ہوا اور پھر ویٹر کو دیکھا جو حورین کو ہی دیکھ رہا تھا کچھ دیر بعد ویٹر آرڈر لے آیا حماد نے چائنیز آرڈر کیا تھا اور حورین نے اتنی فرمائش کر کے بھی بس چیز پاستہ اور ڈرنک آرڈر کی۔
تم لوگوں کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی ہے ۔۔بہت مبارک ہو۔۔ حماد بائٹ لیتے ہوئے بولا
شکریہ ۔۔حورین مسکرائی
کیا تم دونوں ایک ساتھ ساری عمر گزار لو گے؟۔۔ حماد نے حورین کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا
کیا مطلب؟۔۔ حورین نے نظریں اٹھائیں حماد نے اپنے بازو ٹیبل پر ٹکائے
مطلب کے تم بے قصور لوگوں کا حق انہیں دلاتی ہو ۔۔اور دوسری طرف حادی برے لوگوں کو ڈیفینڈ کر کے دوسروں کا حق مار لیتا ہے۔۔ حورین کچھ دیر کے لیے اسے دیکھتی رہی
ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔۔ لیکن اگر اسے وکیل کی حیثیت سے نہ دیکھیں تو وہ بہت اچھا انسان ہے۔۔ سب کا دل رکھنا جانتا ہے۔۔
وہ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہوگا ۔۔مگر تم دونوں اکثر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہو تو تمہیں نہیں لگتا کبھی یہ تم لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہو گیا تو؟۔۔
نہیں ہماری ذاتی زندگی اور کام دونوں الگ ہیں حادی کا کہنا ہے کہ ہمیں کام میں اپنے ذاتی جذبات نہیں لانے چاہیے اور میرا بھی یہی خیال ہے۔۔ حورین نے ڈرنک کی ایک سپ لی
اور ویسے بھی یہ اچھا ہے کہ میں ایک گڈ کاپ ہوں اور وہ بیڈ کاپ ہے۔۔ اس طرح ہم کام میں لیول برقرار رکھ سکتے ہیں۔۔ حورین کندھے اچکا کر بولی
میری دعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو۔۔ حماد نےسرد آہ بھری
ویسے حادی تمہارا دوست ہے۔۔ اگر اس نے یہ بات سن لی ہوتی تو؟۔۔ حورین نے آنکھیں گول کر کے پوچھا
میڈم حورین میں تو ہزار بار اپنی اظہار رائے حادی کے سامنے پیش کر چکا ہوں۔۔ حماد نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا
پھر بھی تم زندہ ہو؟۔۔ حورین ہنس دی
نہیں ۔۔یہ تو تمہاری نظروں کا کمال ہے کہ تمہیں زندہ نظر آرہا رہا ہوں۔۔ بظاہر مذاق سے بولا لیکن اس کے لہجے میں چبھن سی محسوس ہو رہی تھی
لگتا ہے جو تھوڑی بہت کثر رہ گئی تھی تمہارے پاگل ہونے میں وہ پوری ہو گئی ہے ۔۔حماد نے کرسی کرسی سے ٹیک لگائی اور ہنس دیا۔
رات کو حورین گھر واپس آئی تو عدیلہ اور عینی نے شاپنگ کا سامان اسے دکھایا عینی نے نخرے کر کے اپنے لیے مشکل سے مہندی کا جوڑا پسند کیا تھا اور حورین کا بھی مہندی کا جوڑا لے لیا تھا جو حورین کو بہت پسند آیا وہ قدر ِتھکی لگ رہی تھی تو سامان دیکھ کر سونے چلی گئی
حادی نے گاڑی گراج میں پارک کی اور لاک کر کے اندر چلا گیا ڈرائنگ روم میں اندھیرا تھا وہ ڈرائنگ روم تک آیا تو اسے کسی چیز کی آواز آئی اس نے فوراً لائٹس آن کیں اور ادھر ادھر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا وہ آگے بڑھا تو نظر صوفے پر پڑی جہاں حماد گھوڑے بیچ کر سویا پڑا تھا
اسے تو اللہ ہی پوچھے۔۔ حادی نے کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا اور حماد کی طرف بڑھا وہ کافی گہری نیند کا شکار تھا حادی نے اس کی ٹانگ پکڑی اور کھینچ کر اسے نیچے گرا دیا
ممی !۔۔حماد درد سے چلایا اور ہڑبڑا کر اٹھ گیا حادی بازو پر بازو لپیٹے اسے گھور رہا تھا حماد صوفے کا سہارا لے کر اٹھا اور صوفے پر بیٹھ گیا
کوئی گھر آئے مہمان کے ساتھ اس طرح کرتا ہے بھلا؟۔ وہ ابھی بھی نیند میں لگ رہا تھا
میرے پیچھے سے تم چوروں کی طرح میرے گھر میں آئے پڑے ہو اور خود کو مہمان کہتے ہو؟۔۔حادی شرٹ کی ٹائی ڈھیلی کر کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا
چور مجھے تب کہو جب کوئی چیز چرالی ہو میں نے تمہارے گھر کی ۔۔میں تو اتنا پیارا خواب دیکھ رہا تھا اتنی خوبصورت لڑکی میری طرف آرہی تھی۔۔ وہ بڑے مزے سے اپنا خواب سنانے لگ پڑا
لگ رہا تھا جیسے میں آسمانوں میں اڑ رہا ہوں۔۔ لیکن تب تمہاری عنایت ہوئی مجھ پر آسمان سے زمین پر پٹک دیا مجھے۔۔ حماد کا منہ ہی بگڑ گیا حادی نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا
تم تو پتا نہیں دوستی کے نام پر کون سی دشمنی نبھا رہے ہو مجھ سے ۔۔نہ حقیقت میں کوئی لڑکی بھٹکنے دیتے ہو میرے پاس نہ ہی خواب میں۔۔
اگر تمہارا یہ خواب نامہ ختم ہو گیا ہو تو مجھے بتاؤ گے کہ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو ؟۔۔حادی نے تو اس کی بات کو اہمیت ہی نہ دی
سونے کے لیے آیا ہوں۔۔ حماد کی معصومانہ مسکراہٹ نکلی
تمہارے جانے کا راستہ وہاں ہے ۔۔حادی نے انگلی سے باہر کی طرف اشارہ کیا
یار بس آج کی رات میرا دوست نہیں؟۔۔(حماد کی یادداشت کو سلام )
تمہاری ہر روز بس آج کی رات ہی ہوتی ہے۔ کتنے دوگلے انسان ہو تم۔۔
شکریہ۔ حماد نے صوفے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں جیسے پھر خواب دیکھنے کی تیاری کررہا ہو حادی نے اسے دیکھ کر سر جھٹک دیا
آج تمہاری ممی آفس آئیں تھیں ۔۔ حادی نے صوفے سے ٹیک لگائی
ممی ؟۔۔حماد چونک کر سیدھا ہوا
وہ کس لیے آئیں تھیں؟۔۔
کسی کیس کے سلسلے میں۔۔
کیس ؟۔۔حماد حیران ہوا۔۔ کس چیز کا کیس؟۔۔
یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ۔۔حادی نے ہاتھ اٹھا دیئے
تو تم لڑ رہے ہو ان کا کیس؟۔۔ حماد کی تو نیند ایسے اُڑی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
میں نے کچھ وقت مانگا ہے سوچ کر بتاؤں گا۔۔ حادی نے کاندھے اچکائے کچھ دیر بعد حادی اپنے کمرے میں سونے چلا گیا اور حماد باہر صوفے پر ہی سو گیا تھا۔۔
صبح کا وقت تھا دھوپ تند و تیز سے نکلی ہوئی تھی حورین کار ڈرائیو کر رہی تھی اس نے ایک ہسپتال کے باہر کار روک دی ساتھ والی سیٹ سے بیگ اٹھایا اور باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا اس نے کالا کرتا اور پجامہ پہن رکھا تھا ساتھ کالا دوپٹہ گلے کے گرد باندھ رکھا تھا بال کھلے اور کچھ دوپٹے میں چھپ گئے ۔
چلتے ہوئے کاؤنٹر کے پاس آئی۔۔ مجھے عریشہ ولد نوریز سے ملنا ہے وہ کس روم میں ملیں گے؟؟ نرس نے اسے روم نمبر بتا دیا وہ بتائے گئے نمبر پر پہنچی تو اس کمرے کے باہر ایک درمیانی عمر کا شخص بیٹھا ہوا تھا
اسلام علیکم!۔حورین کی آواز پر اس شخص نے سر اٹھایا
وعلیکم السلام ۔۔آپ کون؟۔۔
مجھے نوریز صاحب سے ملنا ہے۔۔ کیا وہ اندر ہیں؟۔حورین نے کمرے کی طرف اشارہ کیا
میں ہی ہوں نوریز۔۔ لیکن میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔ وہ شخص کھڑا ہو گیا
میں وکیل ہوں حورین اورنگزیب۔۔ میں نے آپ کی بیٹی کے بارے میں سنا اور مجھے بہت افسوس ہے۔۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔۔ حورین نے افسردگی سے کہا
ن ۔نہیں وہ کسی سے نہیں ملے گی اور وکیل سے تو بالکل نہیں۔۔ نوریز تلخی سے بولا
مگر کیوں؟۔۔
کیونکہ کوئی بھی وکیل اس کی مدد نہیں کرے گا سب اپنے مقصد کے لیے آتے ہیں جب ان کا کام نکل جاتا ہے ۔۔تو کہتے ہیں ہم کیس نہیں لڑ پائے ۔۔حورین اس کی بات پر حیران ہوئی
میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں لیکن میں واقعی اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں آپ مجھے ایک بار اس سے ملنے دیں۔۔
آپ اس سے مل کر کیا کریں گی وہ کچھ بھی نہیں بولے گی۔۔ وہ اس دن سے کچھ نہیں بولی میں ترس گیا ہوں اپنی بیٹی کے منہ سے بابا سننے کے لیے ۔وہ کچھ نہیں بول رہی ۔۔ وہ دل برداشتہ ہو کر کرسی پر گر جانے کے انداز میں بیٹھ گیا
ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں؟۔۔ آپ کہیں تو میں ڈاکٹر سے بات کرتی ہوں۔ حورین جو خود نازک دل کی تھی وہ اس بے بس باپ کو دیکھ کر بس روہی دیتی لیکن اسے رونا نہیں تھا
کیا کہیں گے وہ بس یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ ابھی صدمے میں ہے ۔۔نویز نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دے دیا حورین کے فون کی رنگ ہوئی اس نے بیگ سے فون نکالا عدیلہ کی کال تھی
جی میں آرہی ہوں بس تھوڑی دیر ویٹ کر لیں۔۔حورین نے فون دوبارہ بیگ میں ڈالا عدیلہ نے اسے خاص تاکید کی تھی کہ آج اسے شاپنگ کے لیے ساتھ جانا ہے
آپ اپنا اور عریشہ کا خیال رکھیں میں پھر چکر لگاؤں گی ۔۔حورین اسے تسلیاں دے کر چلی گئی۔
ماہ جبین ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ڈنر کر رہی تھی اس نے کالا لباس پہنا ہوا تھا گلے میں موتیوں کا سفید ہار اور کانوں میں سفید موتی کی بالیاں تھیں اور بال کر ل کئے کچھ آگے اور کچھ پیچھے تھے وہ ہر وقت تیار رہتی تھی۔ حماد کل کا گیا اب گھر لوٹا تھا وہ ڈائننگ روم میں آیا
ارے میرا بچہ۔۔ ماہ جبین اسے دیکھ بہت خوش ہوئی حماد سلام کر کے اس کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا
آؤ تم بھی کھانا کھا لو ۔۔ندرت حماد صاحب کے لیے کھانا نکالو۔۔ اس نے کھڑی ملازمہ کو کہا
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ حماد نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا
تم کل سے کہاں تھے؟۔۔مجھے لگا آج بھی نہیں آؤ گے تمہیں پتا ہے نا میں تمہارے بغیر کتنی تنہا ہو جاتی ہوں۔۔ ماہ جبین نے رخ حماد کی طرف کر لیا
تنہا تو انسان تب ہوتا ہے جب وہ اکیلا ہو اور میں نے تو آج تک آپ کو کبھی اکیلا نہیں دیکھا ممی ۔۔حماد کے چہرے پر تیکھی سی مسکراہٹ آئی
کبھی آپ اپنے بزنس پارٹنر کے ساتھ مصروف ہوتی ہیں۔کبھی ورکرز کے ساتھ یا کبھی وکیلوں کے ساتھ۔۔ آپ کو ان سب میں تنہا ہونے کا وقت کب ملتا ہے صرف کھانے کے وقت؟؟۔حماد نے سر جھٹکا ماہ جبین نے حماد کا ہاتھ اپنے ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لیا اور نرمی سے دبایا ۔
میں جتنی بھی مصروف ہوں میرے بچے تمہارے خیال سے کبھی غافل نہیں ہوئی اور یہ سب میں تمہارے لیے ہی کر رہی ہوں تمہارا مستقبل روشن کرنے کے لیے۔۔ آخر تم میری اکلوتی اولاد ہو میرے پاس جو سب ہے اس کے واحد وارث ہو تم۔۔۔ حماد نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اور ماہ جبین کے ہاتھ خالی رہ گئے
میں بار بار کہہ چکا ہوں۔اب دوبارہ کہہ دیتا ہوں مجھے آپ کے بزنس میں کوئی انٹرسٹ نہیں جس کی بنیاد معصوم اور بے قصور لوگوں کے خون یا آنسوؤں سے بنتی ہے۔۔ کیونکہ آپ یہ تو نہیں کہہ سکتیں مجھے کہ یہ سب آپ کے خون پسینے کی کمائی ہے اس کے ملبے تلے کتنے لوگ دفن ہوئے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں میں جانتا ہوں۔۔ اور انہی سب کی وجہ سے میرے بابا ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔۔ حماد کے ایک ایک لفظ میں کرواہٹ تھی جو ماہ جبین کے حلق تک کو بھی محسوس ہوئی
تمہارے اندر میرے لیے اتنی کڑواہٹ کیوں ہے حماد؟۔ اس نے رنج سے پوچھا
آپ نے اب کون سا نیا کیس کھولا ہے اپنے لیے۔۔ جس میں حادی کی ضرورت ہے آپ کو؟۔ حماد نے ماہ جبین کی بات نظر انداز کی
میں کچھ نہیں کرتی بیٹا میں تو بس دوسروں کے پھیلائے گند کو صاف کرنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ مجھے نقصان نہ ہو۔۔ ماہ جبین نے کندھے اچکائے
جو بھی۔۔ میں سونے جا رہا ہوں۔۔وہ کرسی کھسکا کر اٹھ گیا ماہ جبین نے پانی کا گلاس پیا اور ٹیبل پر زور سے رکھا اس کی گونج پورے ڈائننگ روم میں پھیلی تھی
وہ کمرے کا دروازہ بند کر کے ٹیرس کی طرف بڑھا سلائیڈر ونڈو سائیڈ پر کیا اور ٹیرس میں کھڑا ہو گیا وہاں سے دور دور تک سب کچھ نظر آتا تھا وہ کافی دیر تک وہاں کھڑا دیکھتا رہا کہ اچانک اس کی انکھوں میں سفید روشنی آئی اور سامنے کا منظر بدل گیا
" حماد کال سن کر کلاس میں واپس آیا تو دیکھا کرسی پر اس کا بیگ موجود نہیں تھا جو وہ ابھی چھوڑ کر گیا تھا اس نے پاس موجود کرسیوں پر دیکھا اور دوسرے سٹوڈنٹس کو بھی دیکھا جو سب ایک دوسرے سے بات کرنے مصروف تھے پھر اس کی نظر دروازے پڑ گئی جہاں حادی ٹیک لگائے کھڑا تھا اور حماد کو ہی دیکھ رہا تھا اور تب حماد نے جان لیا کہ اس کا بیگ کہاں ہو سکتا ہے وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے حادی کی طرف بڑھا اور اس کے بالکل سامنے کھڑا ہو گیا
شرافت سے بتا دو میرا بیگ کہاں ہے۔۔۔
تمہارا بیگ؟۔ مجھے تو لگا آج حماد شفیع بیگ کے بغیر آئے ہیں۔۔ حادی نے لاپرواہی سے کندھے اچکا دیے حماد نے پینٹ کی جیب سے ہاتھ نکالا اور حادی کے کاندھے پر رکھا جہاں اس نے اپنا بیگ لٹکا رکھا تھا
میں بیگ کے بغیر نہیں آیا لیکن تم ضرور بیگ کے بغیر جاؤ گے۔۔ حادی سیدھا ہوا
ہاں پلیز مجھ پر یہ احسان کر دے تاکہ مجھے نہ پڑھنے کا بہانہ ہی مل جائے ۔۔حادی اپنا بیگ اتارنے لگا
کیا ہو رہا ہے بوائز ؟۔۔حورین چلتے ہوئے ان کے پاس آئی اس نے سبز رنگ کی قمیض اور سیاہ پجامہ پہن رکھا تھا اور بالوں کی پونی بندھی ہوئی تھی
کچھ نہیں آج حماد یونیورسٹی بغیر بیگ کے آیا ہے۔۔تو میں اسے بس اپنا بیگ دے رہا تھا ۔۔حادی نے بیگ حماد کی طرف کیا
سچ میں؟ حورین نے حیرت سے حماد کو دیکھا
نہیں یار اس نے میرا بیگ غائب کیا ہے ۔۔حماد احتجاجً بولا
میں نے نہیں کیا ۔۔جا اب تجھے اپنا بیگ بھی نہیں دے رہا بھلائی کا زمانہ ہی نہیں ہے ۔۔حادی نے بیگ کاندھے پر واپس لٹکا دیا حورین حادی کو گول آنکھیں کیے گھوریاں ڈالنے لگی
مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ؟۔۔وہ حورین کی انکھوں سے بچتے ہوئے بولا
تم جانتے ہو میں تمہیں کیوں دیکھ رہی ہوں ۔۔ دیکھو کلاس شروع ہونے والی ہے اس کا بیک واپس دے دو ورنہ مجھے نکلوانا آتا ہے۔۔حورین بازو کو اوپر کرنے کے انداز میں بولی
اچھا اچھا ۔۔دے رہا ہوں۔۔ حادی نے اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کر لیے جہاں وہ سب کھڑے تھے اس سے تھوڑا دور ایک پلر تھا حادی پلر کی طرف بڑھا اور اس کی اوڑھ سے کالا بیگ نکالا حورین نے مسکراتے ہوئے حماد کو کندھا مارا
اس طرح نکلواتے ہیں کام۔۔ حماد ہنس دیا حادی بیگ پکڑے ان کی طرف آیا اور حماد کے سامنے بیگ بڑھایا اس نے بیک تھاما تو وہ اتنا ہلکا تھا کہ ہوا میں بھی اڑ جائے حماد نے فوراً بیگ کھول کر دیکھا تو اس میں کچھ نہ تھا پھر حیرت سے حادی کو دیکھا
میری کتابیں کہاں ہیں؟۔۔
کون سی کتابیں؟۔۔ حادی نے انجان بنتے ہوئے پوچھا حورین منہ پر ہاتھ رکھے ہنسنے لگ گئی حماد نے ایک نظر اسے دیکھا
سوری سوری۔۔ وہ اپنی ہنسی کنٹرول کرتی ہوئی بولی۔۔حادی نہ تنگ کرو اسے اس کی کتابیں واپس کرو
اوہ اچھا وہ کتابیں ۔۔وہ تو میں لائبریری میں کسی کو دے آیا میں نے سوچا کسی بیچارے کا بھلا کر دوں
خدا کی قسم میرے ہزار دشمن مرے ہوں گے تب کہیں تم جا کر پیدا ہوئے ہو گے۔۔ حماد کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ سامنے کھڑے حادی کو سو لاتے اور گھونسے مارے اور گنے ایک۔
بیسٹ آف لک میرے دوست۔۔ وہ ہوا میں ہاتھ لہراتا کلاس میں چلا گیا
آؤ ہم لائبریری میں تمہاری کتابیں ڈھونڈیں جلدی سے۔۔حورین اسے پکڑے لائبریری آگئی وہ لائبریری پہنچے تو وہاں موجود لوگوں کو دیکھ کر حماد کی ہوا نکل گئی
اتنے لوگوں میں کس کس سے پوچھیں؟۔۔اس نے حورین کو دیکھا جو لوگوں کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی دیکھتے دیکھتے اسکی نظر کاؤنٹر پر پڑی ۔
مل گئیں تمہاری کتابیں۔ ۔حورین آنکھوں میں چمک لئے بولی
لیکن مجھے تو نہیں نظر آرہیں ۔۔حماد نے کاؤنٹر کی طرف دیکھا
چلو تم میرے ساتھ۔۔ حورین اسے بازو سے پکڑتی کاؤنٹر تک لے گئی وہاں کی انچارج ایک لڑکی تھی
السلام علیکم! ۔۔ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا۔۔حورین نے اسے مخاطب کیا
وعلیکم السلام! جی پوچھیں۔۔ وہ لڑکی ان کی طرف متوجہ ہوئی
کوئی لڑکا آپ کے پاس کتابیں رکھوا کر گیا ہے؟۔۔حورین کے سوال پر لڑکی نے حماد کو دیکھا جو سنجیدہ نظر آرہا تھا
جی بالکل۔۔ اس نے کہا تھا کے اس کا دوست لائبریری میں کتابیں بھول گیا ہے اور اس کی کلاس کہیں اور ہے وہ واپس آئے تو اسے دے دیں۔
حادی تمہیں چوبیس توپوں کی سلامی۔۔ حماد منہ میں بڑبڑایا
جی اس کا وہ دوست یہ کھڑا ہے آپ اسے اس کی کتابیں دے دیں۔۔ ہماری کلاس بس شروع ہونے والی ہے ۔۔حورین نے حماد کو پکڑ کے آگے کیا
آپ کا نام؟۔۔ لڑکی نے تصدیق چاہی
حماد شفیع۔۔اس نے ڈرار میں رکھی کتابیں پکڑ کر حماد کے سامنے رکھ دیں جو اس نے بیگ میں ڈال لیں اپنے سامان کی خود حفاظت کریں۔۔ ہر بار حورین تمہیں کتابیں ڈھونڈ کر نہیں دے گی۔۔ وہ ناز سے کہتی ہوئی آگے چلے گئی اور حماد وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا اس کے دل نے چاہا کہ وہ ہر بار اپنی کتابیں گھما دے اور ہر بار حورین سے اس کی کتابیں ڈھونڈ کے دے ( کتنی معصوم چاہت تھی اس کے دل کی ) آنکھوں میں پھر روشنی اتری اور منزل بدل گیا اور وہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا۔
ِ
دوپہر کا وقت تھا کورٹ روم میں سماعت ہو چکی تھی اور جج چلا گیا حورین کرسی سے فائل پکڑے اٹھ گئی دوسرا وکیل گلا کھنکھارتا ہوا اس کے سامنے کھڑا ہو گیا
کبھی تو آپ ہار جایا کریں مجھ سے۔ مِس حورین۔۔
ہارنا ۔وہ کیا ہوتا ہے؟۔۔ حورین سوچنے کے انداز میں بولی
وہ جو آپ چالوباز وکیل حادی سے اکثر وصول کرتی ہیں۔۔ وہ مسکرایا
ان کی ذہانت اور قابلیت کو آپ چال بازی کا نام دے رہے ہیں ۔۔چچ چچ! اس نے افسوس سے سر کو دائیں بائیں ہلایا
لگتا ہے جلد ان کی ذہانت آپ پر بھی اثر دکھائے گی۔۔ بیسٹ آف لک۔۔اس نے سر کو خم دیا
آپ کا شکریہ مسٹر وقار۔۔حورین نے آبرو اٹھائی اور وہ مسکرا کر سر جھٹکتا ہوا چلا گیا
حورین اب کورٹ روم سے باہر آگئی سیدھا چل رہی تھی کہ اپنی طرف آتے حادی کو دیکھا وہ پینٹ کی جیب میں دونوں ہاتھ دئیے اس کی طرف آرہا تھا اس نے سفید شرٹ کے اوپر کالا کوٹ پہن رکھا تھا اور چلتے ہوئے حورین کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا
السلام علیکم !۔۔لہجہ پرجوش تھا
وعلیکم السلام۔۔حورین آہستہ لب بولی
کیسی ہو؟۔۔ حادی نے حورین کو سرتا پاؤں دیکھا
میں ٹھیک ہوں۔۔ تم کیسے ہو ؟۔۔
میں ہمیشہ کی طرح ہینڈسم۔۔حادی نے گردن اکڑائی
ہاں وہ تو نظر آرہا ہے۔۔حورین لب دبائے مسکرائی
ویسے تم اتنے دنوں سے مجھے نظر نہیں آئی۔۔کہیں مجھ سے شرمانے تو نہیں لگ گئی؟۔
میں اور شرمانے لگ گئی۔۔ وہ بھی تم سے ؟۔حورین کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
تو شرمانہ کب سیکھو گی تم؟۔۔ حادی کا تو موڈ ہی خراب ہو گیا
آپ کے خوابوں میں۔۔ حورین بالوں کو پیچھے کرتے آگے نکل گئی اور حادی کچھ دیر کے لیے سانس لینا بھول گیا اور یک دم مڑا.
تم نے کیا کہا ؟۔۔دور جاتی حورین کو پکارا وہ جاتے ہوئے پلٹی
میں نے کہا تمہارے خوابوں میں۔۔ وہ ہونٹوں کے گرد ہاتھوں کا دائرہ بنا کے اونچی بولی اور پلٹ کر چلتی بنی "نہیں اس نے یہ تو نہیں کہا تھا اس نے حادی کو آپ کہا تھا اور کتنا پیارا کہا تھا حادی گہری مسکراہٹ کے ساتھ اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا"
رات کا وقت تھا حورین عدیلہ اور عینی کے ساتھ شاپنگ کر کے آئی اور اب دادا ابو کو اپنی شاپنگ دکھا رہے تھے شادی میں ہفتہ ہی رہ گیا تھا
میرے لہنگے کے ساتھ میچنگ ایئرنگز نہیں آئیں۔۔مجھے نہیں پتا میں نے ایسے شادی میں شرکت نہیں کرنی۔۔ عینی بڑا سا منہ بنائے لہنگا ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی
چلیں ممی ایک افراد کا کھانا بچ گیا ہے۔۔ حورین نے صوفے سے ٹیک لگا لی
حور آپی۔۔عینی نے خفگی دکھائی
تو تم اتنے نخرے کیوں دکھا رہی ہو؟۔۔عدلیہ حورین کی بارات کا ڈریس سمیٹ رہی تھی
ارے کوئی بات نہیں شادی میں ابھی دن ہیں۔۔ اسے کل لے جانا اپنی پسند سے لے لے گی۔۔ جمشید صاحب بولے
ہاں نا دادا ابو ۔۔آخر دلہن کی اکلوتی بہن ہوں تھوڑا سا تو خوبصورت دکھنے کا حق ہےنا مجھے ۔۔عدیلہ ڈریس سمیٹتے اٹھ گئی
ارے تمہیں لگنے کی کیا ضرورت ہے۔۔ تم پہلے ہی اتنی خوبصورت ہو میری جان کے لوگ تم پر رشک کریں گے ۔۔ حورین مسکراتی ہوئی بولی جس پہ عینی کا تو سارا غصہ بھک سے اڑ گیا جمشید صاحب بھی سونے کے لیے چل دئیے
خیر ویسے تو پوری دنیا کے لوگ آپ پر رشک کرتے ہیں۔۔ عینی کی مسکراہٹ سے آنکھیں گول ہوئیں
وہ کیوں بھئی؟۔
کیونکہ آپ کی پہلی محبت ہی آپ کا مقدر بننے جا رہی ہے۔۔
تم نا ڈرامے کم دیکھا کرو ۔۔حورین مسکراہٹ دبائے بظاہر لاپرواہی سے بولی
ارے یہ کسی ڈرامے کا ڈائیلاگ نہیں ہے ۔۔یہ تو میرے دل سے نکلی ہے بات ۔۔عینی نے کندھے اچکائے
تو کیا تمہارے ڈراماز اور ناولز میں پہلی محبت کسی کا مقدر نہیں بنتی؟۔۔ حورین نے جیسے خود پر رشک کیا
نہیں ایسا نہیں ہے مگر میری فینٹسی یہی کہتی ہے ۔۔کہ پہلی محبت آپ کے مقدر میں نہیں ہوتی لیکن دوسری محبت کے چانسز ہوتے ہیں کہ شاید وہی آپ کی آخری محبت ہو۔۔حورین عینی کی بات پر حیران ہوئی
لیکن میرے خیال میں تو دوسری محبت کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔۔
ایسا کیوں؟۔۔ عینی نے آنکھوں سکیڑ کر حورین کو دیکھا
کیونکہ بھئی ہم پہلی محبت کے جوئے میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں چاہے اس میں ہمیں مات ملے یا جیت۔۔ ایسے میں دوسری محبت میں داؤ پر لگانے کے لیے کسی کے پاس کیا بچتا ہوگا؟۔ حورین کندھے اچکاتی ہوئی اٹھ گئی۔۔ میں سونے جا رہی ہوں۔۔
توبہ توبہ۔ میری فینٹسی زیادہ اچھی تھی۔۔ ہیپی اینڈنگ۔۔ وہ جھنجلاہٹ کے ساتھ بڑبڑائی
دوپہر کے وقت دھوپ نے خاصی شدت مچا رکھی تھی حورین نے نیلا فراک پہن رکھا تھا آنکھوں پر بلیک سن گلاسز اور سر کونیلے دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا وہ ہاسپٹل میں داخل ہوئی اور گلاسز اتار دئیے چلتے چلتے اسی کمرے کے باہر آئی وہ شخص باہر ہی کرسی سے سر ٹکائے بیٹھا تھا حورین اس کے قریب گئی
السلام علیکم!۔۔ نوریز گھبرا کر سیدھا ہوا تو نظر حورین پر پڑی
وعلیکم السلام۔۔آپ یہاں پھر سے؟۔۔وہ کھڑا ہو گیا
میں نے کہا تھا نا میں دوبارہ آؤں گی۔۔ لیکن معذرت مجھے آنے میں کافی دن لگ گئے۔۔ حورین معذرت کرتے بولی
آپ کیوں آئی ہیں میڈم میں نے آپ کو منع کیا تھا نا۔۔نوریز پریشان ہوا
دیکھیں مجھے ایک بار عریشہ سے ملنے تو دیں۔۔ میں اس سے بات کروں گی۔۔
کیا بات کریں گی آپ۔۔اگر وہ کچھ بولے گی تو اسے ہمیشہ کے لیے چپ کروا دیا جائے گا۔۔ میں آپ کے ہاتھ جوڑتا ہوں پلیز اس بے بس باپ پر رحم کھائیں۔۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی حورین کا دل بہت برا ہوا
ا سے کچھ نہیں ہوگا۔۔ کوئی ا سے کچھ نہیں کرے گا۔م۔میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں میرا یقین کر یں اس کی حفاظت میری ذمہ داری ہوگی ۔۔اگر آپ نے اسے ابھی نہ بولنے دیا تو وہ ساری زندگی کسی سے کچھ نہیں کہہ سکے گی۔۔ وہ ہمیشہ ڈرتی رہے گی۔۔ حورین کے دل میں جو تھا وہ بولتی چلی گئی حورین کی بات سنتا نوریز کسی سوچ میں گم نظر آیا پھر اس نے نظریں اٹھا کر حورین کو دیکھا
میں عریشہ بیٹی سے بات کروں گا۔۔ آپ دوبارہ آسکتی ہیں؟؟۔
جی آپ جب کہیں میں آ جاؤں گی۔۔حورین کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی
اگلے ہفتے کے جمعہ کو۔۔ نوریز نے سوچ کر بتایا
جمعہ کو ؟۔۔حورین حیران ہوئی آج ہفتہ تھا اور اگلے ہفتے کی جمعہ کو اس کی رخصتی تھی
کیوں نہیں آ سکتیں؟؟۔۔
نہیں میں آ جاؤں گی آپ عریشہ کا خیال رکھیں۔ میں چلتی ہوں اللہ حافظ ۔۔کہتی چلی گئی
آج جمعرات کی خوشگوار صبح تھی حورین اور حادی کی مہندی کا دن اور مہندی کے دن ان کا نکاح بھی پڑھایا جانا تھا اور جمعہ کو رخصتی تھی لان میں پھولوں کی سجاوٹ کی جا رہی تھی ہر جگہ لال اور پیلے پھول سجائے گئے تھے حماد ایک سٹول پر چڑھ کر پیلے پھولوں کی لڑی لگانے میں مصروف تھا عدیلہ لان میں آئی تو اس نے سٹول پر چڑھے حماد کو دیکھا
حماد بیٹا تم کیوں پھول لگا رہے ہو؟۔۔ اتنے لوگ ہیں کام کے لیے ان سے کام کرواؤ۔۔ حماد پیچھے مڑا
نہیں آنٹی میں نے سوچا میرے دوست کی شادی ہے تو ایک دو پھول میں بھی لگا دوں۔۔ اس کا ایک بازو اوپر کی طرف لڑی اٹھائے تھا عینی ہاتھ میں پھولوں کی ٹوکری لیے ان کے پاس آئی
چلو بیٹا جیسے تمہاری مرضی مگر دھیان سے خود کو چوٹ مت لگوا لینا۔۔ عدیلہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی
بڑی ہی نیک سوچ ہے آپ کی حماد بھائی۔۔یہ لیں میں نے پھول نکال دیے ہیں اس میں۔۔ پیلے اور لال پھول الگ کر کے دھیان سے انہیں بھی لگا دینا۔۔ پھولوں کی ٹوکری ساتھ والے ٹیبل پر رکھ دی حماد نے رکھے پھولوں کو دیکھا
انہیں الگ بھی کر لیتی بھلا۔۔
نہیں میں نے نکال دیا وہی بہت ہے۔۔ عینی آنکھیں بڑی کرتے ہوئے بولی
اوہو ۔۔عینی میڈم تم نے اتنا زیادہ کام کر کے تومجھ پر احسان ہی کر دیا ہے۔۔ حماد نے دوسرے ہاتھ سے سلیوٹ کرتے ہوئے بولا
کوئی بات نہیں۔۔عینی ہاتھ جھاڑنے کی انداز میں کہتی پلٹ گئی حماد سر جھٹکتا رہ گیا اس نے ایک نظر پھولوں کو دیکھا اور انہیں دیکھتا رہا اس کی آنکھوں میں پھر روشنی آئی اور منظر بدل گیا
"حماد حورین اور حادی یونیورسٹی کے باہر ٹہل رہے تھے حورین کی نظر جنگلے کے پار پھولوں پر پڑی وہاں مختلف پھول لگے ہوئے تھے
حادی مجھے وہ پھول لینے ہیں کتنے پیارے ہیں۔۔ اس نے رک کر حادی کو پھولوں کی طرف اشارہ کر کے بولا
تو لے لو۔۔ حادی کندھے اچکاتے ہوئے بولا
جنگلے سے گزرتے میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے تم لا دو نا۔۔وہ کسی بچے کی طرح فرمائش کر رہی تھی
میرے بھی خراب ہو جائیں گے ۔۔وہ آگے بڑھ گیا حورین منہ بسورے اسے جاتے دیکھتی رہی پھر نظر حماد پر ڈالی اور معصومانہ دانت نکالے
میں نہیں جا رہا سوری۔۔ حماد نے اپنے ہاتھ کھڑے کر لئیے
حماد تم تو لا دو۔۔ اب ترلے کرواؤ گے کیا؟۔ تم حادی کی طرح مجھے منع نہیں کر سکتے۔۔
کیوں ۔میں کیوں منع نہیں کر سکتا ؟۔۔حماد نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا
اسے تو میں مفت میں مل گئی ہوں اس لیے قدر نہیں اسے میری۔۔تم تو دوست ہو نا میرے مجھے وہ بھول چاہیے ۔۔حماد اسے بچوں کی طرح پھولوں کی فرمائش کرتے دیکھ ہار گیا "وہ صحیح تو کہہ رہی تھی کیونکہ حماد کو صحیح معنوں میں اس کی قدر کا پتا تھا وہ اسے مفت میں ملی جو نہیں تھی"
حماد اپنا بیگ اسے تھمائے پھولوں کی طرف بڑھا جنگلے سے گزرتے ہوئے اس کی انگلی پر لگ گئی وہ درد سے اپنے ہاتھ کو جھٹکنے لگ گیا اور پھولوں کے قریب پہنچ کر حورین کی طرف دیکھا جو اسے خوشی سے دیکھتے ہوئے پھول کی طرف اشارہ کر رہی تھی
وہ۔ وہ والا۔۔ اس نے اشارے سے پھول کا بتایا حماد نے وہ پھول توڑ لیا
اور وہ۔۔ وہ بھی۔۔ اس نے ایک اور پھول کی طرف اشارہ کیا حماد نے آگے ہو کر وہ پھول بھی توڑ لیا اور واپس آنے کے لیے جنگلے سے گزرنے ہی والا تھا کہ
وہ پلیز ۔وہ والا پھول بھی لے لو۔۔حورین نے ایک اور پھول کی فرمائش کی حماد اسے منہ کھولے دیکھ رہا تھا پھر واپس پلٹا اور ایک اور پھول توڑا واپس آنے لگا تھا اور اب دعا کر رہا تھا کہ دوبارہ آواز نہ آئے اس نے جھٹ سے جنگلا پار کیا اور حورین کے سامنے پھول کر دیئے حورین نے جلدی سے پھولوں کو تھام لیا اور انہیں چہرے کے پاس لے جا کر ان کی خوشبو کا خمار اپنے اندر اتارنے لگی حماد اسے دیکھ کر مسکرایا تھینک یو۔۔حورین پھولوں کے حصار سے نکلی اور پھر حماد کا شکریہ ادا کیا"
آنکھوں میں پھر روشنی اتری اور منظر بدل گیا حماد سر جھٹکتا پھر پھول لگانے میں مصروف ہو گیا
رات کا وقت ہو چکا تھا لان پھولوں اور جگمگاتی روشنیوں سے سج چکا تھا سٹیج کو بھی پھولوں سے بڑا دلکش سجایا گیا تھا عدیلہ مہمانوں سے مل رہی تھی۔۔ عینی تیار ہو چکی تھی اس نے پرپل لہنگا جس پر گولڈن کام تھا اور گرین شرٹ جو سادہ تھی گلا گول تھا اور نارنجی دوپٹہ بازوؤں پر تھا۔جامنی بندی اور جامنی ہی کانوں کی بوندیں اور نیکلس تھا ۔کلائی جامنی چوڑیوں سے بھری ہوئی تھی ہلکا سا میک اپ کیئے بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔ حادی آ چکا تھا اس نے سکن رنگ کا کرتا اور سکن پجامہ پہن رکھا تھا کرتے پر ہلکا سا گولڈن تلے کا کام تھا بہت پیارا لگ رہا تھا ۔حماد نے کالا کرتا اور پجامہ پہن رکھا تھا ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگ رہا تھا اور یہاں حورین اپنے کمرے کے بستر پر بیٹھی اس نے نارنجی لہنگا جس پر گولڈن تلے کا کام تھا اور سکن شرٹ جس کے بازو فل تھے اور لہنگے کی طرح اس پر بھی تلے کا کام تھا بازوؤں پر سبز ڈوپٹہ جس پر ہلکی سی گولڈن کی لکیریں نظر آتی تھیں اور سرپر سکن دوپٹہ جس پر خاصا گولڈن کام تھا ماتھے پر دائیں طرف بڑا جھومر لگا تھا جو گولڈن اور سبز رنگ کا تھا اور گلے میں لمبا ہار تھا ناک پر نتھلی تھی اور بال بائیں طرف کو سارے آگے تھے جو ہلکے ہلکے کرل تھے کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی
کچھ دیر بعد حورین بھی سٹیج پر حا دی کے ساتھ بیٹھ چکی تھی حادی کی نظر مسلسل حورین پر تھیں اس نے ایک پل بھی آنکھ نہ جھپکی تھی اور حورین بے ترتیب سانسیں لئے بیٹھی حادی کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی سٹیج سے تھوڑا آگے لوگ گانوں کی تال پر ناچ رہے تھے اور ان میں حماد بھی موجود تھا جو گانے کی دھن پر ناچ رہا تھا اور دیوانہ وارجھوم رہا تھا وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا جیسے اپنے اندر کے اٹھتے کرب اور چیخوں کو خاموش کروا رہا ہو تاکہ کوئی سن نا لے اور اگر کوئی سن لیتا تو پوچھ بیٹھتا ۔۔کہ حماد تم اتنے کرب کے ساتھ زندہ کیسے ہو؟۔۔ تو وہ کہتا موت اتنی مہربان کہاں ہوتی ہے کہ جب کوئی مرنے کی خواہش کرے تو اسےآ لپٹے۔۔
اور وقت نکاح کا آگیا حادی اور حورین کے درمیان پھولوں کی دیوار حائل تھی نکاح پڑھا لیا گیا اور دو بول قبول کے بول دیے گئے حورین سے دستخط لیے جا رہے تھے دستخط کرتے وقت حورین کا ہاتھ کانپ رہا تھا جسے وہ دوسرے ہاتھ سے بمشکل پکڑے دستخط کرنے لگی حادی پھولوں کی لڑی سے اس پار ہلکی سی نظر آتی حورین کو دیکھ رہا تھا پھر حادی کے دستخط لیے گئے ۔۔سب لوگوں نے مبارکباد دی حماد بھی سٹیج پر آیا اور دونوں کو مبارکباد دی اور حادی کو تکید کی کہ وہ حورین کا خیال رکھے اور اسے ہمیشہ خوش رکھے سب کی مبارکباد سمیٹنے کے بعد حادی اٹھا اور پھولوں کی لڑیوں کو ہٹاتے ہوئے حورین کے سامنے کھڑا ہو گیا حورین نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔ حادی نے حورین کا گھونگٹ بنے جالی کا ڈوپٹہ اٹھایا اور اس کے سر پر بوسہ دیا حورین کی بے ترتیب دھڑکنے اور بےترتیب ہونے لگیں
تمہارا بہت شکریہ حورین ۔۔میری زندگی میں آنے کا ۔۔اس نے جھک کر حورین کے کان میں سرگوشی کی حورین کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر آئی۔
" وہ جو حادی کی حورین تھی اور وہ جو حورین کا حادی تھا وہ اب حورین عبدالحادی ہوئے "
حماد کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے دل کی دھڑکنیں تھمنے لگی تھیں اور سانسیں رکتی محسوس ہوئیں اس کا وہاں اب دم گھٹنے لگا تھا وہ یک دم پلٹا اور تیزی سے لوگوں کو پیچھے کرتا آگے جا رہا تھا " نہیں وہ خوشی کی جگہ کو ماتم نہیں بنانا چاہتا تھا " اس کے قدم تیز ہوتے گئے وہ لوگوں کو پیچھے چھوڑتا اور خود آگے نکلتا گیا
رات گہری ہو چکی تھی سب گھروں کو جا چکے تھے حادی بھی تھوڑی دیر پہلے ہی گھر کے لیے نکلا تھا وہ حورین سےا کیلے میں ملنے کی بہت کوشش کر رہا تھا لیکن عینی تو جیسے اس کی پکی دشمن بنی بیٹھی تھی اس نے حورین کو حادی کے آس پاس بھی نہ بھٹکنے دیا یہ کہہ کر کے ۔دولہے صاحب جہاں اتنا عرصہ انتظار کیا ہے وہاں ایک دن اور انتظار کر لیں۔ اور حادی ہار مانتا ہوا چلا گیا
حورین نے اپنے سر سے ڈوپٹہ اتارا اور پھر بازوؤں سے بھی اتار کر بیڈ پر رکھا ڈریسنگ کے سامنے آکر کر ناک سے نتھلی اتاری پھر بالوں سے جھو مر ایک ایک کرتی سب کچھ اتارنے لگی اور بالوں کو ایک جیسا کر کے جوڑا بنا لیا۔۔ اتنے میں بستر پر رکھے موبائل کی رنگ ہوئی حورین مڑ کر موبائل کی طرف بڑھی موبائل کی سکرین پر ابھرتے حادی کا نام دیکھ اس کے چہرے پر بے پناہ مسکراہٹ آئی موبائل کو پکڑے کان سے لگایا
السلام علیکم!
وعلیکم السلام کیسی ہو ۔۔حورین عبدالحادی۔۔
میں تو ٹھیک ہوں۔۔ تم کیسے ہو؟۔۔حورین ایک ہاتھ سے موبائل پکڑے اور ایک ہاتھ سے لہنگا تھامے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگی
یہ تم کیا ہوتا ہے ۔حورین بی بی اب مجھے آپ کہنے کی عادت ڈال لیں۔۔ حادی نے تیوری دکھائی
آپ؟۔وہ کس خوشی میں جناب ؟۔۔
میری بیوی بننے کی خوشی میں۔۔ اس نے جتاتے ہوئے بولا حورین کی مسکراہٹ اب شرم سے بھرپور تھی
یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو مسٹر حادی۔۔ کہ میں تمہیں آپ کہہ کر بلاؤں گی۔۔ وہ چھیرتے ہوئے بولی
توبہ توبہ۔ تمہیں دیکھ کر ہی پتہ چل رہا ہے کتنی نافرمان بیوی ثابت ہوگی تم۔۔ حادی نروٹھے پن سے بولا اور تمہیں دیکھ کے پتا لگ رہا ہے کہ تم جوڑوں کے غلام ثابت ہو گے۔۔حورین نے اور چھیڑنے کی کوشش کی
ہائے ۔میں تو تمہارے لیے ساری زندگی غلام بننے کے لیے تیار ہوں۔۔ وہ تو چھڑنے کی بجائے اس بات پر خوش ہوا
چلو سو جاؤ ۔میں بہت تھک چکی ہوں ۔حورین واقعی لہنگے کو سنبھالتے سنبھالتے تھک چکی تھی
ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا ۔۔کل آؤں گا تمہیں لینے لاہور کے تمام عاشقوں کے ساتھ۔۔
آپ بھی اپنا خیال رکھیں۔۔ اللہ حافظ ۔حورین نے دانت نکالتے ہوئے ٹھک سے فون بند کر دیا
حماد زمین پر بستر سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا دونوں ٹانگیں اوپر کیے ان کے گرد بازو پھیلائے کسی ننھے بچے کی طرح لگ رہا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہا تھا جسے روکنے کی اب اس میں سکت نا تھی دروازہ کھلا اور ماہ جبین اندر آئی حماد کو یوں نیچے بیٹھا دیکھ وہ پریشان ہو گئی اور جلدی سے اس کے پاس آئی
حماد ۔۔میرے بچے کیا ہوا؟۔۔ وہ حماد کی طرف جھکی مگر وہ کچھ نہ بولا حماد کے بہتے آنسوؤں نے تو ماہ جبین کا دل ہی چیر دیا
میرے بچے کیا ہوا۔۔ بتاؤ میری جان کیوں رو رہے ہو ؟۔۔وہ پریشانی کی عالم میں پوچھنے لگی حماد نے جھکا سر اٹھایا اس کی آنکھیں سرخ تھیں
میرا بس نہیں چل رہا ممی ۔۔میرا بس نہیں چل رہا کہ میں اپنے سینے سے اس دل کو نکال پھینکوں اور اسی کے ساتھ اس میں پلنے والی تمام چاہتیں تمام خواب اور محبتیں نکال پھینکو۔۔ اس کی آواز میں بہت درد تھا اس کی بات پر ماہ جبین حیران رہ گئی
کیوں ۔کیوں جو مقدر میں نہیں ہوتے۔۔ وہی دل میں کیوں ہوتے ہیں۔ آخر کیوں؟۔۔ ماہ جبین کو اس کا کرب اور تکلیف خود میں اترتا محسوس ہوا
میری جان میرے بچے ۔۔میرے حماد بتاؤ تمہیں کیا چاہیے۔ تم جانتے ہو میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں تمہارے لیے کسی کی جان بھی لے سکتی ہوں کسی سے اس کا سب کچھ چھین بھی سکتی ہوں میں تمہاری ماں تمہارے لیے کسی کو پتال سے بھی ڈھونڈ کر لا سکتی ہوں۔۔ تم اس طرح رو نہیں تم بس مجھے بتاؤ۔۔۔ ماہ جبین کو زیادہ وقت نہیں لگا تھا حماد کی تکلیف کی وجہ سمجھنے میں
ہاں ممی اپ سب کچھ کر سکتی ہیں۔۔ سب کچھ ۔میرے لیے کسی کی جان بھی لے سکتی ہیں کسی کا سب کچھ چھین بھی سکتی ہیں ۔۔سب کچھ کر سکتی ہیں۔۔ مگر آپ کبھی۔ حماد کو حورین نہیں دے سکتیں۔نہیں دے سکتیں۔۔ وہ سسکتا بلبلاتا رو رہا تھا
حورین؟ جس کی شادی تمہارے دوست حادی سے ہو رہی ہے ؟۔۔ماہ جبین نے حیرت سے پوچھا حماد ہاتھ کی مٹھی بنائی زور سے دل پر مارنے لگا
ممی قسم لے لیں۔ میں نے کبھی ایسا نہیں چاہا تھا یہ سب خود بخود ہو گیا ۔میں اس کمبخت دل کو روک نہیں سکا ۔نہیں روک سکا۔۔ لیکن خدا کی قسم ممی میں نے حادی کی حورین کبھی حادی سے دور کرنی نہیں چاہی۔۔ کبھی کرنا بھی نہیں چاہتا ۔میں بھلا کیسے کر سکتا ہوں؟۔۔وہ کسی بچے کی طرح سر ٹانگوں میں دیے رونے لگ گیا ماہ جبین نے اپنے ترپتے ہوئے حماد کو گلے سے لگایا۔
"اب کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس دیکھ لو "
ٹوٹے خواب کرچیوں کی مانند آنکھ میں چبھ گئے تھے
"خالی رہ گئے میرے ہاتھ دیکھ لو"
وہ آج جی بھر کر رو دینا چاہتا تھا
"ایک طرفہ محبت کا انجام ہی کچھ یوں ہے"
وہ جو حورین کی محبت دل میں بسی ہوئی تھی
" ملتے رہ جاؤ گے اپنے ہاتھ دیکھ لو "
آنسوؤں کے ذریعے وہ محبت بہا دینا چاہتا تھا
جلد ہی چہچہاتی صبح نے آگھیرا تھا سب رات کو دیر سے سوئے تھے رات میں حورین کو مہندی لگائی گئی تھی مہندی لگے ہوئے ہی وہ نیند کی وادیوں میں جا چکی تھی وہ پیلی قمیض جو گھٹنوں سے ذرا اوپر تھی اور پیلی شلوار پہنے سر کو ڈوپٹے سے ڈھانپے سیڑھیاں اتر رہی تھی کچھ لوگ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور کچھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے عدیلہ نے حورین کو سیڑھیاں اترتے دیکھا
کہاں جا رہی ہو حورین؟۔۔
ممی مجھے کچھ کام ہے میں بس تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی ۔۔
خدا کا نام لو حورین۔۔آج کے دن تو باہر جانے سے گریز کر لو۔۔ رخصتی ہے آج تمہاری۔۔عدیلہ حیرانی کے انداز میں بولی جمشید صاحب ان ہی کی طرف متوجہ تھے
ممی مجھے ضروری کام ہے ورنہ میں نہ جاتی۔۔ پلیز ۔۔حورین نے التجا کی
نہیں کوئی پلیز نہیں میں نے منع کر دیا ہے نا۔۔عدیلہ ٹس سے مس نہ ہوئی حورین جلدی سے جمشید صاحب کی طرف بڑھی اور ان سے لپٹ گئی
دادا ابو ان سے کہیں نا مجھے جانے دیں۔۔ مجھے بہت ضروری کام ہے ۔۔معصوم انداز میں دادا کو پھسلا رہی تھی جمشید صاحب نے سنجیدگی سے حورین کی طرف دیکھا
کیا واقعی بہت ضروری کام ہے؟؟
جی۔۔حورین سیدھی ہوئی
تو ٹھیک ہے عدیلہ بچے۔۔ جانے دو اسے جلدی واپس آجائے گی۔۔ جمشید صاحب نے عدیلہ سے کہا جس کے آگے عدیلہ کے پاس بولنے کو کچھ نہ تھا
تمہارا ڈریس سٹیمنگ کے لیے بھجوا دیا ہے ۔۔پارلر کے ٹائم سے پہلے آجانا۔۔وہ کہتی چلی گئیں
یو آر دی بیسٹ دادا ان دی ورلڈ۔۔ حورین نے دادا کے گال پر بوسہ دیا جمشید صاحب مسکرا دیے
دھیان سے جانا میری بچی ۔۔حورین کے سر پر پیار دیا
حادی پورے گھر کی ڈیکوریشن کروا رہا تھا ملازموں کی چاروں طرف افراتفری نظر آرہی تھی اس نے پورے گھر کو لال گلاب کے پھولوں سے بھر دیا تھا اور اپنے روم کی سجاوٹ کیا خوب کی تھی ڈریسنگ پر گلاب کی پتیاں بکھری تھیں اور موم بتیاں رکھی تھیں جو فلحال جل نہیں رہی تھیں اسی طرح سائیڈ ٹیبلز بھی سجے ہوئے تھے اور بستر پر اس نے کسی بھی سجاوٹ سے منع کیا تھا البتہ حورین کے گھر سے جو برائیڈل سیٹ آیا تھا وہ اس نے خود احتیاط سے بچھایا تھا کسی ملازم کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیا اب ڈائننگ روم میں کھڑا ملازم کو کچھ سمجھا رہا تھا تب وہاں حماد آگیا وہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس اپنی آنکھوں کو انگلیوں سے مسلتا حادی کی طرف آیا حادی ملازم کو تاکید کرنے کے بعد مڑا تو حماد کو دیکھ حیران ہوا
ارے تم آگئے۔۔اس نے حماد کے کندھے پر ہاتھ رکھا
اتنی صبح کس لیے بلوایا ہے مجھے؟ ۔۔وہ اپنی کمر پہ ہاتھ رکھے حادی سے پوچھ رہا تھا اس کی آنکھیں سرخ تھیں جیسے وہ ساری رات کا نہ سویا ہو
کس لیے مطلب؟۔۔ میں دولہا ہوں اور سارے کام بھی میں کروا رہا ہوں۔۔ خود تم آرام فرما رہے ہو۔۔ حادی ناراضگی سے بولا
اچھا اچھا ۔۔اب اپنی بوسی صورت نا بنائیں۔۔ بتاؤ کیا کام کروانا ہے۔۔ حماد نے قمیض کے کف اوپر کیے
سارے کام ہو گئے ہیں ویسے ۔۔تو بس میرا روم دیکھ کے بتا کوئی کمی تو نہیں لگ رہی۔۔ میں تب تک لان دیکھ لوں۔۔ حادی کہتا ہوا ڈرائنگ روم سے جانے لگا۔۔ لان میں اس نے مین گیٹ سے ڈرائنگ روم تک ریڈ کارپٹ بچھایا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد قطار میں پھول بچھائے تھے اس کا کہنا تھا کہ ایک بھی پھول پاؤں کے نیچے نہ آئے۔۔حورین نے بالکل ٹھیک کہا تھا وہ سب کا دل رکھتا ہے اس نے تو پھولوں کا بھی دل رکھ لیا تھا۔۔گھر کی تیاریاں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ گھر کسی شہزادی کا استقبال کرنے والا ہو۔۔۔ حادی باہر کے سارے انتظام دیکھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا دروازہ کھولا اور سامنے دیکھتے ہی اس نے لب پھینچ لیے حماد بستر پر اوندھے منہ لیٹے سویا پڑا تھا حادی تیز قدم چل کر اس کے پاس پہنچا اور ٹانگ سے کھینچ کر اسے دھرلے سے زمین پر گرا دیا
ائیییی۔ممی۔۔ وہ درد سےکراہا ا اپنی کمر کو سہلاتے ہوئے حادی کو دیکھا
آج کے دن تو سونے کا نشہ چھوڑ دے۔۔ حماد نے نظر اِدھر ُادھر گھمائی اور کھڑا ہو گیا
میں تو بس دیکھنے آیا تھا۔ اور پتا نہیں کب۔۔ اس نے بولتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی
چل شاباش اپنے گھر جا کر سو۔۔ اور ایک کام کریں بارات کے وقت بھی سوتا رہیں۔۔ حادی نے اس کا بازو پکڑے اسے باہر کی طرف کیا
ارے ابھی تو تمہاری دلہن گھر بھی نہیں آئی۔۔پہلے ہی اپنے دوست کو گھر سے نکال رہا ہے۔۔ حماد نے حیرت سے کہا حادی نے اسے ایک گھوری ڈالی
اچھا یار غلطی سے آنکھ لگ گئی۔۔اوہ میں بھول گیا مجھے حورین کی ممی کی کال آئی تھی۔۔ حماد کو اچانک یاد آیا
کیا کہہ رہی تھیں؟۔۔حادی تو سارا غصہ بھول گیا
وہ حورین کی بارات کا ڈریس سٹیمنگ کے لیے بھیجوایا تھا وہ لے کر آنا ہے۔۔کیونکہ ڈرائیور کو تو حورین لے کر گئی ہے۔۔بس انہیں ڈریس پکڑا کر گھر جاؤں گا پھر ایک ہی بار تیار ہو کر آؤں گا۔۔ حماد نے قمیض کی جیب سے کار کی چابی نکالی
وہ ڈرائیور کو لے کے کہاں گئی ہے ؟۔۔حادی اس کے اس طرح رخصتی کے دن کہیں جانے پر حیران ہوا تھا
پتا نہیں میں چلتا ہوں۔۔ حماد کمرے سے نکل گیا حادی نے سوچتے ہوئے پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا اور نمبر ڈائل کر کے کال ملائی دوسری طرف رنگ ہوئی اور کچھ دیر بعد فون اٹھ گیا
ہیلو حورین؟
حور آپی نہیں ۔۔ میں عینی بات کر رہی ہوں حادی بھیا ۔۔عینی کی آواز آئی
او ہ عینی کیسی ہو۔۔ تمہاری حور آپی کہاں ہیں؟۔۔
میں تو ٹھیک ہوں حور آپی گھر نہیں ہیں اور شاید فون بھی بھول گئی ہیں ۔۔ عینی نے اطلاع دی
کہاں گئی ہیں وہ بتایا نہیں انہوں نے ؟۔۔اس نے پریشانی کے عالم میں پوچھا
نہیں ممی سے کہہ کر گئی تھیں بہت ضروری کام ہے۔۔ جلدی آ جاؤں گی۔۔
اوکے ٹھیک ہے۔۔حادی نے فون بند کر دیا اسے کسی بات کی پریشانی تھی مگر معلوم نہیں کہ کیسی پریشانی تھی ۔
حورین ہسپتال میں ایک معصوم اور نازک سی لڑکی کے پاس بیڈ پر بیٹھی تھی
میں حورین اور۔۔حورین بولتی بولتی یکدم رکی اس کے سنجیدہ سے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ آئی تھی
میں حورین عبدالحادی ہوں۔۔ تمہاری وکیل تمہارے بابا نے تمہیں میرے بارے میں بتایا ہوگا۔۔ عریشہ کی نظریں اپنے ہاتھوں پر جمی تھیں
دیکھو میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔۔ لیکن جب تک تم خود اپنی مدد نہیں کرنا چاہو گے تب تک کوئی اور بھی مدد نہیں کر سکے گا۔۔ حورین اسے ہمت دینے کی کوشش کر رہی تھی
م۔ میں نے یہاں منہ کھولا۔۔ وہاں میری جان جائے گی۔۔ک۔ کافی لوگ تعزیت کریں گے دو تین دن کافی شور ہوگا ۔۔ پھر خاموشی چھا جائے گی۔۔ عریشہ نوریز کون تھی کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا۔۔عریشہ نوریز کے ساتھ ۔ہوئی نا انصافی کو سب بھلا دیں گے ۔۔اور پوری دنیا میں میرا ماتم منانے والے میری وجہ سے اذیت میں رہ جانے والے اکیلے ۔۔میرے بابا ہوں گے ۔۔عریشہ نے اپنے چپ کا روزہ ایسے توڑا تھا کہ اس کے لب تھرتھرائے تھے اس کے درد سے نکلے الفاظوں نے حورین کے پاؤں تلے زمین کھسکا دی تھی وہ چپ اسے دیکھتی رہی
م۔میں تم سے وعدہ کرتی ہوں تمہیں کوئی کچھ نہیں کرے گا۔۔ تم سے تمہاری قیمتی جان کوئی چھین نہیں سکتا تمہاری حفاظت کی ذمہ داری میں لوں گی۔۔ تم مجھ پر بھروسہ کر کے دیکھو ۔۔حورین نے اس کے ہاتھ سختی سے اپنے ہاتھ میں لئے عریشہ نے حورین کی آنکھوں میں دیکھا
لفظوں سے تو۔۔ ہر کوئی اپنے سچے ہونے کا یقین دلاتا ہے آپ کے پاس اور کوئی طریقہ ہے؟۔۔ اس نے بے بسی سے پوچھا تھا حورین کو اس کے سوال پر اپنے تمام الفاظ کھوکھلے لگے
میری آج رخصتی ہے اور میں یہاں تمہارے پاس بیٹھی ہوں۔۔ تمہارے لیے لڑنا چاہتی ہوں اس سے زیادہ میں تمہیں اپنی ایمانداری کا یقین کیسے دلا سکتی ہوں؟۔ عریشہ نے حورین کے کپڑوں کو دیکھا اور پھر اس کے مہندی لگے ہاتھ دیکھے جو عریشہ کو تھامے ہوئے تھے
میں بس اتنا جانتی ہوں عریشہ کے اگر آج تم ظلم کے خلاف کھڑی ہوگی تو تم جیسی کتنی لڑکیوں کو کھڑے ہونے کا حوصلہ ملے گا لیکن۔۔ اگر تم خوف کے دبدبے میں چھپ کر اپنی آواز کو دبا دو گی۔۔ تو کوئی بھی عریشہ نوریز اپنے حق کے لیے کبھی نہیں لڑ سکے گی۔۔حورین نے بس اتنا ہی کہنا چاہا اور ہاتھ پیچھے کرنے لگی کہ عریشہ نے اس کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے
میں بولوں گی۔۔ آپ میرا ساتھ دینا۔۔ وہ پہلی بار مسکرائی تھی وہ یقین کی مسکراہٹ تھی حورین اس کی بات پر بہت خوش ہوئی اس نے پہلا مرحلہ پار کر لیا تھا۔
اور پھر دن سنہری رات میں ڈھل گیا حورین دلہن کے لال جوڑے میں جس پر سلور ایبرائڈری تھی اور سر پر ڈوپٹہ جس کا ایک پلو کندھے پر اور ایک پیچھے تھا بہت حسین لگ رہی تھی بالوں کا جوڑا بنا ہوا تھا اور آگے ماتھا پٹی تھی خاصا نور آیا تھا اس پر مانو جیسے آسمان سے حور اتر آئی ہو۔وہ اپنے دل اور جوڑے دونوں کو سنبھالے بیٹھی نظر ہاتھوں پر جمائے ہوئے تھی
حور آپی میرا بس نہیں چل رہا کہ میں آپ کی تمام بلائیں خود پر لے لوں ۔۔اس قدر خوبصورت لگ رہی ہیں آپ ۔۔عینی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی حورین کے لب اس کی بات پر بے ساختہ مسکرا دیے ۔
وہ خود بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس نے جالی کا سبز فراک پہن رکھا تھا جو گھٹنوں سے اوپر تھا اور شراڑا پہنا ہوا تھا دوپٹہ دائیں کاندھے پر لیا ہوا بالوں کی پونی ٹیل تھی جو نیچے سے کرل تھے ۔۔
بارات آ چکی تھی حماد بھی بارات کے ساتھ آیا تھا (اور حادی کا وعدہ لاہور کے عاشقوں کو لانے کا بھی پورا ہو گیا۔۔ ہمم )
عینی برائڈل روم سے کان پر فون لگائے ہوئے نکلی
یہ فون بھی نہیں اٹھا رہی اور ابھی تک پہنچی بھی نہیں ۔۔وہ بے دھیانی میں چلتے چلتے بار بار کال کر رہی تھی کہ اچانک کسی سے ٹکرائی
اوہ ۔سوری ۔۔کہتی ہوئی جانے لگی کہ حماد پر نظر پڑی اس نے براؤن کرتا اور سفید چوریدار پجامہ پہنا ہوا تھا خاصہ دلکش لگ رہا تھا
اوہ حماد بھائی شکر ہے ۔۔آپ مجھے مل گئے۔۔
کیوں تم مجھے ڈھونڈ رہی تھی؟۔۔ حماد نے حیرانگی سے پوچھا
نہیں ڈھونڈ تو نہیں رہی تھی ۔۔لیکن ٹائمنگ اچھی ہے۔۔ عینی نے دانت نکالے
لڑکی مجھے تمہارے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔ حماد نے تجسس بھری نگاہوں سے دیکھا
اوہو حماد بھائی میرے ارادے ایک دم نیک ہیں۔۔ مجھے میری ایک دوست کو پک کرنے جانا ہے اور آپ میرے ڈرائیور بنیں گے۔۔
تھم جاؤ لڑکی میں کس خوشی میں تمہارا ڈرائیور بنوں گا ؟۔۔تمہارا اپنا ڈرائیور ہے نا اسے لے کر جاؤ شاباش ۔۔حماد نے پہلے تیوری دکھائی پھر شان سے کہتا جانے لگا
رکیں نا۔۔ عینی نے اس کا بازو پکڑا
دیکھیں میں ڈرائیور کو لے کر جاؤں گی بعد میں۔۔ پہلے ممی کی ہزار صلواتیں سنوں گی اور پھر بھی ڈرائیور نہیں ملے گا۔۔ میری دوست گھر پر اکیلی ہے اسے اب تک آ جانا چاہیے تھا آئی نہیں تو میں لینے جا رہی ہوں۔۔ حماد نے اس کی تفصیلی گفتگو سن کر اپنے بازو کو گھورا جو ابھی بھی عینی نے پکڑ رکھی تھی پھر اس کی آنکھیں دیکھ کر یکدم چھوڑ دی
آپ کی نخرے ختم ہو گئے ہوں تو مدد کریں گے؟۔۔ یا کسی اور کے ترلے کرنے جاؤں؟۔۔ اب کی بار منہ بنا کر بولی
چلو! حماد نے لب پھینچتے ہوئے ہاتھ سے آگے کا اشارہ کیا
یو آر سو سویٹ ۔۔عینی دانت نکالتی آگے چل پڑی
وہ دونوں اب گاڑی میں بیٹھے عینی کی دوست کے گھر کے باہر انتظار کر رہے تھے عینی نے اسے کال ملائی مگر کوئی جواب نہیں آیا
میں گھر کی بیل بجا کر دیکھتی ہوں ۔۔دروازہ کھول کر باہر نکلی اور بیل بجانے لگی دو تین بار دروازہ بھی نوک کیا مگر کوئی جواب نہیں ۔۔حماد گاڑی سے باہر نکل آیا
وہ گھر پر نہیں ہوگی تب ہی کوئی رسپانس نہیں آ رہا۔۔ تم کتنا انتظار کرو گی؟۔۔ وہ بازو پر بازو لپیٹے بولا
اس کے روم کی لائٹس آن ہیں دیکھیں۔۔ عینی نے اوپر کی طرف اشارہ کیا جہاں کھڑکی سے روشنی جھلک رہی تھی
ہو سکتا ہے آن چھوڑ گئی ہو۔۔ حماد نے دیکھتے ہوئے کہا
نہیں پہلی بات اگر اسے کہیں اور جانا پڑ گیا تھا تو وہ مجھے ضرور انفارم کرتی دوسری بات وہ کال پک نہیں کر رہی وہ موبائل کبھی گھر چھوڑ کر نہیں گئی ۔۔عینی نے انگلیوں پر گنوایا
تو اب کیا کرو گی تم ۔۔دروازہ توڑنے کا ارادہ ہے کیا تمہارا ؟۔۔حماد بیزاری سے بولا
ائیڈیا اچھا ہے۔۔ عینی نے اپنے بالوں سے بلیک پن اتاری جس نے اس کے چھوٹے بالوں کو باندھ رکھا تھا اور دروازے پر جھک کر لاک میں گھسائی
یہ تم کیا کر رہی ہو عینی ۔۔پاگل تو نہیں ہوگئی تم؟ ۔۔ حماد جھنجھلا اٹھا ۔۔اور وہ تو عینی تھی یہ جا وہ جا اس نے لاک کھول لیا اس نے کھڑے ہوتے ہوئے پن دوبارہ بالوں میں لگائی اور حماد کو دیکھا جو کھڑاحیرت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔۔۔وہ کندھے اچکاتی ہوئی اندر چلی گئی حماد نے اپنا منہ بند کیا اور اس کے پیچھے اندر چلا گیا
اگر حورین نے مجھے تمہارے ساتھ یہاں دیکھ لیا تو اس نے مجھ پر کیس کروا دینا ہے ۔۔کہ میں اس کی بہن کو روکنے کی بجائے۔۔ وہ ڈرائنگ روم کے باہر کھڑے تھے جس کا دروازہ بند تھا
فکر نا کریں انہیں حادی بھائی کو دیکھنے سے فرصت کہاں جو کسی اور کو دیکھیں گی۔۔
صحیح کہہ رہی ہو ۔۔حماد کو دل میں کچھ چبتا محسوس ہوا
عینی نے ہینڈل کو گھمانے کی کوشش کی تو دروازہ کھل گیا وہ اندر داخل ہوئی اور ساتھ حماد بھی آیا کہ اچانک عینی نے کھانسنا شروع کر دیا حماد نے اِدھر اُدھر نظر گھمائی
اپنے منہ پر ہاتھ رکھو ۔۔اس نے کہتے ہوئے منہ کو بازو سے ڈھانپ لیا اور عینی نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا
گھر میں گیس پھیلی ہوئی ہے تم جا کر اپنی دوست کو دیکھو۔۔ میں کچن ڈھونڈتا ہوں۔۔ وہ دبی دبی آواز میں بولا عینی کو یہ سنتے ہی زور کا دھچکا لگا وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھی حماد منہ کو بازو میں ڈھانپے کچن ڈھونڈنے لگا وہ ڈرائنگ روم سے آگے گیا تو کچن نظر آیا وہ تیزی سے کچن کی طرف بڑھا اس نے چلہے کے تمام نوبز دیکھیں لیکن وہ بند تھیں تو پھر گیس کہاں سے نکلی تھی؟ تب ہی اس کی نظر گیس کے وال پر گئی جو آن تھا اور گیس پائپ اترا ہوا تھا حماد نے آگے بڑھ کر وال بند کیا پھر اس پر پائپ چڑھانے لگا جس کی وجہ سے اسے منہ سے بازو ہٹانا پڑا پائپ چڑھا کر اس نے دوبارہ بازو منہ پر رکھا اور کچن کی تمام کھڑکیاں ایک ایک کر کے کھول دیں پھر ڈرائنگ روم میں آیا تو لان کی طرف جانے کا سلائیڈر بھی کھول دیا اب فضا میں پھیلی گیس میں قدر ِکمی تھی حماد منہ سے بازو ہٹاتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھا اوپر پہنچا تو عینی روتی نظر آرہی تھی
کیا ہوا عینی ؟۔۔
ح۔حماد بھائی ۔۔دروازہ اندر سے بند ہے۔۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی
اچھا تم رونا بند کرو میں دیکھتا ہوں۔۔ حماد نے دروازے کو زور سے دھکا دیا تھا لیکن وہ نہیں کھلا پھر دو تین بار پوری قوت سے دھکا دیا تو دروازہ کھل گیا اس کی دوست بستر پر گری پڑی تھی عینی بھاگتی اس کے پاس پہنچی حماد نے جلدی سے کمرے کی کھڑکی کھول دی
نور اٹھو۔۔ اپنی انکھیں کھولو۔۔ نور۔۔ وہ اس کے چہرے کو تھپتھپا رہی تھی اور کبھی کندھوں سے جھنجوڑتی
نور اٹھ جاؤ۔۔ حماد بھائی۔۔ یہ اٹھ کیوں نہیں رہی ۔۔وہ روتی جا رہی تھی حماد اس کے پاس آیا اور اس کی نبض دیکھنے لگا عینی ڈر کر پیچھے ہو گئی وہ سر کو دائیں بائیں ہلاتی جا رہی تھی
نہیں پلیز ۔۔وہ پیچھے ہٹتی گئی حماد نے نور کو دیکھنے کے بعد عینی کو دیکھا جو روتے روتے دیوار سے جا لگی تھی
نہیں مجھے کچھ ۔۔مت بتانا ۔۔حماد بھائی۔۔ اس نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ دیے اور دیوار سے ٹیک لگائے نیچے بیٹھ گئی بچوں کی طرح زاروقطار روتی چلی گئی حماد گہری سانس لے کر اس کی طرف بڑھا اور اس کے پاس پہنچ کر پنجوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا
عینی!۔۔ اس نے نرمی سے پکارا
نہیں مجھے۔۔ نہیں سننا کچھ ۔۔وہ زور سے بولی حماد نے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا
عینی نور بالکل ٹھیک ہے وہ بس سو رہی ہے۔۔ اس کے کمرے میں ابھی گیس نے پھیلنا شروع ہی کیا تھا اس کے باعث بے ہوش ہوئی ہے۔۔عینی نے اس کے کہنے پر بے ساختہ سر اٹھایا اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ رہے تھے عینی نے حماد کی آنکھوں میں جھانکا اور بس جھانکتی ہی رہی اس کی سیاہ گہری آنکھوں میں بظاہر تو کچھ نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر بھی بہت کچھ نظر آرہا تھا ان میں آنسوؤں کا ایک قطرہ نہیں تھا پھر بھی وہ برسوں سے روئی لگ رہی تھیں ان میں دردناک کرب تکلیف اور دیکھے ہوئے خواب جو کرچی کرچی نظر آرہے تھے عینی کو سب اپنی آنکھوں کے ذریعے خود میں چبھتے محسوس ہوئے اسے معلوم نہیں کیا ہوا تھا لیکن اسے اپنے دل میں عجیب سا درد اٹھا
اس کے کان میں انجانی سی صدا آئی "کن فایا کن" جس سے وقت بدل جاتا ہے، دنیا بدل جاتی ہے ،لوگ بدل جاتے ہیں، دل بدل جاتے ہیں اسی طرح لمحہ لگا تھا عینی کے دل کو بدلنے میں۔۔
"ایک طرفہ محبت میں نادان بہت ہیں
کچھ مر گئے کچھ انجان بہت ہیں
تم نے جو سن لی صدا یہ جان لو
کن فیا کن کے انجام بہت ہیں"
حماد نے کسی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی عینی کو آواز دی عینی اس کے حصار سے نکلی اور اپنے ارد گرد دیکھا پھر نظر حماد پر گئی جو اس کے اتنے قریب بیٹھا تھا عینی نے اسے ہاتھوں سے جلدی سے پیچھے کیا دوسرے الفاظوں میں حماد کو دھکا ملا تھا وہ پیچھے ہو گیا عینی فوراً کھڑی ہوئی
میڈم میں نے تمہاری مدد کی ہے اور تم مجھے ہی دھکا دے رہی ہو۔۔ بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے ۔۔حماد اپنے کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے اٹھا اور عینی کو کاٹدار نظروں سے دیکھا عینی اپنے لب کاٹتی ہوئے سائیڈ ٹیبل کی طرف گئی وہاں سے پانی کا بھرا گلاس پکڑا اور نور کی طرف آئی پھر اس کے منہ پر گلاس کا سارا پانی انڈیل دیا اس کی حرکت پر حماد کی آنکھیں حیرت پھیل گئیں نور کھانستی ہوئی اٹھی وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے سیدھی ہوئی پھر سر پر ہاتھ رکھے ہوئے عینی اور حماد کو دیکھا
ماشاءاللہ۔۔ تم تو بڑی کوئی ڈھیٹ ہو مجھے لگا ۔۔مر ور گئی ہوگی اب تک تو۔۔ عینی غصیلی آنکھوں سے دیکھتی بولی اس کی بات پر تو نور پوری ہوش میں آگئی
سوری میری وجہ سے اتنی پریشانی ہوئی آپ لوگوں کو ۔۔اس نے حماد کو دیکھ کر بولا
ہاں ہوئی تو ہے اب جلدی سے اٹھو۔۔ اگر میری بہن میرے جانے سے پہلے رخصت ہو گئی۔۔ تو میں تمہیں رخصت کر دوں گی وہ بھی چار کندھوں پر ۔۔عینی انکھیں پھاڑ کر دیکھتی بولی حماد اس کی بات پر دنگ رہ گیا اس نے پہلی بار عینی کے لفظوں سے آگ برستی دیکھی تھی۔
اور وقت رخصتی کا آ پہنچا حورین دعاؤں کے ساتھ رخصت ہو رہی تھی وہ حادی کے ساتھ سر جھکائے قدم بہ قدم چل رہی تھی اس کی خوشبو حادی کو اپنے گرد رقص کرتی محسوس ہو رہی تھی" اگر حادی اور حماد سے پوچھا جاتا کے انہوں نے دنیا کی خوبصورت دلہن دیکھی ہے تو بلا شعبہ وہ حورین کا نام لیتے "
وہ دونوں اب گھر میں داخل ہونے لگے تھے حادی نے باراتیوں کا انتظام اپنے دوسرے گھر میں کر رکھا تھا تو حماد سب کو وہیں لے گیا حورین اپنے لہنگے کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالتے ہوئے اندر داخل ہوئی تو اس کا استقبال پھولوں اور فضا میں رقص کرتی خوشبوؤں نے کیا تھا وہ سرخ کارپٹ پر قدم رکھے سیدھا چلنے لگی تب ہی اس کے سامنے حادی کھڑا ہو گیا اس نے سرخ شیروانی پہن رکھی تھی اس قدر پرکشش لگ رہا تھا کہ اس سے نظریں ہٹائیں نہ ہٹیں حادی کا رخ حورین کی طرف تھا حورین نے اسے اپنے سامنے دیکھ نظریں اٹھائیں اس کی نظر اٹھانے کی دیر تھی کے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے حادی اپنے بازو اپنی کمر کے پیچھے رکھے حورین کے آگے تھوڑا سا جھکا تھا اور اپنا ایک ہاتھ آگے کیے حورین کے سامنے سرخ گلاب پیش کیا
ایک بار پھر سے تمہارا شکریہ۔۔ میری زندگی میں شامل ہونے کے لئے۔۔اس نے حورین کے کان میں سرگوشی کی حورین کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اس نے ہاتھ میں پکڑے لہنگے کو آزاد کیا اور حادی کی طرف بڑھا کر پھول تھام لیا حادی دو قدم پیچھے ہٹ گیا لیکن رخ حورین کی طرف ہی تھا حورین دو قدم آگے بڑھی تو حادی نے ایک اور گلاب کا پھول اس کے سامنے پیش کیا
شکریہ اپنے وجود سے میرے گھر کو روشن کرنے کا۔۔ حورین نے مسکراتے ہوئے پھول تھام لیا وہ اب اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگ گئی جس میں دنیا کا خزانہ مل جانے جیسی خوشی نظر آرہی تھی " اس کے ہاتھ دنیا کا خزانہ ہی تو لگ گیا تھا کیونکہ اسے حورین مل گئی تھی"
وہ پھر دو قدم پیچھے ہٹ گیا حورین نے اسے دیکھتے ہوئے دو قدم بڑھائے اور حادی نے پھر ایک اور پھول آگے کیا
شکریہ حادی کی حورین بننے کے لیے۔۔ جب تک وہ ڈرائنگ روم تک آئے حورین کے دونوں ہاتھ گلاب کے پھولوں سے بھر چکے تھے جنہیں وہ اپنے چہرے کے پاس لاتی ان کی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگی اسے یوں کرتا دیکھ حادی کو کس قدر سکون ہوا تھا اس نے آگے بڑھ کر حورین کے ہاتھوں سے پھول لیے حورین اسے دیکھنے لگ گئی وہ پھول پکڑے انہیں ٹیبل پر رکھ چکا تھا پھر خود صوفے کی طرف جا کر کھڑا ہو گیا اور حورین کو اشارہ کیا حورین اسے دیکھ کر الجھتی ہوئی اپنا لہنگا پکڑے اس کے پاس گئی حادی نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ہاتھ بڑھا کر صوفے کی گدی سے کچھ لیا اور مٹھی بند کیے حورین کے سامنے ہاتھ کیا حورین نے بند مٹھی کو دیکھ کر حادی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا حادی نے ہاتھ کھولا تو اس میں چاکلیٹ نکلی تھی
کچھ میٹھا ہو جائے ۔۔حورین چاکلیٹ دیکھ کر کھل کھلا اٹھی
واہ تم تو خاصے رومینٹک ہو حادی۔۔ ورنہ مجھے تو تم میں سن پینسٹھ کی روح سمائی لگتی تھی۔۔ وہ چاکلیٹ کو تھامے بولی اور اسے کھولنے لگی
شکر ہے تم بولی ورنہ مجھے لگا کہ تم اپنی زبان وہیں چھوڑ آئی ہو۔۔ حورین نے چاکلیٹ کی بائٹ لے کر حادی کی طرف بڑھائی حادی نے اس کے چاکلیٹ والے ہاتھ کو تھام کر بائٹ لی
میں ڈریس چینج کر لوں ۔۔بہت تھک گئی ہوں۔۔ حورین اب لہنگا تھامے جانے لگی کہ حادی نے بازو سے پکڑے اسے روک دیا
سن پینسٹھ کی روح مجھ میں سمائی ہے اور تھک تم گئی ہو۔۔ حادی نے آبرو اٹھائی
تم اتنا ہیوی لہنگہ پہنو تو لگ پتہ جائے تمہیں۔۔
توبہ کرو میں لہنگا کیوں پہننے لگا؟۔۔ حورین نے منہ بناتے ہوئے اسے دیکھا
اچھا منہ تو نہ بناؤ ورنہ سارا سرپرائز خراب ہو جائے گا۔۔
سرپرائز؟۔۔ ابھی بھی سرپرائز رہتا ہے؟۔۔ حورین آنکھوں کو بڑا کئے اسے دیکھنے لگی
ابھی بھی کا کیا مطلب ۔۔ابھی ہی تو سرپرائز ہے ۔۔حادی نے مسکراہٹ کے ساتھ آنکھیں جھپکتے ہوئے کہا
چلو چھت پر چلیں۔۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا وہ لہنگے کو سنبھالتے ہوئے مشکل سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی حادی نے بھی اس کا لہنگا تھام کر اس کی مشکل آسان کی وہ اب چھت پر آگئے حورین نے ٹھنڈی فضا میں گہری سانس بھری حادی نے حورین کا ہاتھ تھامے اسے ایک طرف کھڑا کر دیا اور پھر آسمان کی طرف انگلی سے اشارہ کیا
وہ دیکھو چاند۔۔ حورین نے بھی آسمان پر نظر ڈالی اور چند دیکھ کر مسکرائی اور پھر کچھ سوچتے اس کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور غصیلی نظریں حادی پر جمائیں
یہ سرپرائز ہے ؟۔۔حورین کے سوال پر حادی نے چونک کر اسے دیکھا چلتے ہوئے اس کے قریب آیا اور اسے دونوں کندھوں سے تھام لیا
میں نے کبھی تم سے چاند توڑ کر لانے کا وعدہ نہیں کیا ۔۔اور نہ ہی تم نے کبھی فرمائش کی۔۔ لیکن پھر بھی۔۔ اس نے کندھوں سے تھامے حورین کا رخ ایک طرف کیا حورین نے ادھر ادھر دیکھا تو اس کی نظر ایک شیشے پر مرکوز ہوئی اس شیشہ کو پھولوں سے کس قدر خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا اس نے غور سے شیشے کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک آئی
"اس نے آسمان پر موجود چاند کو خود میں قید کر رکھا تھا" حورین نے حیرت سے حادی کو دیکھا اس نے فخر سے کندھے اچکائے
دیکھو میں نے ایک ساتھ دو چاند قید کیے ہیں۔۔ حورین نے دوبارہ شیشے کو دیکھا جس میں چاند کے ساتھ اسے اب اپنا عکس بھی نظر آیا جس پر پہلے اس نے دھیان نہیں دیا تھا اور وہ سچ میں چاند توڑ لایا تھا اس نے ایک ساتھ دو چاند قید کر لیے تھے دیکھنے میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پوری دنیا میں پھیلی چاند کی روشنی سمٹ کر صرف حادی کے گھر کو چمکا رہی تھی۔
شادی کو دو دن گزر گئے اور ولیمہ بھی خوشحالی سے ہو گیا
جمشید اور عدیلہ ناشتہ کر رہے تھے عدیلہ ناشتہ کرتے ہوئے ملازموں کو دھیان سے صفائی کرنے کی ہدایت کرتی جا رہی تھی عینی سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ ملازموں کو کام کرتا دیکھ حیران ہوئی اس نے بے بی پنک فراک پہن رکھا تھا بالوں کی پونی بندھی تھی چلتے ہوئے ڈائننگ روم میں آئی اور سلام کر کے بیٹھ گئی
ممی یہ اتنی صفائی ستھرائی کس لیے ہو رہی ہے؟۔۔ ٹوسٹ پکڑتے ہوئے پوچھا
تمہیں فرصت مل گئی حجرے سے نکلنے کی؟ ۔۔عدیلہ کے سوال پر عینی نے معصومانہ چہرہ بنا ڈالا
میرے نصیب میں گندی اولاد ہی رہ گئی تھی۔۔ عدیلہ بیگم کو تو جیسے افسوس ہو گیا
کیا کوئی آ رہا ہے؟۔۔ اس سے پہلے عدیلہ بیگم کی صلواتیں شروع ہو جاتیں عینی نے نیا سوال کیا
ہاں بیٹا حورین حادی اور حماد کی دعوت ہے آج ۔۔عدیلہ کو جواب نہ دیتے پایا تو جمشید صاحب بول پڑے
حماد بھائی کس لیے؟۔۔ ان کی شادی تھوڑی نہ ہوئی ہے ۔۔عینی نے حیرانگی سے پوچھا وہ حماد کے سامنے اس کے بعد نہیں گئی تھی کیونکہ وہ دھکا دینے والی حرکت پر شرمندہ تھی اور حماد کو واقعی غصہ آیا تھا
باتیں کروا لو اس سے دنیا جہان کی۔۔ عدیلہ بیگم کا اس کے سوال پر تو سر ہی گھوم گیا
عینی بچے حماد کی دعوت کیے ہوئے ہمیں عرصہ ہو گیا ہے ۔۔اور وہ خود بھی کبھی نہیں آیا تو اس لیے ہم نے تینوں کی ساتھ ہی دعوت رکھ دی ۔۔جمشید صاحب نے پھر تحمل سے جواب دیا عینی اب ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی
حادی سفید شرٹ اور بلیو جینز پہنے ڈریسنگ کے سامنے برش سے بالوں کو ایک جیسا کر رہا تھا اتنے میں حورین ہاتھ میں بلیو کوٹ تھامے اندر آئی
تمہارا کوٹ پریس ہو گیا ہے۔۔ کوٹ کو بیڈ پر رکھے بولی اور اپنے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی حادی اسے شیشے سے دیکھ رہا تھا اس نے لال کامدار فراک اور لال ہی پجامہ اور لال دوپٹہ گلے اور کندھوں پر پھیلا کر لیا ہوا تھا بال گھنے اور سیدھے تھے جو اس نے ایک طرف سے کان کے پیچھے کر رکھے تھے وہ ابھی بھی دلہن ہی لگ رہی تھی حادی نے شیشے سے نظریں ہٹا کر اپنا رخ حورین کی طرف کیا
میرا ایک کام کرو گے حادی؟۔۔ حورین نے نظریں حادی پر جمائیں
ہاں ایک کیا میں تو تمہارے سارے کام کر دوں گا ۔۔کیا تمہارے ہاتھ دبانے ہیں؟۔۔ وہ شرارتی سے مسکراہٹ لیے بولا
نہیں میری ہیلز بند کر دو مجھ سے نہیں ہو رہی ۔۔اس نے اپنی ہیلز کی طرف اشارہ کیا
بیرا غرق ۔۔وہ جو حورین کے ہاتھوں کو پکڑنے کی آس میں تھا اس کا موڈ ہی خراب ہو گیا
کچھ کہا؟۔۔ حورین نے نظریں اٹھائیں
نہیں میں بند کر دیتا ہوں ۔۔وہ دانتوں کو پھینچ کر اس کے پاس آیا او ر جھک کر ہیلز کی سٹرپ بند کرنے لگا ۔۔ہلز بند کرنے کے بعد حادی نے نظر اٹھا کر حورین کو دیکھا
آپ کا شکریہ۔۔ حورین مسکرائی اور اٹھ کر کمرے سے بھاگ گئی
ہائے! ۔۔ تمہارے منہ سے آپ سننے کے لیے تو میں کچھ بھی کر دوں۔۔ وہ حورین کی اس حرکت پر پھر سے دل ہار بیٹھا تھا
شام کے وقت وہ تینوں پہنچ چکے تھے حماد اپنی گاڑی میں آیا تھا حورین حادی اپنی گاڑی میں ڈائننگ ٹیبل پر حورین عینی کے ساتھ بیٹھی تھی اور حادی حماد کے ساتھ سربراہی کرسی پر جمشید صاحب بیٹھے تھے عدیلہ نے ڈش ٹیبل پر رکھی اور وہ حورین کا ہاتھ جس پر پھر عدلیہ کا ہاتھ پڑا تھا سہلاتے ہوئے حادی کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھا جو اس کی حرکت پر لب دبائے ہنس رہا تھا
تم نے تو کہا تھا شادی کے بعد تم سدھر جاؤ گی ۔۔ عدیلہ بیٹھتے ہوئے بولی
ممی میں نے کہا تھا شاید۔۔ حورین نے آبرو اچکائی
کوئی بات نہیں ممی جب یہ حادی بھیا کے لیے کھانا بنائیں گی تب ہی ان کی عادت چھوٹ جائے گی ۔۔عینی آنکھوں میں شرارت لئے بولی
میں آپ کے لیے کھانا بناؤں گی؟؟ حورین نے حادی کو ایک گھوری سے نوازا مگر حادی نے سوائے "آپ" کے کچھ سنا ہی نہیں تھا
نہیں نہیں ۔۔میں باہر سے کھانے کا عادی ہوں ۔۔اور اگر کبھی گھر پر بنانا پڑ جائے تو میں بہت اچھا بناتا ہوں ۔۔
لو جی یہ تو ابھی سے جوڑوں کے غلام بن گئے ہیں۔۔ عینی منہ ٹیڑھا میڑھا کر کے بولی جس پر حورین نے اسے کوہنی ماری وہ بھی زور سے حمادان کی باتوں پر مسکرا رہا تھا
اور ایک وہ ہے میری گندی اولاد جو ہر کھانے سے کیڑے مکوڑے نکالتی پھرتی ہے ۔۔عدیلہ نے عینی کی پلیٹ دیکھتے ہوئے جل کر کہا جس میں اس نے چائنیز چاول میں سے ہر چیز کیڑے مکوڑے کی طرح نکالی ہوئی تھی اس نے نظریں اٹھائیں تو حماد اس کی پلیٹ کو ہی دیکھ رہا تھا اس نے پھر نظریں جھکالیں
ممی آج کے دن تو مجھے سراہنے سے گریز کر لیتیں۔۔ اور دل میں بڑبڑائی
کھانے کے بعد اب سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے عینی بڑی مشکلوں سے عدیلہ کے گھوریوں کے بعد چائے بنانے گئی تھی حماد کو کال آئی تو وہ لان میں چلا گیا کچھ دیر بعد عینی چائے لے کر آئی اور سب کو ان کی چائے پکڑائی حماد کو نہ پا کر اس کا کپ ٹیبل پر رکھ دیا
عینی بیٹا حماد لان میں ہے اسے وہیں چائے دے دو ٹھنڈی ہو جائے گی ورنہ۔۔ عدیلہ نے چائے کی سپ لیتے ہوئے بولا عینی کپ واپس تھامے لان کی طرف جانے لگی حماد کال سن کر وہاں موجود کرسی پر بیٹھ چکا تھا اور زمین پر نظریں جمائیں کسی گہری سوچ میں گم نظر آرہا تھا عینی نے چائے ٹیبل پر رکھی تو وہ چونکا پھر چائے کو دیکھا
اوہ۔۔تھینکس۔۔ عینی کو تو وہ اس وقت کوئی اور ہی حماد نظر آرہا تھا دنیا سے بیگانہ حماد
سوری۔۔ عینی آہستہ لب بولی
کیوں ؟؟ حماد چونکا
وہ ۔۔اس دن م۔میں نے جان کر نہیں کیا تھا ۔۔وہ جھجکتے ہوئے بولی
ویسے تم جب آئی ہو تو مجھے عجیب سی خوشبو محسوس ہوئی ہے ۔۔کیا تم نے پرفیوم لگایا ہوا ہے ؟۔۔حماد نے بات ہی بدل دی جیسے وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا ہو
نہیں تو۔۔ پھول سے ایسی ہی خوشبو آتی ہے۔۔ عینی ابرو اٹھائے بولی
پھول؟۔۔حماد نے ِادھر ُادھر دیکھا
جی۔میں۔ عینی کا مطلب پھول ہوتا ہے جو خوشبو بکھیرتی ہے ۔۔وہ گردن اکڑا کر بولی
انٹرسٹنگ۔۔ حماد ہنس دیا عینی کو اس کی ہنسی بہت عجیب لگتی تھی نجانے کیوں ایسا نہیں تھا کہ ہنستے ہوئے وہ اچھا نہیں لگتا تھا لیکن وہ ہر وقت ہی ہنستا تھا ایسا عینی کو لگتا ہے
آپ ہنستے کیسے ہیں؟۔۔ عینی نے عجیب سا سوال کیا
کیا مطلب؟۔۔ حماد اس کی سوال پر الجھا
آپ ہنستے ہیں تو لگتا ہے جیسے آپ رو رہے ہیں۔۔ عینی کی بات پر وہ اسے سپاٹ دیکھنے لگ گیا عینی نے یہ بات کیوں کی اسے خود نہیں پتا تھا اس کے منہ سے نکل گیا
کیڑے پڑیں تمہیں عینی تمہاری زبان کو لقوہ ہو جائے جو منہ میں نہیں رہتی جو منہ میں آتا ہے بک دیتی ہو ۔۔پہلی گستاخی کی معافی مانگنے آئی تھی اوپر سے دوسری گستاخی کر بیٹھی ہو۔۔ وہ دل میں خود کو کوستی چلی گئی حماد اس کی بات پر غصہ نہیں ہوا بس سر جھٹک کر اٹھ گیا کیونکہ اس نے کون سی غلط بات کی تھی وہ جب ہنستا ہے اصل میں روہی تو رہا ہوتا ہے وہ چائے اٹھائے اندر جانے لگا
آئی ایم۔۔سووووری ۔۔عینی نے زور سے آنکھیں میچ کر دوبارہ معافی مانگی کچھ دیر بعد اس نے اپنے ماتھے پر کچھ محسوس کیا تو آنکھیں کھول دیں
تمہیں بخار وخار تو نہیں ہو گیا ۔۔وہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھے چیک کر رہا تھا اور پتا نہیں کیوں عینی کو اپنا آپ گرم ہوتا محسوس ہوا اور اس کے گال سرخ پڑ گئے اس نے حماد کا ہاتھ اپنے سر سے پیچھے کیا لیکن اس بار جھٹکنے کی گستاخی نہیں کی تھی
مجھے۔ بخار۔ نہیں تو ۔۔عینی پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے چیک کرتے ہوئے بولی
تو تم اتنی معافیاں کیوں مانگ رہی ہو ؟۔۔آج سے پہلے تو میں نے تمہیں کبھی معافی مانگتے نہیں دیکھا۔۔ حماد نے آنکھیں سکیڑ لیں
آ۔آپ کی چائے ٹھنڈی ہو گئی ہوگی میں گرم کر دیتی ہوں۔۔ وہ جلدی سے اس کے ہاتھ سے کپ لیے لان سے نکل گئی اور جاتے جاتے ایک اور بار حماد کو حیرت کا شکار کر گئی۔۔ یہ اس نے خود سے کام کرنا کب سے شروع کر دیا؟
دوپہر کا وقت تھا حادی نے بلیک شرٹ پہن رکھی تھی اور بازوؤں کے کف بند کرتا کمرے سے نکلا ڈائننگ ٹیبل پر ملازمہ کھانا لگا رہی تھی لیکن حورین وہاں نہیں تھی حادی نے ڈرائنگ روم میں نظر گھمائی پھر لان کی طرف دیکھا وہ باہر کرسی پر ٹانگیں اوپر کیے بیٹھی تھی حادی لان کی طرف گیا
کیا کر رہی ہو یہاں؟۔۔ حادی انگلیوں سے اس کے گال کو چھوتا ہوا دوسری کرسی پر بیٹھ گیا
کچھ نہیں بس ہوا کھانے بیٹھ گئی تھی۔۔
تھوڑی سی جگہ چھوڑ دینا کیونکہ اندر کھانا لگ رہا ہے۔۔
پرانا والا حادی کب نظر آئے گا ؟۔۔حورین نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
کون سا پرانا حادی؟ ۔۔ حادی نے آبرو اٹھائیں
وہی جو اکڑوں تھا جب دیکھو ناک پر غصہ ہوتا تھا اور کوئی بات نہیں سنتا تھا ۔۔حورین نے ایک ایک کر کے اس کی خوبیاں اسے بتائیں
وہ اب کبھی نہیں آئے گا ۔۔حادی مسکرایا
وہ کیوں؟۔۔حورین نے آنکھیں گول کیں
کیونکہ تب میرے نام اور زندگی کے ساتھ حورین کا نام نہیں جڑا تھا لیکن اب جڑگیا ہے اس لیے ۔۔حادی اطمینان سے بولا
سپوز کرو صرف ایک سیکنڈ کے لیے کہ اگر حورین کا نام حادی کے نام سے ہٹ جائے تو پھر کیا ہوگا ؟۔۔حورین کے کہنے کی دیر تھی کے حادی نے سختی سے دیکھا اسے دیکھا جیسے اسے یہ بات بالکل پسند نہیں آئی
میں نے صرف سپوز کرنے کو ہی کہا ہے حادی کے میرے نام کے ساتھ تم اس قدر بدل گئے ہو تو بعد میں کیا ہوگا پتا تو چلے کس قدر محبت ہے تمہیں مجھ سے؟۔۔حورین اس کے غصے سے بچتی ہوئی بولی حادی نے گہری سانس لی
حورین تمہارا نام جب سے میرے نام کے ساتھ جڑا ہے تو مجھے دنیا میں کسی چیز کی خواہش باقی نہیں رہی ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی انسان مکمل ہو جائے اور میں مکمل ہو گیا ہوں ۔۔تمہارے ساتھ کا مجھے غرور ہے اور میں جیسے ساتویں آسمان کو چھو رہا ہوں اور اگر حورین کا نام حادی کے نام سے الگ ہو جائے تو اسے لمحہ لگے گا آسمان سے زمین پر آنے میں ۔۔وہ اس مکمل دنیا میں نا مکمل وجود ہوگا اس کے پاس حورین نہیں ہوگی تو کچھ بھی نہیں ہوگا ۔۔جیسے چلتی ہوئی سانسیں آنے جانے کا راستہ بھٹک جائیں گیں اور دھڑکتا دل دھڑکنے کے قابل نہیں رہے گا دوسرے لفظوں میں بن موت مارا جاؤں گا ۔۔ حادی حورین کی نظروں میں دیکھتا ہوا بولا اور اٹھ گیا وہ نجانے اسے کیا کچھ باور کرا گیا جسے جان کر وہ ساکت وہیں بیٹھی رہی
حادی ٹیبل پر کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا اور کھانا کھانے لگا تھوڑی دیر بعد حورین بھی آگئی
ہاں میں تم سے پوچھنا ہی بھول گیا تم رخصتی کے دن کہاں گئی تھی ؟۔۔میں نے کالز کی لیکن موبائل بھی چھوڑ گئی تھی۔۔ مجھے بہت پریشانی ہوئی تھی۔۔ اس دن سے مصروف ہو جانے کے بعد حادی کو آج یاد آیا
وہ میں ہاسپٹل گئی تھی۔۔
ہاسپٹل؟۔۔ خیریت تھی؟۔۔ حادی نے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا
ہاں وہ عریشہ نوریز پر تشدد ہوا تھا اسی کیس کے سلسلے میں اس سے ملنے گئی تھی ضروری تھا ورنہ نہ جاتی۔۔ اور وہ کیس لڑنے کے لیے مان بھی گئی ہے۔۔حورین خوشی سے بتانے لگی
تم۔۔ وہ کیس تم لڑ رہی ہو؟۔۔حادی حیران ہوا
ہاں۔۔
مگر کیوں وہ کیس کوئی بھی نہیں لے رہا تو تم نے کیوں لیا؟۔ وہ پریشانی سے بولا
اسی لیے لیا کیونکہ کوئی بھی نہیں لے رہا تھا۔۔حورین نے کندھے اچکائے
مگر حورین یہ کیس آسان نہیں ہے تم جانتی ہو تم کس کے خلاف لڑو گی؟
ہاں جانتی ہوں ولید بشر کے خلاف جو کہ حماد کی مدر کے بزنس پارٹنر بھی ہیں ۔۔حورین بیزاری سے بولی
حورین ضروری نہیں تم ہی یہ کیس لو کوئی اور بھی لڑ لے گا۔۔
ت۔تم مجھے کیوں روک رہے ہو میں نے بتایا نا کہ میں ہر چیز سے واقف ہوں پھر بھی لڑنا چاہتی ہوں ۔۔حورین الجھ کر بولی
حورین تم۔۔ حادی کچھ بولتا کہ حورین نے اس کی بات کاٹ دی
حادی کیا تم ولید بشر کا کیس لڑ رہے ہو؟۔۔ حادی کچھ بول نہ سکا اور اس کی خاموشی نے حورین کو شاکڈ کر دیا
تم حادی۔۔ تم جانتے ہو وہ چھوٹی بچی ہے۔۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے اور اس کے ساتھ اس گھٹیا شخص نے جانوروں والا سلوک کیا ہے۔۔ اور تم۔ تم اس کے لیے لڑ رہے ہو؟۔۔ حورین بے یقینی سے بولی
میں کیا کرتا حماد کی ممی میرے پاس خود یہ کیس لے کر آئی تھیں میں کیسے منع کر دیتا ۔۔حورین کی آنکھوں میں سرخی آگئی جیسے بس ابھی رو دے گی
پلیز ایک بار تم میری بات مان جاؤ حورین یہ کیس مت لڑو ۔۔حادی نے اب کی بار التجا کی حورین نے آنکھ جھپکی اور آنسو کو گرنے نہ دیا
اگر تم یہ کیس نہیں چھوڑ سکتے تو میں بھی نہیں چھوڑوں گی اور یہ مت بھولو کے ہماری زندگی اور کام الگ ہیں۔۔ مجھ سے دوبارہ کیس چھوڑنے کی بات نہ کرنا اور نا ہی میں تم سے کہوں گی۔۔ کیونکہ تم کبھی نہیں چھوڑو گے۔۔ حورین کھانا چھوڑ کر اٹھنے لگی کہ حادی نے اس کا بازو پکڑ لیا
تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ سوری مجھے تمہیں ایسا کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا بے شک ہمارا کام ہماری زندگی سے الگ ہے اس لیے میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ تم اٹھ گئی تو میں بھی نہیں کھا سکوں گا اور مجھے اس وقت بہت بھوک لگی ہے ۔۔حادی کا لہجہ اب پیار بھرا تھا حورین نے اسے خفگی سے دیکھا لیکن کچھ بول نہیں سکی اس کی محبت کے آگے حورین کا سارا غصہ پھیکا پڑ گیا اور خاموشی سے بیٹھ کر کھانا کھانے لگی
آج کا دن:
حورین اندھیرے کمرے میں ٹیبل کے اس طرف رکھی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور سامنے کرسی پر جنید بیٹھا تھا کمرے میں ہلکی سی روشنی محسوس ہوتی تھی اور ساتھ حادی کھڑا تھا اور دو پولیس آفیسرز
تو جنید صاحب آپ کے ساتھ اور کتنے لوگ شامل تھے؟۔۔حورین نے سامنے فائلز کو دیکھتے ہوئے پوچھا
مجھے آپ سے ایک بات کہنی تھی میڈم صاحبہ ۔۔وہ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
کہو ۔۔
عورتیں نا صرف گھر کے کام کاج کرتی اچھی لگتی ہیں یہ کیا آپ کورٹ کچہری میں پڑی ہوئی ہیں میری مانیں ۔۔وہ آگے جھک کر ابھی بول رہا تھا یک دم سے ٹیبل پر زور کا ہاتھ مارا گیا جنید نے چونک کر اوپر دیکھا تو حادی اسے کاٹ دار نظروں سے دیکھ رہا تھا
اپنی بکواس کو۔۔ حادی غصے میں کچھ بولتا کہ حورین نے ٹوک دیا
آپ میرے کام میں مداخلت کر رہے ہیں جو مجھے بالکل پسند نہیں۔۔ یا تو آپ خاموشی سے کھڑے رہیں یا باہر تشریف لے جائیں۔۔ حورین تلخی سے حادی کو دیکھ کر بولی جنید نے ہنس کر سر جھٹکا حادی پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا
عورتیں کیا کر سکتی ہیں کیا نہیں یہ مجھے تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے اور جتنا پوچھا جائے اپنی زبان کو اتنا کھولو ۔۔اپنے اس دوست کا نام بتاؤ جس کی گردان لگائی رکھی تھی تم نے کورٹ روم میں۔۔ وہ غصے سے بولی
یاد نہیں۔۔ اس نے کندھے اچکا دیے
میں یاد کرواؤں؟۔وہ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ آبرو اٹھائی بولی
جی ضرور۔۔
سکندر شاہ۔۔ جنید نے حیرانی سے حورین کو دیکھا پھر حادی کو۔۔
سیدھا تمہارے دوست سے بات ہوگی۔۔ حورین فائل سمیٹ کر اٹھ گئی ایک تلخ نظر حادی پر ڈالی اور باہر نکل گئی حادی نے دونوں وردی میں ملبوس پولیس آفیسرز کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور خود جنید کی طرف بڑھا اور یکدم اس کا گریبان پکڑ لیا
آئندہ میں نے تمہاری زبان سے ایسی بات سنی تو خدا کی قسم ۔۔تمہارے مالک سے پہلے میں تمہیں خود اپنے ہاتھوں سے مار ڈالوں گا۔۔ طیش بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے غرایا اور گریبان جھٹک دیا جنید اس کی حرکت پر گھبرا کر رہ گیا
حورین باہر کھڑی موبائل میں مصروف تھی جب حادی اس کے پاس آیا۔
تم جیسی وکیل ان گنڈوں سے لپٹ نہیں سکتی تو ان کا کیس کیوں لیتی ہو؟ وہ نرمی سے بولا۔۔حورین نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
مجھ جیسی وکیل سے تمہارا کیا مطلب ؟۔اوہ اچھا تمہارا مطلب ان سے بس تم جیسے قابل وکیل لڑ سکتے ہیں۔۔ وہ لب بھیج کر بولی ۔۔وہ وکیل نا جو بڑی ڈھٹائی سے مجرموں کا ساتھ دیتے ہیں اور معصوموں کا قتل کروا دیتے ہیں ۔۔حادی نے گہری سانس بھری
تمہاری سوئی وہیں کیوں اٹک گئی ہے۔۔ ایک بات بار بار کر کے تم تھکتی نہیں؟۔۔ وہ ماتھے پر شکن لائے بولا
میری سوئی وہیں اٹکے گی جہاں میری زندگی اٹک کر رہ گئی ہو۔۔ تم نے کچھ نہیں کھویا تب ہی تم آگے بڑھ گئے ہو لیکن میں نہیں۔۔ اور تم میرے منہ نہ لگا کرو کیونکہ میرے پاس تمہارے لیے ہمیشہ ایک ہی الفاظ ہیں ۔۔حورین اپنے غصے پر قابو کر کے بولی جس کے باعث اس کی گردن کی رگیں تن گئیں اور بنا کچھ سنے چلی گئی حادی اسے دیکھتا رہا "کیا واقعی میں نے کچھ نہیں کھویا؟" اس نے خود سے سوال کیا اچانک اس کے کانوں میں کسی کی درد بھری آواز آئی " حورین پلیز!۔۔ تم مجھے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہو؟۔ میں کیسے رہوں گا تمہارے بغیر؟" اس نے اپنے سر کو جھٹکا اوروہ خوفناک آواز بھی جھٹکی۔
دوپہر کا وقت ہو چکا تھا حورین ریسٹورنٹ میں بیٹھی کسی کا انتظار کر رہی تھی تھوڑی دیر بعد کلائی پر پہنی گھڑی پر نظر ڈالی کہ حماد سامنے کرسی پر آکر بیٹھ گیا
اوہ میرا انتظار کر رہی تھی؟۔۔ شرارت سے پوچھا لال ٹی شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس خاصی پرسنلٹی کا لگ رہا تھا
مجھے اتنی دیر کا بلا کر خود کہاں رہ گئے تھے ؟۔۔حورین منہ بناتے ہوئے بولی
سوری راستے میں تھوڑا وقت لگ گیا مجھے ۔۔کیا کھاؤ گی؟۔۔ معذرت کرتے ہوئے ویٹر کو اشارہ کیا
کچھ نہیں ۔۔میرا دل نہیں ہے ۔۔حورین کی بات پر حماد اسے دیکھتا رہ گیا انگلیوں پر فرمائش کرنے والی حورین اسے بہت شدت سے یاد آئی پھر گہری سانس لے کر ویٹر سے کولڈ ڈرنکس کا کہہ دیا
کیسی ہو تم؟
جیسی نظر آرہی ہوں ویسی ہی ہوں ۔۔حورین آبرو اچکاتی ہوئی بولی
ہاں نظر آرہی ہو کیسی ہو۔۔ حماد نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا
اور تم کیسے ہو؟ ڈرنک کی سپ لیتے ہوئے پوچھا
جیسا نظر آرہا ہوں ۔۔حماد نے بھی ویسا ہی جواب دیا حورین مسکرا دی حماد نے ایک نظر اسے غور سے دیکھا
حورین تم ایک بار حادی۔۔
حماد تم نے اگر یہاں حادی کی وکالت کی تو میں چلی جاؤں گی۔۔ حورین نے اس کی بات پوری بھی نہ ہونے دی اور خفگی سے بولی
نہیں تم کہیں نہیں جاؤ گی۔۔ اور میں تم سے کسی کی وکالت نہیں کر رہا میں تمہارے بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔۔حماد نرمی سے بولا حورین کچھ نہ بولی بس اسے گھورتی رہی
تم ایک بار اس پر یقین کر کے دیکھ نہیں سکتی؟۔۔ اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کر سکتی؟۔اس نے دوبارہ بات شروع کی۔
حماد محبت اندھی ہو سکتی ہے لیکن یقین اندھا نہیں ہوتا۔۔ ایک بار کسی کا یقین پاؤں تلے روند دیا جائے تو کبھی چاہ کر بھی کسی پر دوبارہ یقین نہیں کر سکتا ۔۔حورین تحمل برقرار رکھتے ہوئے بولی
تمہیں اگر حادی کو کبھی غلط سمجھنے پر پچھتاوا ہوا تو؟۔۔ حماد نے اب اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا
پچھتاوا مجھے ہو چکا ہے اسے غلط سمجھنے کا ۔۔یہ سمجھنے کا کہ وہ اگر وکیل جیسا بھی ہو انسان اچھا ہے سب کا دل رکھتا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔۔ یقین مانو حماد بہت پچھتاوا ہوا ہے مجھے اسے غلط سمجھنے پر۔۔حورین تلخی سے لب پھینچ کر بولی حورین کے جواب نے حماد کو کچھ دیر ہلنے سے قاصر کر دیا تھا وہ کچھ دیر کے لیے کسی سوچ میں گم ہو گیا ۔
حورین تم سے کوئی بہت محبت کرنے والا کہہ رہا ہے کہ اپنی محبت کو گنواو نہیں تم جیسی قسمت ہر کسی کو میسر نہیں ہوتی اپنے ہاتھوں اپنی قسمت برباد مت کرو۔۔حورین اسے ساکت دیکھتی رہی شاید اسے حماد کی بات سمجھ نہیں آئی یا بہت اچھے سے سمجھ آگئی ۔
تم ۔تم نے کیا ۔۔حورین پوچھنے کے لیے لفظ کا انتخاب کر رہی تھی کہ آیا اس نے صحیح سنا یا غلط۔
میں نے اپنے احساسات تمہیں پروپوز یاں جتانے کے لیے نہیں بتائے حورین یہ بتا رہا ہوں کےمیں وہی حماد ہوں جس نے شادی سے پہلے تمہیں حادی کے بارے میں سوچنے کا کہا تھا اور میں وہی ہوں جو آج بھی تمہیں اس کے بارے میں سوچنے کا کہہ رہا ہے۔۔حورین پر ہوئے انکشاف نے اسے مجسمہ بنا دیا
حماد نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا۔
اور وہ کیا تمہیں پروپوز کرے گا جسے خود اپنے احساسات کی پہچان نہیں ہے میرے دل میں تمہارے لیے چاہت ہے محبت ہے عشق ہے یا جنون میں نہیں جانتا ۔جو بھی ہے وہ کب ہوا نہیں جانتا۔ تم سے ہی کیوں ہوا نہیں جانتا ۔ کیسے ہوا نہیں جانتا ۔جب جان گیا تو تمہیں بتاؤں گا۔۔ حماد نے ٹیبل پر دونوں بازو ٹکائے اور آگے کو جھک کر سنجیدگی سے حورین کو دیکھا وہ جو ساکت اسے ہی دیکھ رہی تھی
لیکن میری دعا ہے کہ تم وہ وقت نا آنے دو حورین۔۔میری دعا ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے۔
شام رات میں ڈھل گئی حادی کار پارک کر کے ڈرائنگ روم میں آیا کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا اور شرٹ کی ٹائی ڈھیلی کر دی کچھ دیر میں ملازمہ آئی
صاحب جی کھانا نکال دوں؟
نہیں میں صرف کافی پیوں گا۔۔ ماتھے کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ۔۔وہ کچن کی طرف جانے لگی
بلکہ رہنے دو میں خود بنا لوں گا۔۔ تم جاؤ۔
جی بہتر۔۔۔ حادی نے بازو کے کف اوپر کیے اور کچن کی طرف بڑھ گیا کچھ دیر بعد ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے کچن سے باہر نکل کر سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا چھت پر آکر آسمان میں چمکتے چاند کو دیکھنے لگا کافی کی ایک سپ لی اور کچھ دیر چاند کو دیکھنے میں مصروف رہا موبائل کی رنگ ہوئی پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا حماد کی کال تھی۔
ہیلو کہاں ہے صبح سے؟۔ کتنی کالز کر رہا تھا میں۔۔ فون کے اٹھتے ہی حماد کی سنجیدہ آواز آئی
بس دنیا کی بھیڑ میں مصروف ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ حادی نے جواب دیا
اچھا کیا کر رہا ہے اب؟۔۔
آسمان پر چاند کی چمک دیکھ رہا ہوں۔۔ وہ چاند کو ہی تک رہا تھا
چاند کو دیکھنے کی فرصت ہے تیرے پاس ایک کال اٹھانے کی فرصت نہیں تھی؟۔۔ حماد چڑ کر بولا
وقت نکالنا پڑا مجھے پوچھنے آیا تھا اس سے۔۔ اس کی چمک پوری دنیا کو روشن کر رہی ہے تو پھر میرا گھر اندھیرے میں کیوں ڈوبا ہوا ہے؟۔۔حادی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ایک زخمی سی مسکراہٹ اس کی بات پر حماد کچھ نہ بول سکا
میں کل تیرے گھر آرہا ہوں پھر تیری خبر لوں گا۔۔ حماد نے کہہ کر فون بند کر دیا حادی نے ایک گہری سانس بھری اور کافی پینے لگا
کس سے بات کر رہے تھے؟۔۔ماہ جبین لان میں آئی
حادی سے ۔۔ حماد نے موبائل جیب میں ڈالا
اس وقت۔۔ کیا کہہ رہا تھا؟۔۔ماہ جبین کے ماتھے پر شکن ابھری
چاند کو دیکھ کر کہہ رہا تھا کے چاند کی روشنی اس کے گھر کو روشن نہیں کر پا رہی۔۔ حماد نے چاند کو دیکھا
کیا مطلب؟؟ اس کو سمجھ نہیں آیا
بتا رہا تھا کہ اس کے گھر کی ساری روشنی سمیٹ کر اس کا چاند تو کب کا رخصت ہو گیا ہے۔۔ وہ مسکرایا تھا لیکن لہجہ اداسی سے بھرا تھا
ایک تو پتا نہیں تم لوگ پہیلیوں میں کیوں بات کرتے ہو۔۔ ماہ جبین کچھ سمجھ نہ آنے کے انداز میں کہتی اندر چلی گئی اور حماد چاند کو دیکھتا رہ گیا
صبح کے وقت سورج نے زور پکڑ رکھا تھا کورٹ میں حورین چلتے ہوئے ایک آفس نما کمرے میں آئی جہاں پہلے سے کوئی موجود تھا اس کے سامنے کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی ۔
معذرت ازلان صاحب مجھے دیر ہو گئی۔۔
ک۔کوئی بات نہیں۔۔ وہ سیدھا ہوا
جی تو آپ کو مجھ سے کیا ضروری کام تھا؟۔۔ حورین نے دونوں بازو ٹیبل پر ٹکائے اور اس کی طرف متوجہ ہو گئی
ہم۔ ہم غریب لوگ ہیں کام کی تلاش میں ِادھر اًدھر نکل جاتے ہیں ۔۔اور اسی طرح میں ایک فیکٹری میں پہنچ گیا س۔سال ہو گیا ہے مجھے وہاں کام کرتے ہوئے ۔۔لیکن وہاں کچھ ہے جو بہت برا ہو رہا ہے۔۔ ازلان نے جھجکتے ہوئے بات کی
آپ اپنی کمپنی کے خلاف کیس لڑنا چاہتے ہیں؟۔۔حورین نے پوچھا
ج۔جی۔۔ اس نے نظریں نیچے کر لیں
اور وہ کیا ہے جو بہت برا ہو رہا ہے؟
وہاں پر مختلف ادویات بنائی جاتی ہیں ..اور ہم سب انہیں بناتے ہیں بننے کے بعد وہ ہسپتالوں میں بھیج دی جاتی ہیں م۔مگر ایک سال میں میں نے اپنے سامنے اس فیکٹری میں بہت لوگ بیمار ہوتے دیکھے ہیں۔۔ اور کچھ تو م۔مر بھی گئے ہیں اور مجھے لگتا ہے ۔۔وہ اپنے ہاتھوں کو مسل رہا تھا
اور آپ کو لگتا ہے وہ ادویات کی وجہ سے مر رہے ہیں ؟۔۔حورین نے حیرت سے پوچھا
جی۔۔
مگر آپ یہ بات اتنی یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟۔۔
پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا نہ میں نے سمجھنے کی کوشش کی لیکن۔۔ جو جو لوگ مرتے گئے ان کی فیملی کو اچھا حاصہ معاوضہ دیا گیا ۔۔جیسے چپ رہنے کے لیے ہو۔۔
کمپنی کا مالک کون ہے؟۔۔
المیر بشر۔۔ ازلان نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بتایا
المیر بشر ؟۔۔حورین کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
جی۔۔۔
ولید بشر کا بیٹا؟۔۔اس نے بے یقینی سے پوچھا
آپ جانتی ہیں؟۔۔ازلان نے حورین کو دیکھا جو کسی شاکڈ میں گھری ہوئی تھی
میں کیسے اسے بھول سکتی ہوں۔۔ حورین نے سختی سے لب پھینچ لئے۔
میں یہ کیس لڑنے کے لیے تیار ہوں آپ بے فکر رہیں۔۔۔ اس نے کہا اور پھر کسی سوچ میں کھوئی نظر آئی۔۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے عینی نے ڈرائنگ روم میں نظر دھرائی کوئی نظر نہیں آیا پھر سیڑھیوں کی بائیں طرف جا کر ایک کمرے کی طرف بڑھ گئی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو جمشید صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے
دادا ابو میں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاؤں؟۔۔دروازہ کھول کر اندر آئی
آجاؤ میرا بیٹا ۔۔یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھلا۔۔ جمشید صاحب نے قرآن سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور عینی کی طرف ہاتھ بڑھایا عینی ان کے پاس آئی اور زمین پر بیٹھ کر جمشید صاحب کی ٹانگوں پر سر رکھ دیا ۔۔کچھ دیر یوں ہی بیٹھی رہی
اب بتاؤ گی نہیں اپنے دادا کو ۔۔کیا ہوا ہے میری بیٹی کو؟۔۔جمشید صاحب اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر رہے تھے
دادا ابو کسی کو راضی کرنے کے لیے آپ کو کیا کرنا چاہیے؟۔ اس نے گم صم سا سوال کیا
یہ تو میں تب ہی بتا سکتا ہوں جب مجھے پتا چلے کے راضی کس کو کرنا ہے ۔۔وہ مسکرا کر بولے
ایک دعا پر میری زندگی اٹک کر رہ گئی ہے اور وہ پوری ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔۔ عینی کی آنکھ سے آنسو گال پر بہہ گیا
تو اس کا یہی مطلب ہے نا کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے اس نے مجھے اس معاملے میں اکیلا چھوڑ دیا ہے ۔۔میں اسے کس طرح راضی کروں مجھے سمجھ نہیں آرہا ۔۔
بیٹا دعا قبول نہ ہونے کی دو وجوہات ہوتی ہیں یا تو اللہ کو تمہارا مانگنا پسند آجائے اور وہ چاہتا ہے تم اس سے مانگتی رہو۔۔ یا تو وہ دعا تمہارے حق میں بہتر نہیں اور وہ تمہیں اس سے بہترین سے نواز دے ۔۔ وہ اس کے بالوں کو پیار سے سہلاتے رہے
اور اگر ہمارے دل کو بہتر سے زیادہ کسی کی حسرت ہی نہ ہو تو؟۔۔
تو اس چیز کے حصول کی دعا کی بجائے تم اپنے دل کے صبر کی دعا کرو۔۔ اور یہ ہمیشہ یاد رکھنا تمہیں دنیا میں کوئی بھی اکیلا چھوڑ سکتا ہے لیکن تمہاری تنہائی میں صرف اللہ تمہارے ساتھ ہوگا ۔۔۔اور تمہیں یقین نہ آئے تو قرآن کھول کر اللہ کو خود سن لو تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔۔ عینی نے ہاتھ سے گرتے آنسوؤں کو صاف کیا اور سر اٹھایا ۔
شکریہ دادا ابو۔۔ وہ مسکرا دی
خوش رہو دادا کی جان۔۔ جمشید صاحب نے اس کے گال کو تھپتھپایا
مغرب کی اذان ہو چکی تھی عینی نے وضو کر کے اپنے گرد ڈوپٹہ باندھا اور نماز کے لیے کھڑی ہو گئی تکبیر کے لیے ہاتھ کو اٹھانے سے پہلے اس نے اعوذ باللہ پڑھ کر بائیں کندھے پر تین بار تھوکنے کے انداز میں تھوکا اور نماز شروع کر دی نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کسی بچے کی طرح دعا میں وہ مانگنے لگ گئی جو اسے چاہیے تھا دعا مانگ کر منہ پر ہاتھ پھیرا اور اٹھ کر قرآن تھاما اور دوبارہ جائے نماز پر بیٹھ کر قرآن کھولا تو اس کے سامنے سورہ الضحٰی کی آیت آئی۔
"قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہو گیا ہے اور یقیناً آگے آنے والے حالات تمہارے لیے پہلے حالات سے بہتر ہیں اور یقین جانو کہ عنقریب تمہارا پروردگار تمہیں اتنا دے گا کے تم خوش ہو جاؤ گے۔ کیا اس نے تجھے یتیم پا کر جگا نہیں دی؟۔ اور اس نے آپ کو بے خبر پایا تو ہدایت نہیں دی؟ اور آپ کو مال سے محروم پایا تو مالدار کر دیا پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر اور جو سوال کرنے والا ہو اسے جھڑکنا نہیں اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کیا کر"
اس نے قرآن بند کر کے اپنے سینے سے لگایا
رات کا وقت ہو چکا تھا حادی گاڑی پارک کر کے باہر نکلا اور اندر جانے لگا تو نظر لان میں بیٹھے حماد پر گئی وہ چلتے چلتے حماد کی طرف بڑھا
یہاں کیا کر رہے ہو تم؟۔۔
تمہاری یاد میں تارے گن رہا تھا ۔۔ حماد کھڑا ہو گیا
اور یہ ہاتھ میں کیا ہے؟۔۔ اس کے ہاتھ میں پکڑے بیگ کو دیکھا
یہ میں بلبز لایا ہوں ۔۔تم نے کل اندھیرے کی شکایت کی تھی تو میں نے سوچا روشنی کر دوں۔۔ حماد نے بیگ حادی کے سامنے کیا جس پر حادی مسکرا دیا
جتنی بھی مصنوعی روشنی کر لو تم اندھیرا پھر بھی نہیں جائے گا ۔۔اس کی بات پر حماد کا ہاتھ ڈھیلا پڑ گیا
یہ سب چھوڑ کھانا کھائے گا؟۔۔ حادی نے حماد کے کندھے پر ہاتھ مارا
ہاں اگر تم کھلا دو گے بغیر کنجوسی کے تو۔۔ کھا لوں گا ۔۔حماد نے کندھے اچکائے
آجا مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے۔۔ حادی کہتا ہوا اندر چلا گیا حماد نے بلبز کا بیگ ٹیبل پر ہی رکھ دیا اور ایک نظر آسمان کو دیکھا جہاں چاند بادلوں کی اوڑھ میں چھپا بیٹھا تھا وہ دونوں اب بیٹھے کھانا کھا رہے تھے
یار میں نے پلان بنایا ہے کل ہم کہیں گھومنے چلیں گے ۔۔حماد بولا
کل میرا کیس ہے جانا مشکل ہے ۔۔حادی نے بائٹ لیتے ہوئے بتایا
کبھی تو میری ہاں میں ہاں ملا لیا کر۔۔حماد خفگی سے بولا
پوچھو گے نہیں کس کے خلاف لڑنا ہے ؟۔۔
خود بتا دو۔۔ اب کس کو ہرانے کا منصوبہ ہے؟۔۔ حماد نے بیزاری سے پوچھا
حورین۔۔ حادی نے پانی کا گلاس تھاما
حورین؟۔۔تم اس سے لڑنا باز کیوں نہیں آتے حادی؟۔ وہ تم سے اور بدگمان ہو جائے گی۔۔ حماد غصے اور حیرت سے بولا
مجھے اس سے لڑنے کی خواہش کبھی نہیں رہی ۔۔وہ خود مجھ سے لڑنا چاہتی ہے۔۔ اور تو نے کیا کہا بدگمان ہو جائے گی؟۔۔ انسان کو کسی سے بدگمان ہونے کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں پڑتی اور جو پہلے ہی بدگمان ہو چکا ہو مجھے اس کے بارے میں کوئی گمان نہیں رہا۔۔اس نے کھانا چھوڑ کر ہاتھ صاف کیے جو اب اس کے خلق سے اترنے والا نہیں تھا
تم کھانا کھاؤ ۔۔میں کافی بنا کر آتا ہوں۔۔ وہ اٹھ کر چلا گیا حماد نے ایک نظر اس کے چھوڑے گئے کھانے پر ڈالی اور سر جھٹک کر رہ گیا
کمرہ عدالت میں حورین جج کے سامنے کھڑی تھی اور حادی اپنی جگہ پر بیٹھا اپنے ہاتھوں پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا
یور آنر۔۔یہ ادویات ہسپتال میں سپلائی کی جاتی ہیں جہاں لوگ اپنے درد کا علاج ڈھونڈنے آتے ہیں۔۔۔ لیکن انہیں خبر ہی نہیں کے جہاں وہ اتنے یقین سے آتے ہیں اصل میں وہی لوگ ان کی جان لینے کا منصوبہ بنائیں بیٹھے ہیں۔۔ حورین نے ایک سرد نظر المیر بشر پر ڈالی جو سپاٹ بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا
فیکٹری میں موجود جتنے بھی لوگ مرے ہیں ان کی وجہ کیا بنی ہے؟۔۔ جج نے عینک سے اوپر دیکھتے ہوئے سوال کیا
میں کل ان کی فیملیز کو گواہ کے طور پر بلانا چاہوں گی یور آنر ۔۔
اجازت ہے۔۔ حورین سر کو خم دے کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی حادی اپنے کوٹ کا کالر سیدھا کرتے ہوئے اٹھا اور ازلان کے سامنے کھڑا ہو گیا
آپ نے ایک سال میں کتنے لوگوں کو بیمار دیکھا ہے؟ ۔۔صرف فیکٹری کے لوگ۔۔
جی پ۔پانچ سے سات۔۔
اور ان میں سے کتنے لوگ۔۔ بقول آپ کے مر چکے ہیں؟۔۔ حادی کے ماتھے پر بل پڑ گئے
دو۔ تین لوگوں کی ۔۔ازلان بمشکل بولا
بس تین لوگوں کی؟۔۔
ابجیکشن یور آنر مسٹر حادی بے بنیاد سوال پوچھ رہے ہیں۔۔ آپ کے مطابق ان سات کے سات لوگوں کو مر جانا چاہیے تھا؟۔۔ حورین کھڑی ہوتے ہوئےغصے سے بولی
سسٹینڈ مسٹر حادی آپ بس کیس سے جڑے سوال کریں۔۔حورین کھڑی ہی رہی
یور آنر ایک دن میں ہزاروں موتیں واقعہ ہوتی ہیں لیکن ازلان صاحب نے سال میں تین لوگوں کی موت دیکھی ہے اور اسے فیکٹری کی وجہ قرار دے رہے ہیں ۔۔جبکہ مرنے والوں کی فیملی نے ایسا کوئی کیس کیا بھی نہیں۔۔ حادی اپنا رخ جج کی طرف کر کے تحمل مجازی سے بولا
کیونکہ ان کی فیملی کو چپ رہنے کے لیے بڑی رقم دی گئی تھی۔۔ اور پتا نہیں کیا کیا وعدے لیے گئے۔۔ حورین تلخی سے بولی
مسز عبدالحادی!۔۔ عدالت آپ کے لفظوں کی پابند نہیں ہے۔۔ وہ صرف ثبوت کو مانتی ہے۔۔حادی مسکراتے ہوئے بولا جس پر حورین کی آنکھوں میں ناگواری آئی اور لب پھینچ کر بیٹھ گئی۔
رات کا وقت ہو چکا تھا عینی عدیلہ اور جمشید ڈائننگ ٹیبل پر موجود کھانا کھا رہے تھے
حورین بیٹی کہاں ہے؟۔۔ جمشید صاحب نے حورین کو نہ پا کر پوچھا
پتا نہیں جب سے آئی ہے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔۔ میں دیکھ کر آتی ہوں۔۔عدیلہ اٹھتے ہوئے بولی
ممی حور آپی پر دھیان رکھیں پتا نہیں کب کس کا قتل کر بیٹھیں۔۔ عینی کی بات نے تو عدیلہ کا دل جلا دیا
خدا کا خوف کرو عینی بندے کی شکل اچھی نہ ہو تو بات اچھی کر لینی چاہیے۔۔
ممی میں نے غلط بات بالکل نہیں کی اور شکل تو میری سو فیصد اچھی ہے ۔۔لیکن آپ کی حور بیٹی کے خیالات اچھے نہیں ہیں۔۔ عینی نے گردن اکڑائی
اس کو اللہ ہدایت دے۔۔ عدیلہ مزید کچھ کہے بغیر چلی گئی
دادا ابو میرا دل کہہ رہا ہے کہ کوئی قیامت آنے والی ہے۔ اور کسی ایک کی جان تو موت کی نظر بھی ہونے والی ہے۔۔
عینی بیٹا۔۔ اپنے دادا کے نازک دل پر رحم کھاؤ اور ایسی ہولناک باتیں مت کرو ۔۔عینی کی بات پر جمشید صاحب کا دل بری طرح ڈوبا اور عینی گہری سانس بھر کر رہ گئی
عدیلہ نے دروازہ کھولا تو حورین بستر پر اپنے گرد کاغذ پھیلائے خود بستر کی ٹو سے ٹیک لگائے کسی سوچ میں گم نظر آرہی تھی
حور بیٹا کیا کر رہی ہو؟۔۔ عدیلہ اندر آئی
جی ممی ۔۔حورین نے چونک کر سر اٹھایا
کیا ہوا ہے تمہیں کھانا کھانے بھی نہیں آئی تم؟۔۔حورین اپنے ارد گرد پھیلے گند کو سمیٹنے لگی
وہ۔ ممی وقت کا پتا ہی نہیں چلا ۔۔
وقت کا تو تب پتا چلے نا جب تمہیں کام سے فرصت ہو ۔۔تم نے تو ہمیں بھی وقت دینا چھوڑ دیا ہے۔۔ عدیلہ حورین کے پاس بیٹھ گئی حورین چپ رہی
کیا ہوا ہے پریشان نظر آرہی ہو۔۔ اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا
ممی سوچ رہی ہوں۔۔ کہ لوگوں کو خدا سے ڈر نہیں لگتا؟۔۔ حورین نے افسردگی سے پوچھا جس پر عدیلہ مسکرا دی
میری جان اگر سب لوگوں کو خدا سے ڈر لگنا شروع ہو جائے ۔۔تو یہ دنیا جنت بن جائے گی۔۔ حورین نے عدلیہ کی گود میں سر رکھ لیا
ہم اتنے سنگ دل لوگوں کے درمیان کیوں رہتے ہیں؟۔۔ مجھے نہیں رہنا ایسے لوگوں میں جہاں کسی کی جان لینا اپنا حق سمجھ لیا جائے ۔۔
یہ دنیا میں رہنے والے لوگوں کے اصول بن چکے ہیں ہم انہیں روک نہیں سکتے لیکن خود کو ان سے بہتر بنا سکتے ہیں ۔۔عدیلہ اب اس کے بالوں کو سہلا رہی تھی
میرا بس چلے تو میں دنیا سے ایک ایک سنگ دل اور بے رحم انسان کا خاتمہ کر دوں ۔۔حورین نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور عدیلہ مسکراتے ہوئے پیار سے اسے سہلاتی رہی
حادی اپنے آفس میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اور ساتھ ولید بشر اور بیٹا المیر بشر موجود تھے
حادی تم جانتے ہو نا کے میرے بیٹے کے بزنس کو نقصان پہنچا تو اس سے میرے بزنس کو بھی نقصان پہنچے گا اور ساتھ ہی ماہ جبین بیگم کے بزنس کو بھی۔۔ ولید بشر بازو صوفے پر ٹکائے ماتھے کو مسل رہا تھا
جی میں جانتا ہوں۔۔ حادی سنجیدگی سے بولا
اس کے باوجود میرے بیٹے کے بزنس کو بھری عدالت میں اچھالا گیا ہے ایک بار تو میں برداشت کر سکتا ہوں لیکن۔۔ دوسری بار بالکل نہیں ۔۔
جی سر ۔۔
میں چاہتا ہوں کے دوسری سماعت میں میرے بیٹے کی پوزیشن ٹھیک ہو جائے اور تم بخوبی جانتے ہو کیسے کرو گے ۔۔ولید بشر آگے کو جھکا ۔
آپ لوگوں کو جو کرنا ہے کریں لیکن میں اپنی بدنامی کا بدلہ تو اس لڑکی سے لے کر رہوں گا۔۔ کیا نام ہے اس کا ۔۔المیر اپنی جگہ سے کھڑا ہوتے ہوئے اس کا نام سوچنے لگا
ہاں حورین ۔۔اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی مجھ سے مقابلہ کرنے کی۔۔ المیر بشر کی بات پر حادی نے غصے سے اپنی ہاتھوں کی مٹھیاں بنا لیں۔۔
ایسا سبق سکھاؤں گا اسے کہ سر اٹھا کر کورٹ تو کیا کبھی اپنے گھر سے بھی نہیں نکل۔۔۔ وہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر بول رہا تھا کہ تب ہی اس کا گریبان حادی کی گرفت میں آگیا
آئندہ اپنی زبان سے میری بیوی کا نام لیا تو ۔۔حلق میں ہاتھ ڈال کر زبان کھینچ لوں گا تمہاری۔۔پھر کسی کا بھی نام لینے کے قابل نہیں رہو گے ۔۔وحشت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر غرایا تھا ولید بشر اٹھ کر ان کے پاس آیا اور حادی کے کندھے پر ہاتھ رکھا حادی نے جھٹکے سے اسے پیچھے دھکا دیا اور لب پھینچ لیے المیر دم بخود ہو کر رہ گیا پھر جلدی سے اپنے کالر کو ٹھیک کرنے لگا۔
حادی اگر تم چاہتے ہو کہ ہم میں سے کسی کے بھی قدم تمہاری بیوی کی طرف نہ بڑھیں۔ تو تمہیں خود ہی اپنی بیوی کو لگام ڈالنی ہو گی اور اگر نہیں ڈال سکے تو انجام کے ذمہ دار تم یا تمہاری بیوی ہو گی ۔چلو بیٹا ہم چلیں حادی کو بہت سے کام کرنے ہیں۔۔ ولید تحمل سے کہتا ہوا المیر کو لے کر چلا گیا حادی اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور چلتا ہوا ٹیبل کے پاس آیا ہاتھ کی مٹھی پھینچ کر زور سے ٹیبل پر دے ماری۔
شام کا وقت ہو چکا تھا حورین کاندھے پر پرس ڈالے کہیں جانے لگی ڈرائنگ روم میں آتے عدیلہ نے اسے دیکھا
تم کہیں جا رہی ہو ؟۔
جی تھوڑا سا کام ہے جلدی آ جاؤں گی۔۔ حورین نے موبائل بیگ میں ڈالا
دھیان سے جانا ۔۔
جی اللہ حافظ ۔۔
حادی آفس سے جانے کے لئے کرسی سے اٹھا ٹیبل پر موجود موبائل کی رنگ ہوئی اٹھتے ہوئے موبائل پکڑا
ہیلو۔
ہاں حادی کہاں ہے؟۔۔حماد کی آواز آئی
آفس ہوں بس نکل رہا تھا۔۔ وہ آفس سے باہر آگیا
گھر جا رہا ہے؟۔۔ میں بھی آنے والا تھا۔
گھر نہیں ایک جگہ مجھے کام ہے وہاں سے ہو کر گھر آؤں گا۔۔ تم آجاؤ رات میں ملتا ہوں تم سے ۔۔لفٹ کے باہر کھڑا ہوا
چلو ٹھیک ہے اللہ حافظ ۔۔فون جیب میں ڈالا اور لفٹ میں داخل ہو گیا
دروازہ نوک ہوا ازلان نے دروازہ کھولا تو دروازے پر حادی کو دیکھ کر گھبرا گیا
آ۔آپ یہاں؟۔۔
میں اندر آ سکتا ہوں؟۔۔ پینٹ کوٹ میں ملبوس سنجیدہ نظر آ رہا تھا
ج۔ جی آئیے ۔۔ازلان دروازے سے ہٹ گیا
آپ کو مجھ سے کیا کام پڑ گیا؟۔۔ دونوں ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے تھے
میں آپ سے کہنے آیا ہوں کے آپ کل اپنا بیان بدل دیں ۔۔حادی سنجیدگی سے بولا
آپ جانتے ہیں۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟۔۔ ازلان حیران ہوا
جی میں جانتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کے آپ بھی جان لیں کہ جو بھی آپ کر رہے ہیں۔۔ اس میں آپ کو نقصان ہی نقصان ہے ۔۔
م۔میرا نقصان؟۔۔
جی اپنی کمپنی کے خلاف بولنے سے آپ whistle-blower بن جائیں گے آپ یہاں سے نکلنے کے بعد کہیں بھی کام نہیں کر سکیں گے۔۔ کیونکہ آپ کو کوئی لے گا ہی نہیں آپ کمانے کے لیے دربدر گھومتے پھریں گے ۔۔کیا آپ نے ایک بار بھی اپنے بچوں کا سوچا ہے؟۔۔ حادی نے ٹیبل پر بازو ٹکائے
ل۔لیکن۔۔ ازلان کے پسینے چھوٹ گئے حادی نے اپنی کوٹ سے ایک خاکی کاغذ نکالا اور اذلان کے سامنے رکھ دیا ازلان نے الجھ کر حادی کو دیکھا پھر لفافے کو کھولا اور اس میں اتنی رقم دیکھ کر ساکت رہ گیا
آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟۔۔
آپ کا بھلا کر رہا ہوں آپ کے کیس جیتنے کے چانسز بالکل نہیں ہیں ۔۔سب کچھ داؤ پر لگا کر بھی ہار جائیں گے اس لیے آپ کے پاس یہ آفر لے کر آیا ہوں اپنا اور اپنے بچوں کا سوچیں اور۔۔ جو مر گئے ہیں وہ واپس نہیں آئیں گے۔۔ حادی سیدھا ہو گیا
م۔مگر مزید لوگوں کو مرنے سے تو بچا سکتا ہوں ۔۔ازلان بیچارگی سے بولا
یہ آپ کی بھول ہے کے آپ کسی کو بچا سکتے ہیں آپ کے کیس سے ان پر رتی برابر بھی اثر نہیں پڑے گا۔۔ ان کو بچانے کے لیے میں ہوں اس لئے میرا نہیں خیال کسی کو نقصان اٹھانا چاہیے ۔۔اس نے کرسی سے ٹیک لگا لی ازلان نے افسردگی سے خاکی لفافہ دیکھا پھر کچھ سوچنے کے بعد لفافہ تھام لیا اتنے میں دروازہ کھلا جو ازلان بند کرنا بھول گیا ازلان ہکابکا سا کھڑا ہو گیا حادی نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں
میڈم آ۔آپ ۔۔ازلان نے بمشکل بولا حورین لب پھینچے سختی سے انہیں دیکھ رہی تھی پھر نظر ازلان کے ہاتھ میں پکڑے لفافے پر گئی
تم اتنے گر جاؤ گے حادی مجھے نہیں پتا تھا۔۔ پیسوں کے زوم پر لوگوں کو خرید لو گے ۔۔وہ چیخ کر بولی
حو۔حورین۔۔ حادی نے کچھ بولنا چاہا
اور آپ۔ مسٹر ازلان اتنے بکاؤ ہیں کے بازار میں پڑی کسی شے کی طرح۔۔ پیسے دیکھ کر بک گئے۔۔
آ۔آپ میری بات۔۔ ازلان کچھ بولتا کے حورین وہاں سے نکل گئی حادی نے پریشانی سے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا
ا۔اب میں کیا کروں ؟۔۔ازلان گھبراہٹ کا شکار ہو گیا۔
جو کہا ہے آپ وہی کریں۔۔ حادی کہتا ہوا باہر چلا گیا
اور شام رات میں ڈھل گئی حورین لان میں بیٹھی آسمان کو تک رہی تھی اور عینی اپنے فون میں مصروف تھی
عینی ایک بات پوچھوں؟۔۔ اس نے آسمان کو دیکھتے ہوئے پوچھا
سو پوچھیں۔۔عینی ویسے ہی موبائل میں مصروف رہی ۔
کیا اب بھی تمہاری دنیا مجھ پر رشک کرتی ہے؟ ۔۔عینی کی حرکت کرتی انگلیاں رک گئیں اور اس نے بےساختہ نظریں اٹھا کر حورین کو دیکھا جو آسمان میں کھوئی لگ رہی تھی عینی کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا وہ جو حادی کی محبت کے تعریفوں کے پل باندھا کرتی تھی آج اس کے پاس اس محبت کی تعریف کے لیے الفاظ نہیں رہے
اگر۔۔ اگر حادی بھائی بے قصور نکلے تو ؟۔۔عینی نے ہمت کر کے پوچھا
وہ کیا بے قصور ہوگا جو بے قصوروں کو بھی قصوروار بنا دے ۔۔حورین سیدھی ہوئی
آپ کو کبھی پچھتاوا تو نہیں ہوگا؟۔۔
میری طرف سے وہ مر بھی جائے تو بھی نہیں پچھتاؤں گی ۔۔تلخی سے بولی اور نجانے وہ کس دل کے ساتھ یہ بول گئی "کیا واقعی وہ اس کے مرنے پر بھی نہیں پچھتائے گی" پھر خود ہی اپنے خیال پر لعنت ملامت کر گئی
سوچ لیں بہت بڑی بات کہہ رہی ہیں آپ ۔۔عینی نے آبرو اٹھائیں
سوچ کر ہی کہہ رہی ہوں۔۔ بلکہ میں تو خود اسے قبر میں اتار دوں۔۔ وہ جل کر بولی
کیا کر رہی ہو حورین ۔۔ عدیلہ لان میں آئی
حادی بھیا کی قبر بنا کر فاتحہ پڑھنے کی تیاری کر رہی ہیں۔۔عینی کندھے اچکا کر بولی
بکو مت ۔۔عدیلہ غصے سے بولی
لو میں سچ بول رہی ہوں۔ ۔ عینی نے منہ بنایا
حور بیٹا کیوں اس بیچارے کی قبر کھودنے پر لگی ہو۔۔ عدلیہ کرسی پر بیٹھی
صرف قبر ہی نہیں ان کا بس چلے یہ تو انہیں قبر پر ہی ۔۔جہنم کی ٹکٹ پکڑا کر انہیں جہنم رسید کرا دیں۔۔ عینی نے پھر زبان چلائی اور عدیلہ کا ہاتھ اپنی جوتی پر گیا اور وہیں عینی نے اپنے لب سی لیے
ممی قبر کا تو پتا نہیں لیکن جو قیامت اس نے مجھ پر برپا کی تھی وہی قیامت اس پر بھی برپا کروں گی۔۔ اسے اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا ۔۔حورین غصے سے بولی
وہ اپنےاعمال کا جواب دہ صرف اللہ کو ہے حورین۔۔عدیلہ تحمل سے بولی
بے شک لیکن محبت میں کی گئی بے وفائی اور میرے یقین کو ہر بار پاؤں تلے روند دینے کا حساب وہ مجھے دے گا۔۔
کیا کرو گی تم ؟۔۔
قیامت لاؤں گی اس پر جس کے عذاب میں وہ جھلس کر رہ جائے گا اور دنیا دیکھے نہ دیکھے میں اسے دیکھ کر سکون محسوس کروں گی۔۔ وہ تلخی سے کہتی اٹھ کر چلی گئی
یہ۔یہ کیا کہہ کر گئی ہے؟۔۔ عدیلہ پریشان ہو گئی
بتا کر تو گئیں ہیں کے قیامت کھڑی کرنے والی ہیں۔۔ اور انہیں لگتا ہے ان کو سکون ملے گا لیکن بھول گئی ہیں۔ کہ اگر حادی بھیا جھلس کر رہ گئے تو راکھ یہ بھی ہو جائیں گی ۔۔ممی میں تو کہہ رہی ہوں قیامت آنے سے پہلے قیامت کو روک دیں۔۔
کیسی قیامت کیا بولتی جا رہی ہو؟۔۔ عدیلہ الجھ کر بولی
یاں تو وہ خودکشی کرلیں گی یاں حادی بھیا کی جان لے لیں گی ۔۔ویسے تو وہ یہ دونوں کام ایک ساتھ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں ۔۔عینی انگلیوں کو ٹھوڑی پر پھیرتے ہوئے سوچنے کی انداز میں بولی
عینی خدا کو مانو۔۔ کیوں میرے جلے دل کو اور جلا رہی ہو۔۔ عدیلہ نے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا
لو ممی یہاں لوگ جل رہے ہیں آپ کو دل کے جلنے کی پڑی ہے۔۔ عینی آنکھیں گول کرتی بولی
یہ گندی اولاد ہی تھی میرے نصیب میں۔۔ ایک قیامت کی باتیں کر رہی ہیں تو ایک جلنے جلانے کی۔۔ عدیلہ غصے سے پھٹتے ہوئے کہتی لان سے چلی گئی
مجھے تو کوئی سیریس ہی نہیں لیتا ۔۔جب آگ کی زد میں سب آکر جل گئے تو مجھ سے نہ کہنا۔۔ عینی بڑبڑاتی دوبارہ موبائل میں لگ گئی
تمہارے منہ پر بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں؟۔۔حماد نے حادی کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا
کچھ نہیں۔۔ حادی نے اپنی ٹاٹی ڈھیلی کی
مجھے تو بہت کچھ لگ رہا ہے۔۔ حماد نے آنکھیں سکیڑیں
میں ازلان سے ملا تھا۔۔ اور وہاں حورین آگئی ۔۔حادی کی بات پر حماد کی انکھیں یکدم کھلی گئیں
اور تم ازلان کے ساتھ کیا کر رہے تھے؟۔۔اس نے تجسس سے پوچھا
بیان بدلنے کے لیے پیسے دیے تھے۔۔اس نے ماتھے کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے بتایا
کیا؟۔۔ اور حورین نے تمہیں دیکھ لیا؟۔۔ حماد نے شاکڈ کے عالم میں پوچھا
ہاں۔۔
حادی تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟۔۔
میں نے کیا کر دیا ایسا؟۔۔ حادی لاپروائی سے بولا
تم نے کیا کر دیا ایسا؟۔۔تم مجھ سے پوچھ رہے ہو تم نے کیا کر دیا؟۔۔ حماد بے یقینی سے بولا
حماد میری بات سنو۔۔ حادی سیدھا ہوا
نہیں تم میری بات سنو حادی کس بات کی سزا دے رہے ہو تم اسے؟۔۔ تم سے اندھی محبت کی سزا یا تم پر اندھا اعتماد کرنے کی سزا؟۔۔ اس بار حماد چلایا تھا
سزا؟۔۔ حادی بے ساختہ بولا
ہاں کیونکہ شروع سے اب تک تم اسے ایسی ہی سزائیں تو دیتے آئے ہو تم اس کی نظروں میں گرے ہو یا نہیں لیکن وہ اپنی نظروں میں کئی بار گر چکی ہے تمہاری وجہ سے۔۔اور تم پوچھتے ہو تم نے کیا کیا؟۔۔ وہ جو تم پر اندھا یقین کر کے پوری دنیا سے جتا کر کہتی تھی حادی جیسا بھی وکیل ہو وہ ایک اچھا انسان ہے سب کا دل رکھتا ہے تم نے۔ تم نے اسی کا دل ریزہ ریزہ کر دیا؟۔۔اور اسے آج اس یقین پر پچھتانے کے لیے تم نے مجبور کر دیا حادی۔۔ حماد کے منہ سے نکلے ایک ایک لفظ نے حادی کی روح کو چھلنی کر دیا اور وہ بس حماد کو دیکھتا رہ گیا
میں نہیں جانتا حادی تم نے وہ جرم کیے ہیں یا نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں۔۔ کے تم نے محبت میں بے وفائی اور محبت کرنے والے کا دل توڑا ہے۔۔ اور اس سے بڑا کوئی جرم نہیں۔۔
صاحب جی کھانا لگ گیا ہے ۔۔ملازمہ نے اطلاع دی حادی نے چونک کر اسے دیکھا جو نقصان کی کسی وادی میں گم تھا
ہاں۔۔ تم بیٹھو میں آتا ہوں۔۔ وہ حماد کو کہتا صوفے سے اٹھ گیا
میں کھانا نہیں کھاؤں گا آپ میرا رہنے دیں۔۔ حماد بھی صوفے سے اٹھتے ہوئے بولا
بس صاحب جی کا لگا رہنے دوں؟۔ اس نے پوچھا
کسی کو بھی بھوک نہیں رہی اب۔ آپ اٹھا لیں کھانا ۔۔حماد ڈرائنگ روم سے چلا گیا
سماعت کا وقت تھا حورین ازلان کی طرف متوجہ تھی اور حادی اس پر نظریں جمائے بیٹھا تھا
م۔مجھے بعد میں پتا چلا کے وہ لوگ قدرتی موت ہی مرے ہیں ۔وہ کسی اور ہی بیماری میں مبتلا تھے۔۔ ازلان نے جھجکتے ہوئے بتایا
تو آپ کو یہ ساری معلومات لینے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا ؟۔مسٹر ازلان ۔۔حورین نے سرد لہجے میں پوچھا
جی۔ جی مجھے علم نہیں تھا مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ ازلان نے نظریں چرا لیں
آپ کا کہنا ہے کہ وہ ادویات بالکل ٹھیک ہیں فیکٹری یا المیر بشر کا کوئی قصور نہیں۔۔کسی بے قصور نے اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھویا؟۔۔ وہ ایسے ہی سرد نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
جی۔۔ اس نے نظریں جھکا دیں حورین گہری سانس لیتی ہوئی جج کی طرف مڑ گئی
یور آنر ۔۔میرا موکل کیس سے وڈرا کرنا چاہتا ہے ۔۔یہ وڈرا بغیر کسی سماعت کے بھی کر سکتے تھے لیکن شاید انہیں کمپنی اور المیر بشر کا نام خراب ہونے سے بچانا تھا۔۔
اور آپ کا کیا خیال ہے مس حورین۔۔جج نے عینک کے اوپر سے جھانکتے ہوئے پوچھا
میں اپنے موکل کے فیصلے کی قدر کرتی ہوں۔۔ حورین نے سر کو خم دیا حادی کے ماتھے پر بل پڑے تھے "حورین نے سچ کیوں نہیں بولا؟"
حادی میں تمہارے کام سے بہت امپریس ہوا ہوں۔۔ المیر بشر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا حادی نے سنجیدگی سے ایک نظر اس پر ڈالی اور اٹھ گیا کمرہ عدالت سے باہر آتے ہوئے اس کی نظر حورین اور ازلان پر پڑی ۔
مسٹر ازلان میں نے آپ کا کیس اس لیے لڑنا چاہا کیونکہ آپ سچے انسان تھے اور دوسروں کی مدد کرنا چاہتے تھے ۔۔حورین نرمی سے بات کر رہی تھی اور ازلان سر جھکائے اسے سن رہا تھا
لیکن جب معصوم انسان ایسا کام کرے تو۔ مجرموں میں سب سے بڑا مجرم وہی ہوتا ہے۔۔۔ اب شاید ہی میں کسی بے گناہ اور بے قصور کی مدد کا سوچوں گی کیونکہ آپ نے بتا دیا ہے کے کوئی بھی شخص ایک لمحہ نہیں لگاتا اپنی معصومیت کھونے میں۔۔ ازلان نے بےساختہ نظریں اٹھائیں جن میں ندامت اور شرمندگی کے علاوہ کچھ نہ تھا
م۔مجھے معاف کر دیں۔میں مجبور تھا۔۔ وہ بمشکل بولا
کوئی بھی مجبوری آپ کے اس گناہ کی وضاحت نہیں کر سکتی ۔۔حورین کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی حادی جو ان کی ساری باتیں سن رہا تھا وہ حورین کے پیچھے گیا
حورین! حادی کی آواز پر وہ ایک لمحہ کو رک گئی لیکن مڑی نہیں حادی اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور ماتھے پر بل لیے اسے گھوڑنے لگا
تم نے عدالت میں بتایا کیوں نہیں جو بھی تم نے دیکھا۔۔ آخر تم یہی چاہتی تھی نا کہ میں جیل کی اصلاحوں کے پیچھے اپنے گناہوں کی سزا کاٹوں تو کیوں نہیں بولی؟۔۔ اس کے پوچھنے پر حورین طنزیہ مسکرائی
بے شک میں تمہیں جیل کی اصلاحوں کے پیچھے دیکھنا چاہتی تھی لیکن ارادہ بدل دیا۔۔
کیوں؟۔ حادی نے بھویں اٹھائیں
کیونکہ مسٹر حادی تمہارے گناہوں کی سزا اتنی چھوٹی تو نہیں ہو سکتی اور تمہیں قانون کی کوئی بھی عدالت وہ سزا نہیں دے سکتی۔۔ جو حورین دے سکتی ہے ۔۔حورین نے لب پھینچ کر بولا
دیکھو حورین ۔میری۔۔ حادی نے اس کا بازو پکڑ کر کچھ بولنا چاہا کہ حورین نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پیچھے کر دیا
مجھے ہاتھ مت لگانا حادی تم نے مجھ میں اتنا زہر بھر دیا ہے کہ نیلی پڑ گئی ہوں میں۔۔ ہاتھ لگاؤ گے تو تم بھی نیلے پر جاؤ گے۔۔ وہ سختی سے ایک ایک لفظ چبا کر بولی غصے سے اس کی رگیں تنگ گئی تھیں حادی ساکت اسے دیکھتا رہ گیا
میں نے پچھتا لیا جتنا پچھتانا تھا اب پچھتانے کی باری تمہاری ہے ۔۔مسٹر عبدالحادی ۔۔حورین نے انگلی سے تنبیہ کرتے بولا
تمہیں ایسی سزا سنائی ہے میں نے کہ ساری زندگی اس کی لپیٹ میں جھلستے رہ جاؤ گے اور آج کے بعد مجھے اپنا چہرہ مت دکھانا ۔۔وہ اپنے لفظوں سے حادی پر انگارے برساتی چلی گئی اور حادی اس کے انگاروں کی تپش میں وہاں کھڑا جلتا رہا
حورین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی
تو برپا کر آئیں قیامت؟۔۔ عینی صوفے پر بیٹھی جیسے اسی کا انتظار کر رہی تھی
میں تو کر چکی ہوں پتا نہیں اس پر کب نازل ہوگی۔۔ حورین نے بیزاریت سے بولا
ابھی بھی وقت ہے حور آپی نازل ہونے سے پہلے ہی اسے روک ڈالیں ۔۔عینی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
اچھا تو کوئی ایک اچھی وجہ دو۔۔ جو مجھے روک سکے۔۔ حورین نے آبرو اٹھائی
ایک سولڈ ریزن تو ہے میرے پاس ۔۔عینی نے سوچنے کے انداز میں کہا ۔
اور وہ کیا؟۔
یہی کہ حادی بھیا کو کچھ ہوا تو جان سے آپ بھی جائیں گی۔۔ عینی کی بات پر حورین کچھ دیر کے لیے اسے دیکھتی رہی پھر ایک زخمی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری ۔
پیاری عینی!۔ جس میں جان ہی نا رہی ہو وہ کیا جان سے جائے گا ؟۔۔
تم آگئی حورین۔۔عدیلہ کچن سے نکلی
جی ممی۔۔ میں تھک گئی ہوں آرام کرنے جا رہی ہوں۔۔ وہ کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی
کھانا نہیں کھانا تھا اس نے؟۔۔عدلیہ نے پوچھا
ان کے حصے کا بھی مجھے دے دیں انہیں تو ہضم ہونے نہیں والا۔۔عینی دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی
وہ کیوں بھئی؟۔۔
جو دوسروں کی زندگی میں قیامت برپا کر دیں انہیں بھلا کیسے ہضم ہو سکتا ہے؟۔۔
تم کبھی اچھی بکواس نہ کرنا عینی ۔۔
بکواس بھی اچھی ہوتی ہے کیا؟۔۔عینی نے معصومانہ سوال کیا عدیلہ اپنا سر خود ہی پیٹتے واپس کچن میں چلی گئی۔
حادی کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں آیا تب ہی وہاں ملازمہ ہاتھ میں کچھ پکڑے آئی
یہ کیا ہے؟۔۔ حادی نے اس کے ہاتھ سے لفافہ پکڑتے پوچھا
پتا نہیں باہر کوئی آپ کا نام پوچھ کر دے گیا۔۔ ملازمہ بتا کر چلی گئی موبائل کی رنگ ہوئی حادی نے لفافہ ٹیبل پر رکھا اور موبائل اٹھا کر لان کی طرف چلا گیا کچھ دیر بعد کال سن کر وہ واپس آیا
صاحب جی کھانا لگ گیا ہے ۔۔ملازمہ نے اطلاع دی
میں آتا ہوں ۔۔حادی کی نظر لفافے پر پڑی بازوؤں کے کف اوپر کر کے اسے پکر کر کھولا جس میں سے ایک کاغذ نکلا اور اسے دیکھ حادی کسی مٹی کا مجسمہ بن گیا جسے انگلی لگاؤ تو وہ زمین بوس ہو جائے وہ ڈائیورس کے پیپرز تھے اس میں سے ایک چھوٹی پرچی نکل کر ٹیبل پر گری حادی نے جلدی سے جھک کر وہ پرچی اٹھائی اور کھولی
"مجھے اپنے نام سے آزاد کر دو جہاں پہلے مجھے تمہارے نام کے ساتھ سکون میسر تھا آج مجھے گھٹن ہوتی ہے اور میں ساری زندگی تمہارے نام کے ساتھ گھٹ گھٹ کر نہیں جی سکتی اور اگر تم نے مجھے آزاد نہ کیا تو میں خود کشی کر لوں گی۔۔ کیونکہ مجھے مرنا تو منظور ہے لیکن تمہارے نام کے ساتھ جینا منظور نہیں اور اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں تو جب میرا جسم قبر میں اتارو گے تو یقین آجائے گا "
حادی جو حورین کی جان بچانے کے لیے نجانے کیا کچھ کر گیا تھا اسی کے منہ سے اپنی جان لینے کا سن کر حادی کے ہاتھ بے ساختہ پیپر پر چل پڑے اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی موت کے پرچے پر مہر لگا دی ۔۔حادی کو جب ہوش آیا تو اس نے اپنا سر پکڑ لیا سانس لینے میں دشواری ہونے لگی وہ زمین پر بے ساختہ گر جانے کے انداز میں بیٹھ گیا جیسے اسے واقعی آسمان سے زمین پر گرا دیا گیا ہو۔۔ اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور سینے کو دوسرے ہاتھ سے مسلنے لگ گیا اسے سانس نہیں آ رہا تھا اور دھڑکنیں مدھم پڑ رہی تھیں وہ تیز تیز سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بے سود۔۔ بالکل ایسا ہی ہوا تھا کہ اس کی سانسیں آنے جانے کا راستہ بھٹک گئیں اور دل نے دھڑکنے سے انکار کر دیا۔۔ وہ ٹانگوں میں سردیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیسے کسی بچے کا کھلونا اس سے بے دردی سے چھین لیا جائے تو وہ رونا شروع ہو جاتا ہے بالکل ایسے ہی۔۔ حورین اس کے نام اس کی زندگی اور اس کے گھر کو ہمیشہ کے لیے بے رنگ چھوڑ کر چلی گئی۔۔ وہ اب کہیں نہیں تھی ۔۔کہیں بھی نہیں۔
تم ۔تم بہت ظالم ہو حورین ۔تم نے مجھ پر۔ رحم نہیں کیا۔۔ سسکتے ہوئے بامشکل بولا اور سر دونوں ہاتھوں میں دے دیا
حادی پہلی بار اپنے ماں باپ کے مرنے پر رویا تھا
"کل تک جو عشق کے نام کی جبا کرتا تھا تسبیحیاں"
اور آج وہ دوسری بار رویا ہے
"آج عشق میں ہوا پھرتا ہے برباد دیکھ لو"
کیونکہ آج وہ پھر سے یتیم ہو گیا تھا
حورین عبدالحادی پھر سے حورین اور حادی ہو گئے۔
رات گہری ہو چکی تھی ملازمہ نے ڈائننگ ٹیبل پر لگے کھانے کو دیکھا وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے وہ رکھ کر گئی تھی وہ ڈرائنگ روم میں آئی تو وہاں کوئی نہ تھا پھر پریشانی سے حادی کے کمرے کی طرف بڑھی کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا اس نے جھجکتے ہوئے دروازہ کھولا اور اندر کا منظر دیکھ کر اس کا منہ اور آنکھیں دونوں کھلی رہ گئیں
صاحب جی۔۔ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے بے ساختہ بولی ڈریسنگ پر رکھی ساری پرفیومز زمین پر ٹوٹ کر ڈھیر ہو چکی تھیں جس کی خوشبو پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی اور ٹیبل پر پڑی چیزیں بھی زمین بوس ہو چکی تھیں بستر کے تکیے اور چادر سب کو بری طرح سے اکھاڑ دیا گیا تھا اور حادی زمین پر بستر سے ٹیک لگائے ٹانگ پر بازو ٹکائے ہوئے تھا
جاؤ یہاں سے۔۔ وہ بھاری آواز میں بولا
م۔مگر۔۔
کہا نا دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔۔وہ پوری قوت سے چلایا جس کے باعث ملازمہ نے سہم کر دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ دیے اور ڈرتی ہوئی باہر چلی گئی اور وہ وہیں بیٹھا رہ گیا
صبح کے وقت تند و تیز دھوپ نے ہر شے کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا حماد کورٹ میں آفس شدہ کمرے سے باہر نکلے حادی کو کال ملا رہا تھا جو صبح سے آفس نہیں آیا تھا تو حماد اسے دیکھنے یہاں آگیا لیکن وہ یہاں بھی نہیں تھا یونہی چلتے ہوئے اس کی نظر حورین پر پڑی حورین نے مسکرا کر حماد کی طرف ہاتھ ہلایا
ہائے فرینڈ!۔ کیسے ہو؟۔۔ وہ بڑے جوش سے بولی جیسے وہ اس کی بتائی سب باتیں بھول چکی ہو
میں ٹھیک ہوں تمہیں کیا ہوا ہے؟۔۔ حماد نے آنکھیں گول کر کے پوچھا
مجھے کیا ہونا ہے ۔میں تو بہت اچھی ہوں۔۔ وہ ہاتھوں سے بالوں کو پیچھے کیے بولی دونوں چلتے ہوئے پارکنگ ایریا میں آگئے
تو پھر یہ ماتم کس چیز کا ہے؟۔۔ حماد نے بھویں اٹھائیں
کون سا ماتم؟۔۔ حورین نے اسے گھوڑی ڈالی
میرا مطلب تم اتنی خوش کیوں ہو ؟۔۔حماد اس کی نظروں سے بچتے ہوئے بولا
آزاد ہو گئی ہوں میں ۔۔
تم قید کب تھی؟۔۔ حماد حیران ہوا
قید تھی حادی کے نام کے ساتھ مگر اب آزاد ہو گئی ہوں۔۔ خلا لے چکی ہوں۔۔
اور حادی نے طلاق دے دی؟۔۔ وہ شاکڈ کے عالم میں بولا
ہاں دے دی۔۔ حورین نے گہری سانس بھری
وہ اتنا پاگل تو نہیں ہے کہ اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لے۔۔ کیا کہہ کر سائن کروائے تم نے؟۔۔ حماد کے لہجے میں بے یقینی حیرت صدمہ اور نجانے کیا تھا
میں نے کہا تھا اگر مجھے آزاد نہ کیا تو میں خودکشی کر لوں گی۔۔حورین زمین پر نظر جمائے بولی
" اور تم نے واقعی خودکشی کر لی حورین " وہ بس دل میں ہی بول سکا اس نے غور سے حورین کے چہرے کو دیکھا اور دیکھتے ہی جیسے اس کا دل کسی نے جکڑ لیا تھا
میں دعا کروں گا کہ جو ستم تم خود پر کر چکی ہو۔ اس پر تمہیں کبھی پچھتانا نہ پڑے۔۔ حورین نے بے ساختہ سر اٹھا کر حماد کو دیکھا
میں چلتا ہوں ۔۔وہ گہری سانس لئے مڑ گیا اور حورین الجھ کر اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
ماہ جبین لاؤنج میں بیٹھی چائے پی رہی تھی حماد کو لاؤنج میں آتا دیکھا وہ پریشان نظر آرہا رہا تھا
کیا ہوا حماد بیٹا؟۔۔
کچھ نہیں۔۔
کچھ تو ہوا ہے تم پریشان کیوں ہو؟۔۔ ماہ جبین نے کپ ٹیبل پر رکھا
پریشانیوں کو ایک میں ہی تو میسر ہوں۔۔وہ اپنے لب کاٹتے ہوئے بولا
میرے بچے مجھے بتاؤ تو صحیح ہم مل کر حل نکال لیں گے ۔۔ اس نے پیار بھرے لہجے میں کہا
ان کا کوئی حل نہیں ممی۔۔ یہ لاعلاج مرض ہیں جو مجھ پر لاحق ہوئے ہیں اور ایک دن ان میں سسکتے سسکتے مر جاؤں گا ۔۔وہ کرب سے چیخا تھا
حماد یہ کیسی باتیں کر رہے ہو ۔۔تم مجھے بتاؤ گے کیا ہوا ہے؟۔۔ ماہ جبین پریشان ہوئی
حورین نے خود کشی کر لی ہے ممی۔۔ وہ روندھی آواز میں بولا
کیا؟۔۔ماہ جبین کو سن کر دھچکا لگا
اس نے حادی سے طلاق لے لی ہے۔۔
اس نے خود کشی کر لی ہے اور حادی سے طلاق لے لی ہے کیا کہہ رہے ہوتم مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔
وہ مری نہیں تھی لیکن اس کا شمار زندوں میں بھی نہ تھا ۔۔کوئی۔کوئی فرشتہ نہیں اترا تھا لیکن۔۔ پھر بھی اس کی روح قبض ہو گئی تھی وہ بس ایک لاش تھی۔ زندہ لاش۔۔ وہ رویا نہیں تھا لیکن آنکھیں سرخ پر چکی تھیں
حماد بچے۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تم کیا بولی جا رہے ہو۔۔ماہ جبین الجھ کر بولی
وہ اپنے ہونے کا احساس دلا رہی تھی۔۔ چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ وہ زندہ ہے حورین حادی کے بغیر بھی زندہ ہے ۔۔وہ بتا رہی تھی اسے کچھ نہیں ہوا وہ اپنے وجود کا یقین دلا رہی تھی۔۔ ماہ جبین اسے غور سے دیکھنے لگی
اور تب۔اور تب مجھ پر یہ ثابت ہو گیا ممی۔۔ کہ حادی کے بغیر کوئی حورین نہیں ہو سکتی اور اگر ہو سکتی ہے تو وہ زندہ تو بالکل نہیں ہو سکتی۔۔ اسے یہ جان لینے پر خوش ہونا چاہیے تھا یا رونا چاہیے تھا اسے معلوم نہیں لیکن اس کے اندر کچھ چھن سے ٹوٹ گیا تھا۔
حماد تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ وہ دونوں الگ ہو گئے ہیں۔ حورین تمہیں آسانی سے مل سکتی ہے۔۔ ماہ جبین اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولی
ممی آپ نے کب سے مجھے دوسروں کے ماتم پر خوش ہونے والا حماد سمجھ لیا؟۔۔اس کی آنکھوں میں ناگواری آئی
اور وہ جو پہلی محبت میں اپنا سب کچھ ہار چکی ہو یہاں تک کہ اپنی جان بھی اس کے پاس کیا بچے گا دوسری محبت میں لٹانے کے لیے؟۔۔ یقین کرنا تو دور کی بات وہ تو دوسری محبت کا گمان بھی نہیں کرے گی۔۔ حماد نے پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔ مجھے تو حادی کی کل سے کوئی خبر نہیں پتا نہیں وہ اس قیامت کی زد میں آکر کس طرح زندہ ہوگا ۔میں اس کے پاس جا رہا ہوں۔۔ وہ جیب سے موبائل نکالتا اندر چلے گیا اور ماہ جبین اسے بے یقینی سے دیکھتی رہی
یہ آخر کرنا کیا چاہتا ہے مجھے تو اس کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔۔ وہ جھنجھلا کر بولی
سات ماہ پہلے:
عینی یونیورسٹی میں گھاس پر بیٹھی کتابوں کے مطالعہ میں مصروف تھی تب ہی وہاں نور آگئی
کیسی ہوں عینی۔۔ آج تھوڑی دیر ہو گئی بہت ٹریفک تھا۔۔ وہ اپنا بیگ زمین پر رکھے اس کے ساتھ بیٹھ گئی
ٹھیک ہوں۔۔ وہ کتابوں میں ہی کھوئی ہوئی تھی
اتنا پھیکا جواب۔۔ نور نے اس کے ہاتھوں سے کتاب لے لی
نہ تنگ کرو نور مجھے پڑھنے دو ۔۔عینی بیزاری کے ساتھ بولی
یونیورسٹی کے پہلے ہی ہفتے تم پڑھائی کے لیے اتنا نہال ہو رہی ہو ۔کیا ہوا ہے تمہیں؟۔ نور کتاب اپنی کمر کے پیچھے لے گئی اور عینی کو غور سے دیکھنے لگی
کچھ نہیں ہوا۔۔۔ عینی نے ہاتھ بڑھا کر اس کے پیچھے سے کتاب کھینچ لی
کچھ تو ہوا ہے مجھے نہیں بتاؤ گی کیا ہوا ہے؟۔۔ عینی نے گہری سانس بھری
عشق ہوا ہے۔۔ (وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جنہیں اپنے احساسات کا بدلنے میں بہت دیر سے پتا چلتا ہے یا وہ کسی کے لیے اتنا کیوں بدل گئی جاننے میں دیر لگے)
کیوں؟۔۔ نور کا عجیب سا سوال
کوئی اس دل کمبخت سے پوچھے کیوں۔۔
مطلب سچی مچی ؟۔۔نہیں مطلب تم سچ کہہ رہی ہو؟۔۔۔وہ جو پہلے مذاق سمجھی تھی اسے حیرت کا دھچکا لگا
تمہیں میری شکل پر اس وقت کوئی بھی مذاق کے تاثرات نظر آرہے ہیں؟۔۔ عینی نے سنجیدگی سے انگلی کو اپنے چہرے کے ارد گرد گھمایا
کون ہے وہ نصیب کا مارا؟۔۔
نام بتا کر بدنام نہیں کر سکتی اور نصیب کا مارا کیوں؟۔بس محبت ہوئی ہے اس کے نصیب پر میرے نام کی مہر تو نہیں لگا دی گئی۔۔عینی اسے گھورتے ہوئے بولی
اچھا چلو یہی بتا دو کب شروع ہوا اور مجھے پتا بھی نہیں۔۔ نور اسے چھیڑنے کی تیاری میں لگ گئی
میرا دماغ نہیں کھاؤ نور مجھے تو بلکہ تمہیں فرصت میں قتل کر دینا چاہیے تھا۔ نہ تمہاری دوستی میں دیوانہ مجنوں بنی تمہارے گھر آتی نہ مجھ پر یہ جان لیوا بیماری لاحق ہوتی۔۔ عینی کی تیز بولتی زبان نے نور کے منہ کو تالا لگا دیا لیکن اس نے پھر حیرت سے عینی کو دیکھا
تم۔ تم حماد بھائی کی بات کر رہی ہو؟۔۔ عینی خاموش رہی
ویسے ہیں تو بہت پیارے کیا ہیرا تلاش کیا ہے تمہاری آنکھوں نے۔ تم دونوں کی جوڑی بہت ہی۔۔ وہ پھر شروع ہوئی کہ عینی کی قاتلانہ نظروں نے اس کی زبان بند کر دی
وہ۔ وہ کلاس شروع ہو گئی چلو چلتے ہیں۔۔ نور بیگ پکڑے وہ گئی۔
شام کا وقت تھا حورین ڈریسنگ کے سامنے کھڑی سیدھے گھنے بالوں میں برش کر رہی تھی دروازہ کھلا اور حادی اندر آیا اس نے کوئی چیز حورین کے سامنے کی اور جب نظر حورین پر پڑیں تو وہیں رک گیا وہ سیاہ ساری میں ملبوس کیا قیامت ڈھا رہی تھی حادی کی اس سے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا اور حورین اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی
یہ کیا ہے؟۔۔ حورین نے اس کے ہاتھ میں موجود چیز کو دیکھ کر پوچھا
وہ۔ یہ پرفیوم لایا ہوں تمہارے لیے۔۔ حادی بمشکل اس کے خوبصورت حصار سے نکلا حورین نے اس کے ہاتھ سے باکس پکڑا اور کھولنے لگی اس میں سے پنک کرسٹل نما خوبصورت پرفیوم نکلا حورین نے مسکرا کر حادی کو دیکھا پھر کھول کر اپنی کلائی پر پرفیوم کیا اور آنکھیں بند کر کے اس کی خوشبو کا خمار خود میں اتارنے لگی اس کے بال سرک کر کندھے پر آگئے اس کا ہر انداز حادی کو قاتلانہ لگ رہا تھا
بہت اچھی خوشبو ہے اس کی ویسے یہ تحفہ کس خوشی میں؟۔ میرے پاس تو بہت پرفیومز ہیں۔ حورین نے آبرو اٹھائی
وہ میں جب بھی پارٹیز میں جاتا ہوں نا تو وہاں موجود لڑکیوں سے بہت اچھی خوشبو آتی ہے تو میں نے سوچا تمہارے لیے بھی اچھی خوشبو والا پرفیوم لے جاؤں۔۔حادی نے تفصیل بتائی تھی جس پر حورین کی آنکھیں سکڑ گئیں اور ناک پھول گئی
تم وہاں لڑکیوں کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے ہو؟۔۔
ہاں۔۔حادی نے کندھے اچکا دیے وہ بلیک ٹی شرٹ اور سفید پینٹ کوٹ میں ہو بہو شہزادہ لگ رہا تھا
تو آج بھی انہی کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے رہتے مجھے دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔ وہ جل کر بولی
کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اب سے مجھے تمہاری خوشبو کے علاوہ کسی کی خوشبو نہ آئے ۔۔حادی مسکراہٹ بھرے لب دبائے بولا اور حورین کا غصہ سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اس نے کس ادا سے اپنے بال کندھے سے پیچھے کیے
شکر ہے تم نے خود ہی بول دیا ورنہ تم پارٹی میں بغیر ناک کے کتنے برے لگتے۔۔ اس کی بات پر حادی نے بے ساختہ اپنی ناک کو پکڑا اور آنکھیں پھاڑ کر حورین کو دیکھا
چلو دیر ہو رہی ہے۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کو ملتے ہوئے کمرے سے چلی گئی
ظالم حسینہ۔۔۔وہ جھنجھلا کر کہتا اس کے پیچھے چل پڑا
عالیشان حال روشنیوں سے جگمگ کر رہا تھا وہاں موجود اونچے ٹیبل سفید چادروں سے ڈھکے تھے سب پر پھولوں کا شاندار واز تھا حورین اور حادی جب حال میں داخل ہوئے تو ان کا استقبال خود جسٹس عالم نے کیا
عبدالحادی میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا مجھے خوشی ہوئی تم آئے ۔۔وہ خوش دلی سے ملتے ہوئے بولے
معذرت مجھے تھوڑی دیر ہو گئی سر۔۔
تم جانتے ہو نا تم میرے خاص مہمان ہو۔۔ انہوں نے حادی کے کندھے کو تھپکا اور ساتھ کھڑی حورین ان کا پیار دیکھ کر حیران ہو رہی تھی
اوہ۔ یہ تمہاری وائف ہیں؟۔۔عالم نے حورین کو دیکھا
جی یہ میری وائف حورین عبدالحادی۔۔۔حادی نے حورین کا تعارف کروایا
تم دونوں کی جوڑی خوب جچ رہی ہے۔۔
شکریہ۔۔حادی نے سر کو خم دیا حورین ان کی تعریف پر کھل کر مسکرا دی
تو مِس حورین آپ کے بارے میں بہت سنا ہے حادی سے امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے کام سے ہمیں بھی متاثر کریں گی۔۔۔
جی سر۔۔ میں ضرور کروں گی۔۔ وہ گردن اکڑائے بولی جس پر عالم ہنس دیا
وہ دونوں ایک ٹیبل پر موجود تھے حادی کولڈ ڈرنک پینے میں مصروف تھا اوو حورین ارد گرد نظریں گھما کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی
حادی تم بھی آئے ہو؟۔۔ حادی نے نظریں اٹھائیں تو دو خوبصورت لڑکیاں تھیں جو اسے دیکھ بہت خوش نظر آرہی تھیں حورین نے انہیں ایک نظر سر تا پاؤں دیکھا
کیسے ہو تم؟۔۔تم نے تو نظر آنا ہی چھوڑ دیا۔۔ حادی پینٹ کی جیب میں دونوں ہاتھ ڈالے ان کی طرف رخ کر گیا
میں بالکل ٹھیک ہوں۔بس تھوڑا مصروف ہوتا ہوں تو اس لیے۔۔
ہاں ہم جانتے ہیں تم کتنے مصروف ہو ہمیں جیسے ہی جسٹس عالم کی پارٹی کی اطلاع ملی تو ہم فوراً چلے آئے کیونکہ تم کبھی یہاں آنے سے منع نہیں کرتے۔۔ حورین کی آنکھیں سکڑ گئیں
تم کبھی آؤ ڈنر پر ہم سے بیٹھ کر باتیں ہی کر لینا تھوڑی۔۔
میں تھوڑا مصروف ہوتا ہوں ڈنر کے لیے وقت نکالنا مشکل۔۔
ارے حادی! اتنے پیار سے بلا رہی ہیں تو منع کیوں کر رہے ہو؟۔۔ حورین حادی کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھے فوراً بولی
یہ کون ہے حادی؟۔ وہ دونوں حورین کی حرکت پر حیران ہوئیں
تم نے انہیں میرا تعارف نہیں کروایا ابھی تک؟۔۔ حورین گول آنکھیں لیے حادی کو گھور رہی تھی حادی نے اس کی معصومانہ حرکت پر اپنے مسکراتے لب دبا دیے
جی۔یہ میری وائف ہیں مسز حورین عبدالحادی اور حورین یہ دونوں جسٹس عالم کی ریلیٹوز ہیں ان کا نام عائشہ (وہ گلابی جوڑے سیدھے گھنے بالوں میں پیاری لگ رہی تھی) اور یہ ملیحہ ہیں (وہ سبز فراک پہنے اور پونی ٹیل کیے بھوری آنکھوں والی شہزادی لگ رہی تھی)
آپ لوگوں سے مل کر اچھا لگا۔۔حورین بھویں اٹھا کر بولی
ج۔جی۔ہمیں بھی۔۔ ان کی تو جیسے دنیا ہی ہل گئی تھی
ہم ابھی آتے ہیں۔۔ عائشہ ملیحہ کو پکڑتے کہہ کر وہ گئی
حادی نے گلا کھنکارا تو حورین نے فوراً اس کے بازو سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور اسے ایک گھوری سے نواز کر ٹیبل کے پاس چلی گئی
مجھے پتا نہیں تھا تم جیلس بھی ہوتی ہو۔۔ وہ ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے بولا
کون جیلس ہوا اور کب ہوا؟۔۔ حورین نے آنکھیں سکیڑتے پوچھا
میں۔میں ہوا تھا۔بس ابھی ہوا تھا۔۔ حادی نے اس کی نظروں سے بچتے ہوئے کہا
انہیں تو میرا احسان ماننا چاہیے میں نے انہیں تم سے بچا لیا کیونکہ تم کسی کے بس کی بات نہیں ہو۔۔ حورین نے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کیا د
یہ تو سچ ہے میں کسی کے بس کی بات نہیں ہوں۔سوائے تمہارے۔۔ حادی کندھے اچکا کر بولا جس پر حورین اپنے مسکراہٹ میں ڈھلتے ہوئے ہونٹوں کو دبا گئی
دوپہر کے وقت حورین سفید کرتا اور پجامہ میں ملبوس اور سفید دوپٹہ گلے کے گرد باندھے ایک کمرے میں داخل ہوئی
حورین تم یہاں؟۔۔کرسی پر بیٹھے شخص نے حورین کو دیکھا
جی آپ کے پاس وقت نہیں تھا مجھ سے ملنے کے لیے ۔۔تو میں نے سوچا میں ہی آپ سے مل لوں۔۔ وہ اس کے بالکل سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھ گئی
نہیں بس مصروفیات ہی ایسی تھیں۔۔ وہ کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
جی مجھے معلوم ہے تب ہی آپ میرے کیس کی تاریخ نہیں دے پا رہے ہیں اتنی دیر سے۔۔
حورین تم جانتی ہو ایک دن میں کتنے کیسز دیکھنے ہوتے ہیں۔جج بننا اتنا آسان تھوڑی ہے۔۔
جانتی ہوں اس لیے میں خود یہاں آئی ہوں تاکہ آپ مجھے تاریخ دے سکیں۔۔ وہ اسی طرح ٹانگ پہ ٹنگ جمائے نرمی سے بولی
اچھا تو کون سے کیس کی تاریخ چاہیے؟۔۔میں کوشش کرتا ہوں۔۔وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
عریشہ نوریز۔۔
امم۔ میں کوشش کروں گا کہ اگلے مہینے کی کوئی تاریخ دے دوں۔لیکن وعدہ نہیں کر سکتا ۔۔
نہیں مجھے اسی مہینے کی بلکہ اسی ہفتے کی تاریخ چاہیے۔۔اب کی بار حورین کا لہجہ سخت تھا
حورین تم ان معاملات کی نزاکت کو بخوبی سمجھتی ہو۔۔اس لیے اس مہینے تو ناممکن ہے۔۔ وہ اپنی بات پر قائم تھا
اب ممکن ہو جائے گا ۔۔حورین نے سامنے رکھی فائل پکڑی اور وجاہت کے سامنے کر دی وجاہت نے آگے جھک کر فائل پکڑی اور کھول کر دیکھنے لگا اور دیکھتے دیکھتے اس کے تاثرات بدل گئے وہ جلدی جلدی کاغذ پلٹ رہا تھا اور پھر حورین کو دیکھا اس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا
یہ سب کیا ہے؟۔۔وہ چلایا
آپ کے نامہ اعمال ۔۔مجھے اس ہفتے کی تاریخ چاہیے ورنہ اتوار کے دن پورے 12 بجے یہ سب نیوز کی ہیڈ لائنز کا مرکز بنے ہوں گے۔۔ وہ سیدھا ہوتے ہوئے تلخی سے بولی
تم ۔۔تم مجھے دھمکا رہی ہو۔ تمہاری اتنی ہمت۔۔ اس نے طیش میں آکر فائلز پر لگے اپنے اعمال ناموں کو جڑ سے اکھاڑ دیا تھا
اگر آپ کو اور بھی چاہیے اپنا غصہ نکالنے کے لیے تو میرے پاس بہت ہیں بے فکر ہو کر مانگ لیجئے گا میں چلتی ہوں ۔کیس کی تیاری بھی کرنی ہے ۔۔تیکھی مسکراہٹ لیے اٹھ گئی اور وہ وہاں بیٹھا آتش فشاں بن چکا تھا جو بس ابھی پھٹ جائے
شام کے وقت حماد ریسٹورنٹ میں موجود کسی کو ڈھونڈ رہا تھا تب ہی نظر ایک لڑکی پر رکی وہ ہاتھ ہلائے حماد کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی حماد گہری سانس بڑھتا اس کے پاس گیا اور کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا
تو آپ رباب ہیں؟۔۔
جی اور آپ حماد ہیں۔۔وہ سفید رنگ کی لڑکی سرخ فراک میں بہت دلکش لگ رہی تھی
آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟۔مطلب ہم کبھی ملے نہیں ۔۔
جی ممی نے آپ کی تصویریں دکھائی تھیں مجھے۔ ویسے آپ جانتے تو ہوں گے کہ ہم کیوں ملے ہیں۔۔ وہ گہری مسکراہٹ اور چمکتی آنکھیں لیے بولی
جی آپ میری ممی کی بہترین دوست کی بیٹی ہیں اور ممی نے مجھے آپ سے ملنے بھیجا ہے۔۔
بس اتنا ہی جانتے ہیں آپ ؟۔۔ مجھے تو آپ کے بارے میں بہت کچھ پتا ہے۔۔ وہ آبرو اٹھائے بولی
ہمم۔۔ کیوں نا ہم ڈنر کر لیں جس کے لیے آئے ہیں ۔۔حماد ویٹر کو بلانے لگا
نہیں ہم یہاں سے ڈنر نہیں کریں گے مجھے ایک ریسٹورنٹ بہت پسند ہے اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو ہم وہاں چلیں؟؟۔۔ رباب آنکھیں جھپکتی ہوئی بولی
جی ضرور۔۔ حماد اٹھ کھڑا ہوا (اسے بس ڈنر سے مطلب تھا جہاں مرضی کر لیں اور جلدی واپس جائے)
حماد کار ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا اور رباب فرنٹ سیٹ پر بیٹھی باہر کا نظارہ دیکھ رہی تھی خاموشی کا تسلسل قائم تھا کہ حماد کے فون کی رنگ ہوئی
ہاں حادی کیسا ہے؟۔۔
میں ٹھیک ہوں تم کدھر ہو؟۔۔حادی کی آواز آئی
باہر نکلا ہوا ہوں کوئی کام ہے تمہیں؟۔۔ حماد سامنے دیکھ کر کار ڈرائیو کر رہا تھا
پھوپھو نے حورین اور مجھے رات کے کھانے پر بلایا ہے لیکن ہم سے زیادہ تم سے انہیں محبت ہے۔ تمہیں بلا رہی ہیں۔۔حادی چڑ کر بولا
تم ان کی بیٹی کا پیار لے رہے ہو نا تو ان کا پیار مجھے لینے دو جلو مت۔۔۔حماد کے چہرے پر مسکراہٹ آئی رباب نے اسے غور سے دیکھا وہ جب سے اس سے ملا تھا پہلی بار مسکرایا تھا اور کتنا پیارا لگا وہ اسے مسکراتے ہوئے
اچھا بس کربتا کب تک آرہا ہے۔۔
میں راستے میں ہوں بس سمجھ آگیا ۔۔حماد تو جیسے رباب کو بھول ہی بیٹھا تھا فون بند کر کے رباب کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی
وہ۔دوست کی ممی نے مجھے ڈنر پر انوائٹ کیا ہے تمہیں برا نہ لگے تو ڈنر ہم وہیں کرلیں؟۔۔
مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوگی۔۔رباب خوشی سے بولی
عینی ٹیبل پر عدیلہ کے ساتھ جلدی جلدی کھانا لگا رہی تھی
خیریت ہے عینی تمہیں بخار وخار تو نہیں چڑھ گیا ؟۔۔حورین اسے یوں کام کرتا دیکھ حیران ہوئی تھی
بالکل نہیں۔۔ عینی اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولی
حادی بیٹا حماد کو آنے کا کہہ دیا تم نے؟۔۔ حادی کو لان سے آتا دیکھ عدیلہ نے پوچھا
جی پھوپھو میں تو کب کا کہہ چکا ہوں۔۔ حورین کے ساتھ والی کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی
میں دیکھ کر آتی ہوں۔۔ عینی پھرتی سے بھاگی
ارے گارڈ دیکھ لے گا۔۔عدیلہ بول رہی تھی مگر وہ کسی راکٹ کی رفتار سے وہ بھاگی حماد دروازے سے داخل ہوا
السلام علیکم۔۔عینی خوشی سے بولی
وعلیکم السلام کیسی ہو عینی؟۔۔حماد نے اسے دیکھ پیار سے پوچھا
میں بالکل ٹھ۔۔ بولتے ہوئے عینی کی نظر اندر آتی لڑکی پر پڑی اور زبان وہیں رک گئی
رباب یہ میری دوست حورین کی چھوٹی بہن عینی ہے اور عینی یہ میری ممی کی دوست کی بیٹی رباب ہیں۔۔ حماد نے ان کا تعارف کروایا عینی کی بتیسی بالکل غائب ہو چکی تھی
کیسی ہو لٹل ڈول ؟۔۔ رباب نے اسے دیکھ کر گرم جوشی سے پوچھا
ٹھیک ہوں۔۔ عینی اس کے لٹل ڈول کہنے پر جل کر رہ گئی
اندر آجائیں۔۔وہ منہ بسورتی کہہ کر اندر آگئی کھانا کھانے کے بعد چائے پیش کی گئی عینی اور حورین لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جبکہ رباب حادی اور حماد عدیلہ کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے
تمہیں کیا ہوا منہ پر بارہ کیوں بجے ہیں؟۔۔حورین نے عینی کی بوسی شکل دیکھ کر پوچھا
شکل ہی ایسی ہے ۔۔عینی منہ ٹیڑھا میڑھا کر کے بولی
یہ بھی بھلا کوئی بتانے والی بات ہے؟۔۔ حورین نے کندھے اچکا دیے
کیا ہو رہا ہے یہاں؟۔۔حماد کی آواز پر دونوں متوجہ ہوئیں لیکن عینی پھر منہ موڑ کر بیٹھ گئی
کچھ نہیں ہو رہا بلکہ تم بتاؤ کیا ہو رہا ہے؟۔۔ حورین نے دانت نکالتے ہوئے ڈرائنگ روم میں بیٹھی رباب کی طرف اشارہ کیا
ارے کچھ بھی نہیں ہو رہا بتایا تو ہے کہ وہ کون ہے۔۔۔حماد ان کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا
وہ تو پتا چل گیا ہے کون ہے۔۔لیکن یہ نہیں پتا چلا تمہارے ساتھ کیوں ہے۔۔ حورین نے تجسس سے پوچھا عینی بھی اب حماد کو دیکھنے لگی
ممی چاہتی تھیں میں لڑکی سے ملو اور اس کے ساتھ ڈنر کروں۔۔
ہاں تم نے اس سے مل بھی لیا اور ڈنر بھی کر لیا۔۔ تمہیں کیسی لگی وہ مجھے تو بہت اچھی لگی۔۔حورین کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس کا رشتہ ہی کروا دے ابھی کے ابھی
مجھے تو نہیں اچھی لگیں۔۔ عینی جل بھن کر کباب بن گئی حورین کی بات پر
تم منہ بند کرو تم سے پوچھا کسی نے۔۔ حورین اسے ڈپٹ کر بولی
میں عینی کی بات پر متفق ہوں۔۔حماد کندھے چکا کر بولا جس پر عینی کی آنکھیں بے ساختہ کھل گئیں
تم بھی پاگل ہو حماد جب اس کے ساتھ ڈنر کا پروگرام تھا تو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی اکیلے وقت گزارتے اس کے ساتھ تب پتا چلتا تمہیں کہ کیسی ہے ۔۔۔حماد نے حورین کی بات پر اسے ایک نظر دیکھا
ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟۔۔
کیونکہ میں یہاں آنا چاہتا تھا اور مجھے اس کے ساتھ اکیلے ڈنر کرنے کا بالکل شوق نہیں تھا تو یوں سمجھ لو کہ مجھے بہانہ مل گیا۔۔
کنوارے ہی مرو گے تم دیکھ لینا۔۔ حورین دانت پیس کر بولی
بس آپ کی دعائیں چاہیے۔۔ حماد اسے اور چھیڑتا ہوا بولا اور عینی جو کچھ دیر پہلے جل کر کباب بنی بیٹھی تھی اب پھر سے ہواؤں میں تھی
رات کافی دیر گئے حماد گھر واپس آیا تو ماہ جبین لاؤنج میں بیٹھی اس کی منتظر تھی
کیسا وقت گزرا بیٹا ؟۔۔ حماد صوفے پر بیٹھ گیا
بہت اچھا۔۔ ماہ جبین خوش ہوئی
تو کیسی لگی تمہیں رباب؟۔۔
باقی سب جیسی۔۔ وہ بےتاثر بولا
کیا مطلب؟۔۔
مطلب کہ جیسے باقی تمام لڑکیاں ہیں وہ بھی ویسے ہی ہے کچھ الگ نہیں ہے۔۔ البتہ میری نظروں میں تو بالکل نہیں ۔۔حماد نے تفصیل بتا کر آسانی کر دی
تمہاری نظر میں کبھی کوئی لڑکی خاص ہو بھی سکتی ہے؟۔۔ ماہ جبین کی خوشی غائب ہو گئی
ہاں۔خاص نہیں بہت خاص ہے میری نظر میں کوئی۔۔
حماد وہ شادی شدہ ہے اسے بھول کیوں نہیں جاتے تم؟ ۔۔۔
میں جانتا ہوں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ابھی وہیں سے آرہا ہوں ڈنر کر کے اور اگر آپ چاہتی ہیں میں اسے بھول جاؤں۔۔ تو دل سے دعا کریں میری یادداشت ختم ہو جائے یا میں مر جاؤں تب ہی چانسز ہیں اسے بھولنے کے۔۔ حماد کی بات پر ماہ جبین کا دل کانپ کر رہ گیا
مجھے کس بات کی اذیت دے رہے ہو تم حماد؟۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور تم چاہتے ہو میں اسے بھی کھودوں۔۔۔
میرا بھی ایک ہی دل ہے ممی جو میری دسترس سے بالکل باہر ہے۔۔حماد آنکھیں میچ کر بولا
تم۔ تم اس سے دور رہو تم حورین سے دور رہو گے تو تمہارا دل تمہاری دسترس میں رہے گا۔۔ ماہ جبین اب کی بار پریشانی سے بولی تھی اسے اپنے بیٹے کی تکلیف سے زیادہ کوئی چیز تکلیف نہیں دیتی تھی
حورین سے دور رہوں؟۔۔ حماد تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکتا رہ گیا
جب یہ دل حورین کے بارے میں کچھ سن لے جب اسے حورین کے پاس جانے کی اطلاع مل جائے ممی۔۔ تو مجھ سے جنگ چھیڑ لیتا ہے یا تو اسے حورین چاہیے یا یہ دھڑکنا چھوڑ دے گا آپ بتائیں مجھے حورین کے پاس جانا چاہیے یا دل کے رک جانے کا انتظار کرنا چاہیے؟۔۔ جیسا آپ کہیں گی میں ویسا کروں گا ۔۔ماہ جبین اسے دیکھتے رہ گئی کتنی آسانی سے اس نے فیصلہ اپنی ماں پر چھوڑ دیا تھا لیکن یہ بھی سچ ہے جب خود فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے تو دوسروں کی رائے وہ کام آسان کر دیتی ہے۔
دوپہر کے وقت حورین ہاسپٹل کے اسی کمرے میں آئی تو عریشہ کھڑکی سے باہر دیکھتی نظر آئی حورین اس کے پاس گئی
کیا کر رہی ہو؟۔۔ حورین نے بھی کھڑکی سے باہر جھانکا عریشہ نے چونک کر اسے دیکھا
آزادی دیکھ رہی ہوں۔۔ لیکن پھر ڈر جاتی ہوں کہ اتنے بڑے خواب ہمیشہ پورے نہیں ہوتے۔۔ وہ دوبارہ باہر دیکھ کر بولی حورین نے اس کا ہاتھ تھام لیا
تمہیں یہ خواب دکھانے والی تم سے وعدہ کرتی ہے۔۔ تمہارا خواب پورا ہوگا۔۔ عریشہ اس کی بات پر مسکرا دی
آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟۔۔
خوشخبری دینے آئی ہوں تمہیں۔۔حورین خوشی سے بولی
کیسی خوشخبری؟
اس ہفتے تمہارے کیس کی عدالت میں سماعت ہے۔۔
واقعی؟۔۔ وہ حیران ہوئی
جی ہاں۔۔عریشہ دوبارہ بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی حورین بھی اسے کے ساتھ آکر بیٹھ گئی
لیکن میں نے سنا ہے کہ ان کے وکیل آپ کے ہسبینڈ ہیں۔۔
ہاں۔۔ اس کے کچھ اصول ہیں جن میں وہ بندھا ہوا ہے لیکن وہ دل کا اچھا ہے۔۔اور تمہارے لیے اسے بہت برا بھی لگا ہے۔۔حورین نظر جھکائی بولی
مجھے یقین ہے جتنی اچھی آپ ہیں وہ بھی اتنے ہی اچھے ہوں گے۔۔ اس کے ہاتھ تھامتے بولی جیسے اسے شرمندگی سے بچا رہی ہو
میں تم سے ملوانے لاؤں گی تم اس سے ملو گی تو تمہیں اچھا لگے گا۔۔حورین آنکھوں میں امید لیے بولی
میں ضرور ملنا چاہوں گی ان سے۔۔ اور انہیں مبارکباد بھی دوں گی اتنی اچھی لڑکی سے شادی کی اور ان سے کہوں گی کہ کبھی آپ کو مت کھوئیں۔۔حورین اس کی بات پر کھلکھلا اٹھی
اس کا مطلب عینی حماد بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں۔۔ نور نے اپنا دماغ چلایا جو اکثر بند ہی رہتا ہے
دماغ نہیں خراب کرو میرا۔۔۔عینی غصہ ہوتے ہوئے بولی وہ دونوں یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے تھے
لو میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا ورنہ وہ اتنی صفائی کیوں دیتے تم بتاؤ؟۔ اس لیے نا کوئی تاکہ غلط نہ سوچے اور وہ کوئی کون ہے ظاہری بات ہے حور آپی کو تو وہ اتنی تفصیل دینے سے رہے۔۔ اور دوسرا کون تھا وہاں؟۔۔تم ہی نا۔۔نور نے تو بات ہی ختم کر دی
تم سچ بول رہی ہو؟۔۔ عینی کو یقین نہیں آرہا تھا
سو فیصد میری جان۔۔۔ نور نے گردن اکڑائی
عینی اس کی بات سن کر ٹیبل پر سر ٹکائے آنکھیں موند گئی
یہ کیا تم ابھی سے خواب دیکھنے کے لئے سو رہی ہو؟۔۔
ارے کون پاگل خواب دیکھنے کے لیے سو رہا ہے۔۔ ہم تو کھولی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں۔۔
وہ کیوں؟۔۔ نور نے حیرت سے پوچھا
کیونکہ پھر آنکھ کھلنے کا ڈر نہیں رہتا۔۔ عینی نے آنکھیں گول کیں
اور آنکھ کھلنے سے کیا ہوگا؟۔۔
خواب ٹوٹ جائے گا۔۔ اور جو اپنی چوڑیاں بھی ٹوٹنے کے ڈر سے سنبھال کر رکھتی ہے وہ خواب کیسے ٹوٹنے دے؟۔۔ اس نے آبرو اچکائیں
توبہ ہے عینی بھار میں جاؤ تم ۔۔
ایسے ہی کسی کے کہنے پر تھوڑی جاؤں گی۔۔
تو کس کے کہنے پر جائیں گی آپ؟۔۔ نور نے اسے گھورا
اسی پر جس پر مرتی ہوں۔۔۔ اس نے گردن اکڑائی
وہ تمہیں بھار میں جانے کا بولیں گے چلی جاؤ گی؟۔
ارے نور۔۔ وہ مرنے کا بھی کہیں گے تو۔۔ قسم سے مر جاوں گی۔۔
میں دیکھ رہی ہوں۔۔ جو عشق کرتے ہیں بڑے بے شرم ہوتے ہیں۔۔ نور اس کی باتوں پر حیران ہو رہی تھی
ارے میری جان۔۔ شرم و حیا والوں نے عشق کا اچار ڈالنا ہے؟۔۔ وہ شرم میں ہی رہ جائیں گے اور ان کا محبوب کسی اور کے نکاح میں۔۔
استغفراللہ۔۔ نور جھنجھلا کر رہ گئی۔
صبح کا وقت تھا اور حادی ابھی بھی سو رہا تھا اسے آج کام پر نہیں جانا تھا حورین کمرے میں گلاب کے پھول تھامے داخل ہوئی اور حادی کی طرف بڑھی
حادی اٹھو۔۔ اس نے آواز دی جس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا
حادی اٹھ جاؤ۔۔اب کہ قدر اونچی بولی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا
حادی۔۔۔حورین نے اسے کندھے سے جھنجوڑا تو انگڑائی لیتا ہوا پلٹا آنکھیں کھول کر حورین کو دیکھا جس کے ہاتھ میں گلاب کے پھول تھے حادی نے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملیں
کیا ہوا؟۔۔
وہ۔میں آنکھیں کھول رہا ہوں لیکن پھر بھی سامنے خواب چل رہا ہے۔۔ وہ اپنی آنکھیں ملتے ہوئے بولا اسے حورین کا ہاتھ میں پھول لئے اپنے سامنے کھڑا دیکھنا خواب سا لگ رہا تھا جس پر حورین مسکرا دی
زیادہ ڈرامے نہ کرو میرے ہاتھ تھک گئے ہیں انہیں پکڑ کر۔لیتے ہوں یا میں جاؤں۔۔ حادی یکدم اٹھ کر بیٹھا اور اس کے ہاتھ سے پھول لے لیے
اتنی مہربانیاں کس لیے ہو رہی ہیں جناب آج سورج کہیں اور سے تو نہیں نکل آیا۔۔۔اس نے پھول چہرے کے پاس کر کے ان کا خمار خود میں اتارا
سورج وہیں سے نکلا ہے جہاں سے نکلتا ہے۔۔ وہ مسکراتے ہوئے اپنے لب دبائی
اچھو۔۔۔اچھو۔۔ یہ کیا ہے۔۔اچھو۔۔حادی نے فوراً پھول دور کیے جس پر حورین منہ پر ہاتھ رکھے زور سے ہنسنے لگی
اچھو۔۔ بیرا۔۔اچھو۔۔غرق ۔۔ حورین زمین پر لوٹ پوٹ ہو گئی
وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور حادی رومال سے اپنی ناک صاف کر رہا تھا جو ٹماٹر کی طرح لال ہو چکی تھی
تم بڑے پیارے لگ رہے ہو لال ناک کے ساتھ بس رنگ برنگے بالوں کی کمی ہے۔۔حورین اسے چھیڑتے ہوئے بولی
بیوی بنو بیوی چڑیل نہیں۔۔ حادی جل کر بولا
اوہ۔۔ آرام سے بیوی ہی ہوں میں آپ کی۔ آپ کو آج چھٹی تھی تو سوچا آپ کے ساتھ تھوڑا مذاق کر لوں۔۔
یہ تم اب مجھے آپ آپ کہہ کر میری معافی وصول نہ کرو۔۔ حادی اس کی رگ رگ سے واقف تھا
آپ سے بھلا معافی کس نے مانگی۔ حورین معصوم شکل بنائے آنکھوں کو جھپک رہی تھی جس پر نہ چاہتے ہوئے بھی حادی مسکرا دیا
اچھو۔۔اس نے دوبارہ رومال ناک پر رکھا حورین نے قہقہہ لگایا
شام کے وقت عینی لائیبریری کچھ ناولز دیکھنے آئی تھی ڈرائیور اسے چھوڑ کر آگے گاؤں کے لیے روانہ ہو چکا تھا اور اب اسے پک کرنے کے لیے کوئی نہ تھا اس نے کتاب دیکھتے ہوئے بیگ سے موبائل نکالا اور حورین کو کال ملائی
حور آپی حادی بھائی فری ہیں؟۔۔
ہاں کیوں کیا ہوا؟۔۔
وہ مجھے ڈرائیور لائبریری چھوڑ کر گاؤں کے لیے جا چکا ہے تو حادی بھیا سے کہیں وہ مجھے پک کر لیں۔۔
اچھا میں کہتی ہوں تم فکر نہ کرو۔۔
حورین کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں آئی تو حادی کلائی پر گھڑی پہن رہا تھا
تم کہیں جا رہے ہو؟۔۔
ہاں وہ آفس میں ارجنٹ میٹنگ ہے تو وہیں جا رہا تھا ۔۔کوئی کام ہے تمہیں؟۔۔۔وہ اپنے کوٹ کو سیدھا کرتے ہوئے بولا
نہیں تم آرام سے جاؤ ۔۔حادی گاڑی کی چابیاں ٹیبل سے اٹھاتا باہر چلا گیا حورین نے فون پر نمبر ڈائل کر کے کان سے لگایا تھوڑی دیر بعد کال اٹھ گئی
ہیلو حماد کیسے ہو؟۔۔
حادی آفس میں پہنچا تو ماہ جبین اور ولید بشر دونوں موجود تھے
تمہیں علم تو ہو ہی گیا ہوگا ہم نے تمہیں کیوں بلایا ہے۔۔ماہ جبین بولی
جی۔۔۔ حادی ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا
اور تم یہ بھی جانتے ہو اگر وہ عدالت پہنچ گئی تو ہمارا کیا نقصان ہوگا تمہاری بیوی نے جج کو دھمکا کر اسی ہفتے مطلب دو دن بعد کی تاریخ لے لی ہے تو تم اب کیا کرو گے؟۔۔ماہ جبین نرمی سے بات کر رہی تھی جبکہ ولید بشر غصے سے کروٹیں بدل رہا تھا
اسے عدالت جانے سے تو روکا نہیں جا سکتا۔۔
روکا جا سکتا ہے ۔۔۔ماہ جبین نے حادی کی بات کاٹ دی
وہ عدالت میں کچھ بولے اس سے پہلے تمہیں اسے ہمیشہ کے لیے چپ کروانا ہے عبدالحادی یا تو لڑکی اپنی جان سے جائے گی یا تو۔۔ تم سمجھ ہی گئے ہو گے فیصلہ تمہارا ہے۔۔۔ حادی ماہ جبین کی بات پر اسے سپاٹ دیکھتا رہا
ہم چلتے ہیں کل تک ہمیں اچھی خبر مل جانی چاہیے۔۔وہ ولید بشر کو اشارہ کرتے اٹھ گئی وہ دونوں آفس سے نکل گئے حادی کو اچانک اپنا دم گھٹتا محسوس ہونے لگا اس نے اپنی ٹائٹ ڈھیلی کی لیکن کوئی فرق نہ پڑا تو سامنے پڑی ٹیبل کو زور سے ٹھوکر ماری جس پر رکھا سارا سامان زمین پر ڈھیر ہو گیا
"یا تو لڑکی اپنی جان سے جائے گی یا تو۔۔" اور دونوں ہاتھوں سے سر کے بال زور سے پکڑ لیے
عینی لائبریری سے باہر آئی تو سامنے ہی حماد اپنی گاڑی سے باہر نکل رہا تھا اسے دیکھ عینی حیران ہوئی اور چلتے چلتے اس کے پاس پہنچی
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟۔۔
وعلیکم السلام۔۔حورین کی کال آئی تھی حادی کو ضروری کام سے جانا پڑا تو میں لینے آگیا۔۔۔عینی نے نظریں جھکا لیں۔۔
چلو بیٹھو اندر۔۔۔اس نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا عینی دوسری جانب سے گاڑی میں بیٹھ گئی
کیا کھانا پسند کرو گی؟۔۔حماد ڈرائیو کرتا ہوا بولا
نہیں۔کچھ بھی نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔ عینی فوراً بولی
تو پھر کیا کرنا ہے؟۔۔
وہ میں تھوڑی دیر پارک میں تازہ ہوا لینا چاہتی ہوں۔۔اگر آپ فری ہیں۔۔
ہاں میں تو بالکل فری ہوں تبھی آفر کر رہا ہوں۔۔کچھ دیر بعد حماد نے گاڑی ایک باغ کے باہر پارک کر دی شام رات میں ڈھل چکی تھی اس لیے اندھیرا چھا گیا تھا وہ دونوں اب نیچے گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے حماد چہرہ آسمان کی طرف کئے آنکھیں بند کر کے تازہ ہوا کے مزے لے رہا تھا اور کبھی کبھی ساتھ بیٹھی عینی اس پر نظر ڈال لیتی
برا نہ مانے تو ایک بات پوچھوں؟۔۔
نہیں۔۔ اس نے آنکھیں بند کیے ہی جواب دیا جس پر عینی نے منہ پھلا لیا
پوچھو۔۔اسی طرح دوبارہ جواب آیا عینی نے اس کا چہرہ دیکھا جو آسمان کی طرف ہی تھا
آپ کے خیال میں ایک طرفہ محبت کیا ہوتی ہے؟۔۔ اس کے سوال پر حماد نے آنکھیں کھول لیں اور حیرت سے اسے دیکھا
وہ۔میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی آج۔اس میں ذکر تھا ایک طرفہ محبت کا تو بس جنرل سا سوال کر دیا۔۔ اس سے پہلے حماد کچھ کہتا اس نے وضاحت دے دی وہ سر جھٹکتا آسمان کو کچھ دیر دیکھنے لگا پڑا اس کے چہرے پر زخمی سی مسکراہٹ ابھری
ایک طرفہ محبت جان تو نہیں لیتی۔۔۔ مگر ہر پل جان لیتی ہے۔۔۔ اس کے لفظوں میں ایسا کچھ تھا کہ جس نے عینی کا دل جکڑ لیا اسے اچانک اپنا جسم ٹھنڈا پڑتا محسوس ہوا عینی کو وقت نہیں لگا یہ جان لینے میں کہ جس پر اس نے دل ہارا ہے وہ پہلے ہی کسی پر اپنا دل ہار بیٹھا ہے حماد نے عینی کے بدلتے تاثرات دیکھے۔۔
کیا ہوا عینی؟۔۔
ہاں۔۔ نہیں کچھ نہیں۔۔ حماد کی آواز پر وہ ہوش میں آئی
کیا آپ کی محبت میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ آپ کو آپ کی محبت مل جائے؟۔۔ اس نے پھر سوال کیا
نہیں کچھ لوگوں کے مقدر میں محبت کرنا تو لکھا ہوتا ہے مگر محبت ملنا نہیں لکھا ہوتا۔۔ چاہے پھر ہم دم درود کریں، یا جادو، یا پھر دعائیں لیکن وہ کسی اور کی جھولی میں بن مانگے دے دیے جاتے ہیں۔۔وہ کسی کرب کا شکار ہو چکا تھا اسی کرب اور درد کا جس سے بچنے وہ یہاں آیا تھا اور ساتھ بیٹھی عینی جو خوابوں کی دنیا میں جی رہی تھی اس سے کچھ لمحے لگے تھے حقیقت کی دنیا میں آنے میں اور حقیقت کی دنیا اس کے چھوٹے سے دل کے لیے بہت دردناک تھی
کیا ایسا نہیں ممکن جو محبت آپ کو نہ ملے اسے چھوڑ کر دوسری محبت کی جائے؟۔۔ اس سے جو آپ سے بھی محبت کرتا ہو؟۔۔ عینی نجانے خود کو دلاسے دینے کی کوشش کر رہی تھی یہاں خود کے لیے بہانہ تلاش کر رہی تھی۔
نہیں ممکن۔دوسری محبت کے لیے پہلی محبت کو دل سے نکالنا پڑتا ہے اور کسی کی محبت کو دل سے ترک کرنا دل کی دھڑکنیں روک دیتا ہے دوسرے لفظوں میں دل کو مار دیتا ہے۔۔ یہ وہ جواب نہیں جو عینی ڈھونڈ رہی تھی اس کا تازہ ہوا میں دم گھٹ رہا تھا اور گلا روندھا ہوا تھا مگر وہ رونا نہیں چاہتی تھی اور رو بھی نہیں سکتی تھی وہ بیگ پکڑے فوراً اٹھ گئی
کیا ہوا؟۔۔حماد نے اسے کھڑے ہوتے دیکھا
گھر چلیں۔۔
لیکن تمہیں تو تازہ ہوا لینی تھی اچانک کیا ہوا؟۔۔ وہ بھی کھڑا ہو گیا
میرا یہ تازہ ہوا دم گھوٹ رہی ہے مجھے گھر جانا ہے۔۔ وہ حماد کو دیکھے بغیر بول رہی تھی وہ اب اسے دیکھ بھی نہیں سکتی تھی اگر دیکھ لیتی تو رو پڑتی یہ سوچ کر کہ اس کے اتنا قریب موجود شخص اس کی دسترد سے بہت باہر ہے۔۔
صبح کے وقت حورین ڈریسنگ کے سامنے بالوں کو برش کر رہی تھی واش روم کا دروازہ کھلا اور حادی بالوں کو ٹاول سے صاف کرتا باہر نکلا
تمہیں رات کو اتنی دیر کیوں ہو گئی؟۔۔ میں تمہارا انتظار کرتے کرتے سو گئی۔۔ اس نے شیشے سے حادی کو دیکھ سوال کیا
ضروری کام پڑ گیا تھا اس لیے دیر ہو گئی۔۔ حادی نے ٹاول صوفے پر رکھا اور حورین کے بالکل پیچھے آکر کھڑا ہو گیا اور ڈریسنگ سے پرفیوم اٹھائی
تم کہیں جا رہی ہو؟۔۔
ہاں ہاسپٹل جا رہی ہوں عریشہ سے ملنے وہ آج ڈسچارج ہو جائے گی اور میرے ساتھ تم بھی جا رہے ہو۔۔ حورین اب ہاتھوں کو لوشن لگا رہی تھی
میں نے کیوں جانا ہے؟۔۔ حادی نے پرفیوم ٹیبل پر رکھا
کیونکہ میں نے اس سے کہا تھا میں تمہیں اس سے ملواؤں گی اور وہ بہت خوش ہے تم سے ملنے کے لیے تمہیں مبارکباد دے گی اتنی پیاری لڑکی سے شادی کرنے کی اور نصیحت بھی کرے گی کہ کبھی اتنی پیاری لڑکی کو کھونا مت۔۔۔ حورین شیشے سے حادی کو دیکھ مسکراتے ہوئے ہونٹوں کو دانت سے کاٹ رہی تھی حادی نے اسے دونوں کندھوں سے تھاما اور اس کا رخ اپنی طرف کیا
حورین میں اپنا سب کچھ کھو سکتا ہوں یہاں تک کہ اپنی جان بھی۔۔ لیکن میں تمہیں کسی قیمت پر نہیں کھو سکتا۔ کبھی نہیں۔۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ اسے اس حقیقت سے آشنا کر رہا تھا
تم اتنے سیریس کیوں ہو رہے ہو چلو جلدی کرو دیر ہو جائے گی ورنہ۔۔ حورین اس کی گرفت سے اپنے کندھے چھڑائے (حورین کو حادی کی باتیں کبھی کبھی ڈرا دیتی تھیں)
گاڑی ہسپتال کے باہر رکی
یہ کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔حورین کی نظر ایمبولینس پر پڑی جس میں کسی کی باڈی رکھی جا رہی تھی حادی نے سامنے دیکھا
شاید کسی کا اپنا مر گیا ہے۔۔
لیکن نوریز صاحب یہاں کیا کر رہے ہیں؟۔۔ میں دیکھ کر آتی ہوں۔۔ حورین تیزی سے گاڑی سے نکلی حادی بھی جلدی سے گاڑی سے اتر کر حورین کے پاس آیا
میں دیکھ کے آتا ہوں حورین۔۔ وہ حورین کا ہاتھ تھامنے لگا لیکن وہ چھڑوا کر آگے چلی گئی اس کے قدم تیز ہوتے گئے وہ لوگوں کی بھیڑ کو کاٹ کر ایمبولنس تک پہنچی
آ۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں نوریز صاحب؟۔۔ باڈی کو اندر رکھ دیا گیا نوریز نے حورین کو دیکھا تو اس کے رونے میں شدت آگئی
وکیل صاحبہ۔میں۔اپنی بیٹی کے پاس نہیں ہوں گا تو۔ کدھر ہوں گا۔۔وہ روتے ہوئے ایمبولنس میں بیٹھ گیا حورین کے پاؤں تلے زمین کھسکتی چلی گئی اس کا جسم ٹھنڈا پر گیا حادی اس کے پاس آ چکا تھا اور اسے تھامے کھڑا تھا
یہ۔یہ کیا کہہ کر گئے ہیں حادی؟۔۔ حورین نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا
عریشہ۔عریشہ اندر ہے اس نے تو ڈسچارج ہونا تھا میں دیکھ کر آتی ہوں۔۔ حورین اندر بھاگنے لگی کہ حادی کی گرفت اس پر سخت ہو گئی
حورین عریشہ نہیں رہی وہ نہیں رہی۔۔حادی اسے خود میں پھینچ کر بولا
نہیں ایسا نہیں۔۔ایسا نہیں ہو سکتا مجھے تم دیکھنے تو دو۔۔وہ اپنا آپ حادی سے چھڑوا رہی تھی اسے مکے مار رہی تھی کہ کسی طرح وہ اسے چھوڑ دے لیکن آخر میں اس کی ہمت جواب دے گئی۔
نہیں۔نہیں۔۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھتی چلی گئی "آزادی دیکھ رہی ہوں لیکن پھر ڈر جاتی ہوں کہ اتنے بڑے خواب ہمیشہ پورے نہیں ہوتے"
نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔وہ خلق کے بل چلاتی ہوئی رو رہی تھی
حورین بس کرو خاموش ہو جاؤ ۔۔۔حادی اسے اپنے ساتھ لگائے چپ کروا رہا تھا آتے جاتے لوگ رک کر انہیں دیکھنے لگ گئے حورین کواچانک سر میں درد کا احساس ہوا اس نے سر پر ابھی ہاتھ رکھا ساتھ ہی حادی کے بازوؤں میں جھول گئی
حورین !۔۔حادی نے اس کے منہ کو تھپتھپایا
حورین آنکھیں کھولو۔۔۔
حورین کی آنکھ کھلی وہ سر کو پکڑے بیٹھی تو اس کے ساتھ ہی بستر پر حادی بیٹھا ہوا تھا
تم ٹھیک ہو اب؟۔۔اس نے حورین کو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا
حادی میں نے مار دیا عریشہ کو۔میری وجہ سے مر گئی وہ۔۔ا س کی آنکھوں سے آنسو پھر روانہ ہوئے حورین کی بات نے حادی کو ساکت کر دیا وہ اسے بے حس و حرکت دیکھتا رہا
میں ۔میں نے اسے کہا تھا کہ وہ لڑے۔میں نے اسے کہا تھا کہ وہ بولے۔میں اسے آزادی دینا چاہتی تھی لیکن میں نے نہیں چاہا تھا کہ وہ یوں مر جائے۔میں نے مار دیا اس کو۔۔
حورین کیسی باتیں کر رہی ہو؟۔تم نے کچھ نہیں کیا وہ اپنی موت آپ مری ہے وہ طبعی موت مری ہے تم نے کچھ نہیں کیا۔۔وہ اسے خود سے لگا کر اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا
میں اگر زبردستی نہ کرتی تو۔تو ایسا نہ ہوتا میں نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی۔۔ وہ حادی کے بازوؤں کو اپنی مٹھیوں میں زور سے پکڑے روتی چلی گئی
آج عریشہ کی موت کو دو مہینے گزر چکے تھے حورین کی طبیعت معمول کے برعکس تھی خاموش خاموش رہتی اور خود کو نئے کیسز میں مصروف رکھتی یہاں تک کہ اسے کھانے پینے کی بھی ہوش نہ رہتی اور پھر حادی اسے خود کھلا دیا کرتا اس نے اپنی ممی کی طرف جانا بھی کافی کم کر دیا تھا۔
دوپہر کے وقت سورج کو بادلوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور معمول کے مطابق حورین ڈرائنگ روم میں بیٹھی ٹیبل پر کاغذات بکھیرے کسی کیس کا مطالعہ کرنے میں مصروف نظر آرہی تھی حادی کمرے سے نکلا تو حورین کو یوں بیٹھے دیکھ اس کے پاس آگیا
کیا کر رہی ہو ؟۔۔حورین اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ اسے آواز نہ آئی
حورین۔۔حادی نے بیٹھتے ہوئے پھر پکارا
ہوں؟۔۔ اس نے چونک کر حادی کو دیکھا
میں تم سے پوچھ رہا ہوں کیا کر رہی ہو؟۔۔
وہ میں ایک کیس کے متعلق دیکھ رہی تھی
تم آج کے بعد کوئی کیس نہیں لڑ رہی۔۔
کیا؟۔۔حورین نے حیرت سے حادی کو دیکھا
ہاں تم مجھے مجبور کر رہی ہو کہ میں تمہارا عدالت جانا اور کیسز پر کام کرنا بند کر دوں۔۔ اس نے سنجیدگی سے دیکھ کر بولا
تم مجھے اس کام سے نہیں روک سکتے حادی۔۔
روک سکتا ہوں میں شوہر ہوں تمہارا تمہیں ذرا بھی خیال ہے کہ تم کتنی اذیت دے رہی ہو مجھے اور خود کو؟۔۔اپنا خیال تک نہیں رکھتی نہ ٹھیک سے کھانا کھاتی ہو کل کو تم کسی کا کیس لڑو گی اور اگر وہ اپنے مقررہ وقت پر کیس کے دوران ہی مر جائے تو تم اس کا قصوروار خود کو سمجھو گی؟ کہ تم اس کا کیس لڑ رہی تھی تو تمہاری وجہ سے مر گیا۔۔ حورین خاموشی سے اسے دیکھتی رہی
اور اگر تمہارا ایسا ہی ارادہ ہے تو میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا تمہیں اپنے پاس رکھوں گا۔۔
حادی!۔۔
کچھ نہیں سننا میں نے تمہیں اندازہ بھی نہیں تمہیں اس طرح دیکھ کیا تکلیف گزر رہی ہے مجھ پہ۔۔ حورین کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھا جو وہ روکے حادی کو دیکھتی رہی
حورین۔۔حادی نے حورین کے دونوں ہاتھ تھامے
میں تم سے کچھ نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم خود پر یہ ظلم کرنا چھوڑ دو میں اور تمہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتا۔۔حورین نے اپنے لب کاٹے اور آنکھ جھپکی جس سے آنکھوں میں رکے آنسو گال پر بہہ گئے
میں۔ میں کوشش کروں گی تمہیں آئندہ ایسی تکلیف نہ دوں۔۔
اور خود کو بھی۔۔حادی نے اپنے انگوٹھے سے اس کے رخسار پر بہتے آنسو کو صاف کیا چلو ریڈی ہو جاؤ۔۔وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا
ریڈی کیوں؟۔۔
آج ہم باہر ڈنر کریں گے اچھی سی تیار ہو جاؤ چلو شاباش۔
وہ دونوں شام کو تیار ہو کر چلے گئے لانگ ڈرائیو کرنے کے بعد رات کا ڈنر کیا اور پھر حادی نے حورین کو آئس کریم کھالئی وہ رات کو کافی دیر سے گھر آئے تھے۔
شام کے وقت حادی حورین کو اس کی امی کی طرف لے گیا
تم نے بہت اچھا کیا حادی جو اسے لے آئے اس نے تو نظر آنا ہی چھوڑ دیا ہمیں۔۔ عدیلہ حورین سے خفا ہوتی ہوئی بولی
جی پھوپھو جانتا ہوں یہ دو تین دن آپ کے پاس ہی رہے گی پھر جتنے بھی گلے شکوے ہوں گے وہ دور کر لینا آپ لوگ۔۔
ممی عینی نظر نہیں آرہی کہاں ہے وہ؟۔۔ حورین نے عینی کو نہ پا کر پوچھا
بیٹا اسے یونیورسٹی میں بہت وقت لگ گیا تھا تو اب سو رہی ہوگی ویسے بھی آج کل اس کا گھر ہونا نہ ہونا ایک ہی برابر ہے۔۔۔ وہ باتوں میں مصروف تھے کہ حادی کو کال آگئی
اچھا پھپھو مجھے اجازت دیں میں اب چلتا ہوں۔۔حادی اجازت مانگتے ہوئے کھڑا ہو گیا
ارے بیٹا ابھی تو ڈنر بھی نہیں کیا تھوڑی دیر رک جاؤ۔۔
نہیں پھپھو میری آج ڈنر پر میٹنگ ہے تو میں آپ لوگوں کو جوائن نہیں کر سکوں گا۔۔ عدیلہ بھی کھڑی ہو گئی
اچھا چلو خیر سے جاؤ۔۔۔
دوپہر کے وقت حورین ڈرائنگ روم میں بیٹھی موبائل میں مصروف تھی کچھ دیر بعد عینی سیڑھیاں اترتی نظر آئی
حور آپی! کیسی ہیں آپ؟۔۔حورین کو دیکھ خوش ہوئی
تم زندہ ہو؟۔۔حورین نے آبرو اٹھائے پوچھا
الحمدللہ۔۔۔عینی نے گردن اکڑائی
تو کل سے کس غار میں چھپی بیٹھی تھی؟۔۔
تھکی ہوئی تھی بہت کل کی ہوش نہیں رہی۔۔ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی
کیا ہوا ہے؟۔۔مرجھائی ہوئی لگ رہی ہو۔۔حورین نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا
پھول کبھی مرجھا سکتا ہے بھلا؟۔۔ عینی نے آنکھیں جھپکیں
ہاں پھولی ہی تو مرجھایا کرتے ہیں۔۔حورین نے کندھے اچکائے
اچھا مجھے بتائیں اگر مجھے کچھ چاہیے ہو تو میں اس کے لیے کیا کروں؟۔۔
مجھ سے فرمائش کر لو میں دے دوں گی۔۔ حورین نے موبائل بند کر دیا
فرمائش؟۔۔ " وہ کھلونا نہیں ہے جس کی فرمائش کرتی تو مجھے مل جاتا "
نہیں وہ اس سے بڑی چیز ہے۔۔
موبائل چاہیے تمہیں؟۔۔حورین نے آنکھیں سکیڑتے پوچھا
موبائل؟۔۔ " وہ تو مجھے کچھ دیر رونے پر بھی مل ہی جاتا جو مجھے چاہیے وہ رونے پر بھی نہیں مل سکتا"
ایسی چیز جو میری دسترس سے بہت باہر ہے وہ مجھے دینا کسی کے بس کی بات نہیں۔۔ یہ کہتے عینی کا دل بری طرح ڈوبا تھا
تو اللہ سے مانگ لو اس کے بس میں سب کچھ ہے۔۔
اللہ سے مانگ لوں؟۔۔
ہاں۔۔
لیکن میں اس سے کیسے مانگ سکتی ہوں؟۔۔۔
یہ کیسا عجیب سوال ہے جیسے مانگتے ہیں ویسے۔۔
میرا مطلب میں اللہ کو یاد نہیں کرتی نماز بھی نہیں پڑھتی۔۔ وہ دن میں پانچ بار بلاتا ہے لیکن میں ایک بار بھی نہیں جاتی اور اب مجھے کچھ چاہیے تو اس کو یاد کروں؟۔۔وہ مجھے اپنی خود غرض بندی نہیں سمجھے گا؟۔۔ جس نے کسی ضرورت کے تحت اسے یاد کر لیا۔۔عینی نے افسردگی سے پوچھا
عینی میری جان۔۔ تم جس کی بات کر رہی ہو وہ اللہ ہے کوئی انسان نہیں جو تمہیں خودغرض سمجھے وہ رحیم ہے وہ رحمان ہے اور اگر تم نے کبھی اسے یاد نہیں کیا تو اب کر لو اسے منانے کے لیے صرف ایک معافی درکار ہوتی ہے۔۔جو دل سے مانگی جائے اور تم جانتی ہو اسے اپنے عبادت گزار بندوں سے زیادہ گنہگار بندے محبوب ہوتے ہیں جو اس دنیا میں بھٹک جانے کے بعد اسے یاد کرتے ہیں ۔۔حورین کی بات پر عینی کی آنکھوں میں چمک تھی عجیب سی چمک جیسے کسی سکون نے گھیرا ہو
تو مطلب میری سچی توبہ کے بعد میری ہر دعا قبول ہو جائے گی؟۔۔
بے شک وہ قبول کرنے والا ہے۔۔ لیکن جو تم مانگ رہی ہو اگر وہ چیز تمہارے حق میں بہتر نہیں ہوگی تو تمہیں مانگنے پر بھی نہیں ملے گی۔لیکن اللہ تمہیں اس سے بہتر سے نواز دے گا اس ایک بات کا یقین ہمیشہ رکھنا۔۔ اور آخری بات پر عینی پھر صدمے کا شکار ہو گئی اسے وہ چاہیے تھا ہر قیمت پر کیونکہ وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو چکی تھی۔۔
کیا کر رہی ہیں میری دونوں بچیاں۔۔ جمشید صاحب ڈائننگ روم کی طرف آئے
آپ کی چھوٹی بچی کو عقل دے رہی تھی میں۔۔ حورین آبرو اچکاتی بولی
تم میں اتنی عقل ہے جو تم اسے دے رہی تھی؟۔۔ تب ہی عدیلہ کی آواز پر حورین کا دل جل گیا
ممی!۔۔۔ اور سامنے بیٹھی عینی اسے منہ ٹیڑھا میڑھا کر کے دکھا رہی تھی۔۔
رات کے وقت حورین لان میں بیٹھی حادی سے فون پر بات کر رہی تھی
تمہاری میٹنگ ہو گئی؟۔۔
نہیں ابھی ہونی ہے تھوڑا ڈیلے ہو گیا تھا۔۔
تمہارا شکریہ حادی۔۔ حورین آہستہ لب بولی
وہ کس لیے؟۔۔
میرا اتنا خیال رکھنے کے لیے۔۔
ہاں تم نے تو میرا خیال رکھنا نہیں ہوتا تو میں ہی رکھ لیتا ہوں تمہارا۔۔
ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے میں بھی رکھتی ہوں تمہارا خیال۔۔حورین فوراً بولی
ہاں بالکل۔۔ ایسا خیال رکھتی ہیں آپ اپنے شوہر کا کہ اسے صبح صبح پھول سنگوا کر چھینکے لگوا دیتی ہیں۔
ہاہاہا۔۔حورین کھل کر ہنس دی
تم واقعی ظالم حسینہ ہو حورین ۔۔۔وہ پیار بھرے لہجے میں بولا
وہ تو میں ہوں۔۔
اچھا میٹنگ شروع ہونے لگی ہے میں چلتا ہوں خیال رکھنا اپنا۔۔
تم بھی خیال رکھنا۔۔
اہم اہم۔۔ باتیں شاتیں ہو رہی ہیں۔۔ عینی کی آواز پر حورین نے مڑ کر دیکھا
ہاں ہو رہی تھیں تمہیں کیا؟۔۔
کچھ نہیں مجھے کیا ہونا ہے۔۔۔وہ اس کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئی
میں تو شروع سے ہی کہتی ہوں آپ کو اور بگاڑ دیا ہے حادی بھائی نے۔۔
کیا مطلب تمہارا؟۔۔۔حورین نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا
مطلب وہ اتنا خیال رکھتے ہیں آپ کا آپ کی ایک تکلیف انہیں سو تکلیفوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے انہیں یہ دو مہینے کسی عذاب سے کم نہیں تھے ان کے لیے۔۔۔ عینی کی بات پر حورین بے ساختہ مسکرا دی
لیکن کبھی کبھی سوچتی ہوں انہوں نے آپ کو ان کے خیال کی عادت ڈال دی ہے کیا کبھی ان کے بغیر آپ اپنا خیال رکھ سکیں گی؟۔۔ حورین نے آنکھیں اٹھا کر عینی کو دیکھا اسے دل میں عجیب سا کچھ ہوا تھا
مجھے کبھی اس کے بغیر بھلا کیوں رہنا پڑے گا جیسے وہ میرا خیال رکھتا آیا ہے آگے بھی رکھے گا۔۔۔
میری دعا ہے حور آپی۔۔آپ جیسی قسمت سب کی ہو آپ کی طرح باقی سب کی بھی محبت امر ہو۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو۔۔ حورین دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر کر رہی تھی
دوپہر کے وقت حورین بیگ تھامے سیڑھیاں اتر رہی تھی
کہیں جا رہی ہو بیٹا؟۔۔ عدیلہ ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی نظر حورین پر پڑی
جی ممی گھر جا رہی ہوں۔۔۔
لیکن حادی تو لینے نہیں آیا۔۔عدیلہ کھڑی ہو گئی
جی میں خود جا کر اسے سرپرائز دے دوں گی۔۔حورین مسکراتے ہوئے بولی
چلو خیر سے جاؤ۔۔۔ماں سے پیار لے کر وہ چلی گئی
یہ کہاں گئی ہیں؟۔۔عینی نے سیڑھیاں اترتے پوچھا
گھر گئی ہے اپنے۔۔ عدیلہ دوبارہ بیٹھ گئی
تمہیں کیا ہوا ہے؟۔۔ پریشان دکھ رہی ہو۔۔ اس نے کسی سوچ میں کھوئی عینی سے پوچھا۔
نہیں پتہ نہیں دل عجیب سا ہو رہا ہے۔۔کسی چیز سے ڈر لگ رہا ہے۔۔
آیت الکرسی پڑھ لو ٹھیک ہو جائے گا۔۔
حورین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اور ادھر ادھر دیکھا تب ہی ملازمہ آئی
بیگم صاحبہ آپ آگئیں۔۔
ہاں حادی صاحب کہاں ہیں؟۔۔
وہ سٹڈی روم میں ہیں۔۔ میں انہیں آپ کا بتا دوں؟۔۔
نہیں تم جاؤ میں خود دیکھ لوں گی۔۔
وہ دبے پاؤں منہ پر ہاتھ رکھے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی سٹڈی روم تک پہنچی اس کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا
جی آپ بے فکر رہیں آپ کو مجھ سے پہلے بھی شکایت نہیں ہوئی آگے بھی نہیں ہو گی۔۔ حورین اندر جانے لگی
عریشہ نوریز کی موت کو سب طبیعی موت ہی سمجھتے ہیں اس لیے آپ کو میرے کام پر شک نہیں ہونا چاہیے۔۔ حورین وہیں منجمد ہو گئی اسے اپنا جسم سن ہوتا محسوس ہوا
جی ہاں!۔۔دروازہ کھلا حادی کی نظر حورین پر پڑی ۔
عریشہ نوریز کے بارے میں تم نے کیا کہا؟۔۔ حادی اسے دیکھ بت بن گیا اس کا دماغ کچھ لمحے کے لئے سوچنے کی صلاحیت کھو بیٹھا
میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔ حورین اونچی آواز میں بولی
حور۔حورین ۔۔حادی فوراً اس کے پاس آیا
میری بات سنو۔۔وہ اس کا بازو پکڑے کچھ کہنے لگا کہ حورین نے اس کے ہاتھ جھٹک دیئے
حادی تم نے عریشہ کی موت کے بارے میں کیا بولا؟۔۔ وہ حلق کے بل چیخی تھی
حورین۔مجھے معاف کر دو۔وہ۔ حادی کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے
معاف کر دوں؟۔۔ حورین نے بے یقینی سے حادی کو دیکھا اس کی آنکھیں سرخ پڑ چکی تھیں۔
حورین۔۔ وہ آگے بڑھ کے اسے پھر تھامنے لگا
مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔۔ حورین پیچھے ہٹ گئی
تم۔۔ حادی۔۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی آنکھ سے آنسو جھلک کر گال پر بہہ گیا وہ منہ پر ہاتھ رکھے باہر نکل گئی
حورین !۔۔ حادی اس کے پیچھے گیا وہ بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اتری اس کے رونے میں شدت آگئی سیدھا بھاگتے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی
حورین میری بات سنو۔۔ حادی اس کے پیچھے بھاگا وہ مین ڈور سے باہر نکل گئی سامنے سڑک تھی اور وہ بنا کچھ دیکھے بھاگتی چلی گئی حادی نے قدم باہر رکھا وہ سڑک کے بیچ میں تھی جب کوئی چیز اس سے ٹکرائی
حورین۔۔حادی پوری قوت سے چلایا اس کی جان کسی نے مٹھی میں لے لی تھی وہ دیوانہ وار سڑک پر بھاگتا ہوا حورین کے پاس پہنچا جو خون میں لتپت تھی
حورین آنکھوں کھولو حورین ۔۔وہ اسے اپنی گود میں لیے دیوانوں کی طرح چیخ رہا تھا حورین کا خون حادی کو بھی بھگو گیا۔۔
سب ہسپتال میں باہر بیٹھے انتظار کر رہے تھے عینی عدیلہ کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی حادی بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا اور حماد دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا وہاں ماہ جبین بھی موجود تھی کچھ دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا
ک۔کیسی ہے وہ اب ڈاکٹر؟۔۔حادی نے فوراً ڈاکٹر کو دیکھ سوال کیا
خطرے کی کوئی بات نہیں ان کے سر پر کچھ ٹانکیں آئے ہیں وہ اب ٹھیک ہیں ۔۔ڈاکٹر کی بات پر سب نے شکر ادا کیا
ہم اس سے مل سکتے ہیں اب؟۔۔عدیلہ نے اٹھتے ہوئے پوچھا
جی مل سکتے ہیں لیکن پیشنٹ فی الحال صرف اپنے گھر والوں سے ہی ملنا چاہتی ہے۔ اپنی ماں اور بہن سے۔۔ڈاکٹر اطلاع دے کر چلے گیا
میں دیکھ کر آتی ہوں اسے۔۔ عدیلہ اندر کی طرف بھاگی اور عینی بھی اس کے پیچھے چل دی حادی سر پکڑے وہاں موجود کرسی پر بیٹھ گیا اس وقت حادی کے لیے اس سے زیادہ سکون کی بات کچھ نہ تھی کہ حورین ٹھیک ہے اسے کچھ نہیں ہوا۔حادی کی حورین ٹھیک ہے۔ حماد حادی کو دیکھ اس کے پاس آطبیٹھا
ایسا کیا کر دیا تم نے؟۔۔ کہ تمہاری زندگی تم سے منہ موڑ کر بیٹھی ہے۔۔
گناہ۔ گناہ کر دیا ہے میں نے۔۔حادی منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
اس سے پہلے کہ گناہ کبیرہ گناہ میں بدل جائے معافی مانگ لو۔۔ کچھ دیر بعد عدیلہ اور عینی کمرے سے باہر نکل آئے انہیں دیکھ حادی فوراً کھڑا ہوا
کیسی ہے وہ پھپھو؟۔۔
وہ ٹھیک ہے بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔۔عدیلہ نے حادی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
مجھے اس سے ملنا ہے مجھے سکون نہیں آئے گا اسے دیکھے بغیر۔۔وہ بے چینی سے بولا
لیکن بیٹا۔۔
پلیز پھوپھو۔۔حادی نے کسی بچے کی طرح التجا کی
ٹھیک ہے مل لو اس سے۔ حادی اندر چلا گیا ماہ جبین اٹھ کر عدیلہ کے پاس آئی
مبارک ہو آپ کی بیٹی محفوظ ہے۔۔مسکرا کر بولی
اللہ کا شکر ہے۔۔ عدیلہ نے سکھ کا سانس بھرا ماہ جبین نے نظر حماد پر ڈالی جو سر جھکائے بیٹھا تھا اس لمحے اسے حماد کی روح نکلتی محسوس ہوئی تھی جب حورین اندر تھی اور نجانے وہ کس دل کے ساتھ خود کو دیوار کا سہارا دیے کھڑا رہا تھا
حورین بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے سر پر پٹی بندی تھی وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آیا
حورین تم جانتی ہو تم میری جان نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ان لمحے تم نے میری جان اپنی مٹھی میں لے رکھی تھی کہ اگر حورین نہیں تو حادی بھی نہیں۔۔حادی اس کا ہاتھ تھامے اس کے پاس بیٹھ گیا حورین کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب پھر جاری تھا جو وہ روکے ہوئے تھی
میں تم سے اعتراف کرنے آیا ہوں۔۔۔ حورین کو نا بولتے دیکھ وہ پھر بولا کہ حورین نے زور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا حادی نے بے ساختہ نظر اٹھا کر اسے دیکھا اس کی آنکھوں میں التجا تھی نجانے کس چیز کی التجا
پلیز مجھ سے کہو تم نے کچھ نہیں کیا۔۔ وہ اس کا ہاتھ زور سے دبائے بولی آنسو چھلک کر گال پر بہہ گیا
حورین میں۔۔ حادی بولنے کی ہمت جٹا رہا تھا جو شاید وہ کبھی نہ جٹا پاتا
پلیز کہہ دو کہ عریشہ کی موت میں تمہارا کوئی ہاتھ نہیں۔۔ مجھ سے ایک بار کہہ دو میں۔ میں تمہارا یقین کروں گی۔۔وہ کسی بے بس انسان کی طرح التجا کر رہی تھی اور تب حادی نے یہ جان لیا کہ وہ کیا کچھ کھو سکتا ہے
مجھے معاف کر دو حورین ۔۔وہ فوراً بولا
میں تم سے کہہ رہی ہوں مجھ سے معافی مت مانگو بس ایک بار کہہ دو تم نے کچھ نہیں کیا۔۔ تمہیں میری سمجھ نہیں آرہی؟ حورین چلائی
میں کہہ رہی ہوں نا میں تمہارا یقین کروں گی ایک بار کہہ کر تو دیکھو۔۔
میں۔میں مجبور تھا حورین۔۔حورین اسے پتھر کا مجسمہ بنے دیکھنے لگی بالکل چپ ہو گئی وہ جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو یا کسی نے اسے زندگی دے کر مرنے کی بددعا دے دی ہو وہ جو ہاتھ حادی کو تھام کر رکھے تھے وہ بے ساختہ پیچھے ہو گئے حادی نے حورین کے پیچھے ہوتے ہوئے ہاتھ کو دیکھا اور پھر حورین کو اور اس لمحے اسے صرف حورین کے ہاتھ چھوٹتے محسوس نہیں ہوئے بہت کچھ چھوٹتا محسوس ہوا
حورین ۔۔
مجبوری؟۔۔ کسی کو بے دردی سے مار کر تم اسے مجبوری کا نام دے رہے ہو؟۔۔ اس کی آواز اونچی تھی جس میں درد غصہ بے یقینی سب کچھ تھا
حورین میری بات۔۔
نام مت لو میرا سنا تم نے۔۔نام مت لو میرا۔۔ وہ چبا چبا کر بولی
میں تم پر اندھا اعتماد کرتی رہی اور تم نے یقین دلا دیا کہ میں واقعی میں اندھی تھی۔۔جو تمہارا اصل چہرہ نہیں دیکھ سکی۔۔ تم نے بس میرا استعمال کیا تم نے محبت کے نام پر میرا تماشا بنایا ہے حادی ۔۔تم نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی۔۔
ایسا نہیں ہے۔م۔میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں تم ایسے کیسا۔۔
نہیں تھی۔۔ محبت کو ایسے جسٹیفائی کر کے اس کی توہین مت کرو کہ محبت کرنے والوں کا اعتبار ہی اٹھ جائے محبت سے۔۔ وہ چلا کر بولی اس کی باتیں حادی کو ساکت کر گئی تھیں وہ بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا اسے پتا نہیں تھا کہ کبھی اس کی بے غرض اور بے لوس محبت یوں بدنام ہو جائے گی حورین کی آوازیں سن کر عدیلہ اندر آگئی
حورین بچے کیا ہوا ہے؟۔۔وہ حورین کے پاس آئی جو آنکھوں میں سرخی لیے حادی کو دیکھ رہی تھی
تمہیں بہت مزہ آیا ہوگا نا حادی دنیا کے سامنے میرا تماشہ بنا کر؟۔۔۔میں پاگل لوگوں سے کہتی تھی میرا حادی وکیل جیسا بھی ہو وہ اچھا انسان ہے وہ سب کا دل رکھنا جانتا ہے تمہیں تسلی مل گئی مجھے جھوٹا ثابت کر کے؟۔۔ اسے اپنے اندر کچھ چھن سے ٹوٹتا محسوس ہوا تھا اعتبار تھا شاید جو بے حساب کر بیٹھی تھی سامنے بیٹھے شخص پر۔۔ پھر وہ ہنس دی حادی اور عدیلہ اسے دیکھتے رہے
تم۔۔ تب مجھ پر ہنس رہے ہوگے نا جب میں خود کو عریشہ کا قاتل کہہ رہی تھی؟۔۔ہنستے ہوئے اس کی آنکھ میں پھر آنسو آئے اور حادی کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا اس نے کیا ستم ڈھایا تھا حورین پر۔۔حورین کو اچانک سر میں شدید تکلیف کا احساس ہوا اس نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا عدیلہ اور حادی یک دم آگے ہوئے
حورین بیٹا کیا ہوا ہے؟۔۔عدیلہ پریشان ہو گئی
پیچھے رہو مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔۔ ممی اس سے کہیں یہاں سے چلا جائے اسے کہیں میرے پاس سے چلا جائے۔۔ وہ کسی بچے کی طرح سر کو پکڑے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
حادی بیٹا!۔۔ عدیلہ نے التجائی نظروں سے حادی کو دیکھا حادی میں ہمت نہ تھی حورین کو اس طرح دیکھنے کی اور وہ بھی اپنی وجہ سے وہ ضبط کیے منہ موڑ کر چلا گیا کمرے سے باہر نکلا تو اسے سینے پر عجیب سا بوجھ محسوس ہوا تو اس نے بمشکل سینے پر ہاتھ رکھا
کیا ہوا حادی سب ٹھیک ہے؟۔۔ حماد نے اسے دیکھ پریشانی سے پوچھا وہ جواب دیے بنا آگے بڑھ گیا حورین اندر زار و قطار رو رہی تھی جسے عینی اور عدلیہ چپ کرانے کی ناکام کوشش کرتے رہے "اس کے اندر آج کچھ ٹوٹ گیا تھا پھر کبھی نہ جڑنے کے لیے"
حادی سن دماغ اور بے جان قدموں کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہوا ایک جگہ رکا اور اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو چکی تھیں وہ شاید خود کو رونے سے باز رکھے ہوئے تھا۔
"تم ہنستے ہو مجھے بے بس دیکھ کر
تمہارا ہنسنا یار بنتا بھی ہے"
رات کا وقت تھا حماد ڈرائنگ روم میں سر ہاتھوں میں دیئے بیٹھا تھا تب ہی وہاں ماہ جبین آئی
کیا ہوا حماد ایسے کیوں بیٹھے ہو؟۔۔
خسارے میں زندگی گزارنے والے اور کس طرح بیٹھیں گے؟۔۔ اس نے سر نہیں اٹھایا
ہوا کیا ہے میرے بچے؟۔۔ اس نے حماد کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرا حماد نے جھٹکے سے ماہ جبین کا ہاتھ پیچھے کر دیا
کیا مانگا ہے میں نے آج تک آپ سے؟۔۔اس نے سر اٹھایا تو آنکھیں کرب سے سرخ پڑی ہوئی تھیں
حماد ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟۔۔
آپ بچپن سے ایسا ہی کرتی آئی ہیں ممی۔۔ میری ہر پسندیدہ چیز ہر عزیز شخص کو مجھ سے دور کرتی آئی ہیں۔۔ بچپن میں مجھے میرے دوستوں سے دور کر دیا یہ کہہ کر کہ وہ میرے سٹیٹس کے نہیں۔۔ تھوڑا بڑا ہوا تو میرے بابا کو دور کر دیا آپ نے۔۔ اور اب۔۔ اب بس دو ہی لوگ عزیز تھے میری زندگی میں وہ بھی آپ کے جرم کی بھیٹ چڑھ گئے ہیں۔۔اس سے ذیادہ تکلیف کیا ہوگی کہ میرے جان سے عزیز دوست آپ کی وجہ سے الگ ہونے کے در پہ ہیں میں ان سے کیسے نظر ملاؤں گا ممی؟۔۔وہ درد سے بولتا گیا اور ماہ جبین کا دل تڑپتا گیا۔
میں نے ایسا کیا کر دیا میری جان ۔۔ جو تم مجھے اس چیز کا ذمہ دار ٹھہرایا رہے ہو؟۔۔
کیوں گئیں آپ حادی کے پاس وہ کیسں لے کر۔۔ کیوں اسے اس دلدل میں ڈالا آپ نے؟۔۔
میں نے تو بس اس سے کام کروایا تھا۔۔ کسی کی جان لینے کو تو نہیں کہا جو تم مجھے اتنی کڑوی باتیں سنا رہے ہو۔۔۔
بس کریں ممی۔۔ حادی جو کسی چیونٹی کو نہ مارے اس نے ایک جیتی جاگتی لڑکی کو مار دیا؟۔۔میں مان ہی نہیں سکتا۔۔ وہ سر جھٹکتا ہوا بولا
تو مان لو میری جان کہ ایسا ہی ہے۔۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی
میں جیسے جانتا نہیں نا۔۔
وہی تو کہہ رہی ہوں حماد تم نہیں جانتے۔۔تم ہر انسان کو نہیں جان سکتے کہ وہ اندر سے کیسا ہے باہر سے کیسا۔۔
پلیز ممی بس کریں مجھے آپ کے جھوٹ سے کوئی غرض نہیں۔۔ وہ اٹھ کر غصے سے کہتا چلے گیا
اور یہی وہ سچ ہے جو تمہیں بہت کچھ دے گا۔۔ وہ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ بولی
دوپہر کے وقت حادی سٹڈی روم میں بیٹھا کسی سوچ میں مبتلا تھا حورین کو ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوئے دو دن ہو چکے تھے لیکن حادی اس سے ایک بار بھی ملنے نہیں گیا تھا اس کا سامنا کرنے کی ہمت حادی میں نہیں تھی۔۔ گہری سوچ سے نکلنے کے بعد اس نے اپنی آنکھوں کو ملا اور گہری سانس لے کر کھڑا ہوا تب ہی فون کی رنگ ہوئی اس نے ٹیبل سے فون اٹھایا
السلام علیکم!۔۔ ہاں میں بس آرہا ہوں تم باقی سب سنبھال لو۔۔ وہ فون بند کرتا باہر نکل آیا سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ ملازم کو اپنے کمرے سے بیگ پکڑے نکلتے دیکھا
یہ کہاں لے کر جا رہے ہو؟۔۔
وہ حادی صاحب۔۔ باہر بیگم صاحبہ آئی ہیں اپنا ضروری سامان منگوایا ہے انہوں نے۔ ۔ حادی اس کی بات پر جلدی سے ڈرائنگ روم سے باہر نکلا حورین گاڑی میں بیک سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور سر پر بینڈج لگی تھی گھر کا دروازہ کھلا اور حادی باہر نکلتا نظر آیا حورین نے نظریں پھیر لیں
حورین تم یہ سامان لے کر کہاں جا رہی ہو؟۔۔ ونڈو سے جھانکتے ہوئے بولا
اپنے گھر لے کر جا رہی ہوں۔۔ حورین سرد لہجے میں بولی
اپنے گھر؟۔۔حورین تمہارا گھر یہ ہے ۔۔
یہ تمہارا گھر ہے اور میں اپنے گھر جا رہی ہوں۔۔ اپنے گھر پر زور دیتے ہوئے بولی
حورین دیکھو تم مجھ سے ناراض ہو تو میں تمہیں منا لوں گا۔مجھ پر غصہ ہو تو غصہ نکال لو میں سن لوں گا۔ مجھے برا بھلا کہنا چاہو کہہ لو جو دل میں آئے کہہ دو۔۔مگر پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ اس نے درد بھرے لہجے میں التجا کی
تمہارے ساتھ گزارا ہر لمحہ صرف جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا میں اور جھوٹ کی زندگی نہیں جینا چاہتی اس لیے تمہیں تمہاری زندگی مبارک ہو۔۔
حورین پلیز۔۔تم مجھے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہو؟۔ میں کیسے رہوں گا تمہارے بغیر؟۔۔ وہ چاہتا تھا حورین کسی طرح رک جائے
بالکل ویسے ہی جیسے میں رہوں گی تمہارے بغیر ۔۔حورین نے خالی آنکھوں سے اسے دیکھا حادی کو اپنا جسم ٹھنڈا پڑتا محسوس ہوا اس کو پہلی بار ان آنکھوں میں اپنے لیے کہیں بھی محبت دکھائی نہیں دے رہی تھی وہ آنکھیں ہر احساس سے خالی تھیں
چلو ڈرائیور۔۔۔
حورین!!۔۔گاڑی چلی گئی اور وہ اسے پکارتا رہ گیا
حورین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو عدیلہ کی نظر حورین کے سامان پر پڑی
حورین یہ سب کیا ہے؟۔۔
میرا سامان۔۔ جائیں آپ یہ میرے کمرے میں رکھ دیں۔۔۔ماں کو بتا کر اس نے ملازم کو سامان اوپر رکھنے کا بولا
لیکن تم یہاں کیوں لائی ہو؟۔۔
اپنا سامان گھر نہیں لاؤں گی تو اور کہاں لے کر جاؤں گی؟۔۔ عینی صوفے پر بیٹھی انہیں ہی دیکھ رہی تھی
گھر؟۔۔بچے حادی کا گھر تمہارا اصل گھر ہے۔۔ عدیلہ نے نرمی سے کہا
نہیں ہے اب۔۔۔ حورین سخت لہجے میں بولی
دیکھو حورین تم جلد بازی میں کچھ ایسا ویسا مت کر بیٹھنا عقل سے کام لو۔۔
ابھی ابھی ہی تو آئی ہے عقل ممی اب ہی تو عقل سے کام لینے لگی ہوں۔۔
حورین جذباتی فیصلے اکثر گھاٹے کا سودا ہوا کرتے ہیں خسارے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔۔۔
جو ہو گیا ہے ممی اس سے بڑا خسارہ اب کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔۔وہ ہاتھوں سے بالوں کے پیچھے کرتی صوفے پر بیٹھ گئی
میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر سکتی ہوں۔۔ لیکن سمجھ تمہیں شاید وقت پر ہی آئے۔۔عدیلہ اسے کچھ بھی خاطر میں نہ لاتے دیکھ کہہ کر چلی گئی
مجھے معاف کر دیں حور آپی۔۔میری دعا آپ کو بد دعا بن کر لگ گئی ہے۔۔ عینی غمگین ہو کر بولی
انسان خود کو اپنے ہاتھوں اجاڑ کر اسے دوسروں کی نظر یا بددعاؤں کا نام دے دیتا ہے۔۔ وہ سر ہاتھ میں پکڑے بولی
آپ حادی بھیا کے بغیر نہیں رہ سکتیں حور آپی آپ اپنا خیال نہیں رکھ سکتیں۔۔
خیال کی پرواہ کسے ہے اب عینی؟۔۔ وہ مجھ سے محبت نہ کرتا۔میرا اتنا خیال نہ رکھتا میری اتنی پرواہ بھی نہ کرتا۔۔لیکن اسے میرا اعتبار نہیں توڑنا چاہیے تھا۔نہیں توڑنا چاہیے تھا۔۔وہ کہتے اپنے منہ کو دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔
آج کا دن:
شام کا وقت تھا حورین ابھی کورٹ سے آئی تھی اور فریش ہونے چلی گئی عینی ڈرائنگ روم میں بیٹھی موبائل میں مصروف تھی کچھ دیر بعد حورین سیڑھیاں اترتی نظر آئی
میرے کمرے میں کون گیا تھا؟۔۔ وہ غصے میں بولی
کیا ہوا حور آپی؟۔۔ عینی اسے غصے میں دیکھ حیران ہوئی
میرے کمرے میں کون گیا تھا؟۔۔
چھوٹی بی بی میں۔میں گئی تھی۔۔ملازمہ نے جھجکتے ہوئے بتایا
کیا کرنے گئی تھی؟۔۔
صفائی۔جی صفائی کرنے گئی تھی۔۔
کیا ہوا حورین غصہ کیوں کر رہی ہو؟۔۔ عدیلہ نے کچن سے نکلتے ہوئے پوچھا
کتنی بار کہا ہے میرے کمرے میں کسی کو مت آنے دیا کریں میرا سارا سامان اپنی جگہ سے ہلا ہوا ہے۔۔وہ غصے میں بولی
بیٹا آگے بھی تو وہ صفائی کرتی ہے آج نیا کیا ہو گیا؟۔۔ عدیلہ کو تو اس کا غصہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا
تو اب کوئی آگے سے جب تک کچھ بولے نا خود کسی کو خیال نہیں آنا؟۔۔میں بتا رہی ہوں آئندہ میرے کمرے میں کوئی ملازمہ نہ آئے۔۔
م۔معافی چھوٹی بی بی۔۔ ملازمہ اس کے غصے سے بری طرح ڈر گئی اور حورین جیسے غصے پر سوار آئی تھی اسی طرح واپس چلی گئی
اسے ہو کیا گیا ہے پہلے تو کبھی اس نے غصہ نہیں کیا اس طرح۔۔عدیلہ پریشان ہو کر بولی
ممی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے اندر کے شور کو خاموش کرنے کے لیے باہر طوفان برپا کرنا پڑتا ہے۔وہ بھی یہی کر رہی ہیں۔ عینی نے کہا
اللہ جانے ساری زندگی اس شور کے ساتھ کیسے رہے گی یہ۔۔عدیلہ افسوس کرتی دوبارہ کچن میں چلی گئی
حماد نے کمرے کا دروازہ کھولا تو کمرے کی حالت دیکھ اس کا سر چکرا گیا کمرے کی ہر چیز بکھری پڑی تھی اور دھوئیں سے بھرا ہوا تھا جس کے باعث وہ کھانسا پھر نظر حادی پر پڑی جو بستر پر اوندھے منہ پڑا ہوا تھا حماد اس کی طرف بڑھا
حادی۔۔اسے آواز دی مگر کوئی حرکت نہ ہوئی
حادی!۔۔ پھر پکارا وہ ہلا بھی نہیں
حادی اٹھ جا۔۔ حماد نے اسے کندھے سے جھنجوڑا
سونے دے۔۔حادی کی بھاری آواز آئی
تجھے ابھی بھی سونا ہے؟۔۔اس نے حیرت سے پوچھا
ہاں۔۔
تجھے نیند کیسے آ سکتی ہے؟۔۔ اور یہ کمرے کا کیا حال کر رکھا ہے؟۔۔حماد نے اِرد گرد نظر گھمائی
ہاں اس یقین میں سوتا جا رہا ہوں کہ کوئی تو ایسا وقت ہوگا کہ میری آنکھ نہ کھلے اور اس کمرے سے زیادہ برا حال تو وہ میرے دل کا کر کے چلی گئی ہے۔۔حادی کی بات پر حماد ساکت اسے دیکھتا رہ گیا اور اس کے دل نے کہا "مطلب حورین واقعی حادی کی جان لینے کی صلاحیت رکھتی ہے" پھر نظر ساتھ پڑے ایش ٹرے پر گئی جہاں وہ سگریٹ کی کتنی ڈبیاں سلگا چکا تھا گہری سانس بھر کے اس کے ساتھ بیٹھ گیا
اٹھ جا حادی موت اتنی رحم دل نہیں کہ جب مانگو تمہیں آ لپٹے۔۔ "اس نے بھی تو اتنی بار مانگی تھی لیکن کہاں آئی تھی"
حماد تو میرا دوست ہے تجھے ایک اچھی ایڈوائز دوں؟۔۔ وہ اوندھے منہ لیٹے ہی بول رہا تھا جیسے اس کا جسم ہلنے سے انکاری ہو
پیسے نہ لگیں تو دے دے۔۔
زندگی میں سب کچھ کریں۔ جو جی میں آئے کریں لیکن کبھی بھی کسی سے محبت نہ کریں۔کبھی نہ کریں جب بھی محبت کا دل ہو تو مجھے مثال کی طرح یاد کر لینا کہ محبت کسی کی جان تو نہیں لیتی مگر کسی کو زندہ چھوڑتی بھی نہیں ۔۔ اس کی بھاری آواز میں لرزش تھی اور اس کی بات پر حماد کا دل کانپ کر رہ گیا "بہت دیر ہو چکی اب تو بہت دیر" اور اسے اس وقت حورین کسی ظالم سے کم نہیں لگی جس نے دو لڑکوں کے دلوں کو عذاب میں ڈال دیا تھا۔
اور اسی عذاب میں دو ہفتے گزر گئے دوپہر کے وقت حورین کورٹ میں کسی میٹنگ کے لیے جا رہی تھی اور اس میٹنگ میں دوسرے ماہر وکیل بھی شامل تھے جن میں حادی بھی تھا
اوہ مس حورین آپ ؟۔۔وقار حورین کو دیکھ حیران ہوا
جی میں۔۔
میرا مطلب آپ یہاں کیسے؟۔۔ اس نے دانت نکالتے ہوئے پوچھا
جس طرح آپ لوگ یہاں ہیں میں بھی ویسے ہی ہوں۔۔حورین آبرو اچکائے بولی
بڑی تیزی پکڑ رہی ہیں آپ۔۔
جی آپ جیسے وکیلوں تک پہنچنے کے لیے پکڑنی پڑی۔۔
آپ سب کو اندر بلایا جا رہا ہے۔۔ ایک شخص نے اطلاع دی
لیڈیز فرسٹ۔۔ وقار نے ہاتھ سے آگے کا اشارہ کیا
سب کمرے میں اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے حورین کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں اور باقی مرد تھے حادی اور حورین میں دو لوگوں کا فاصلہ تھا یہ میٹنگ ان وکیلوں کے لیے ہوئی تھی جو اپنے کام اصولوں سے کرتے تھے اور کچھ بھی کرنے سے نہ گھبراتے جیسے کہ حادی ۔
تو آپ سب جانتے ہی ہیں یہ کیس ہمیں ہر حال میں لڑنا ہے میں جانتا ہوں کہ اس کیس کے جیتنے کے چانسز بہت کم ہیں اس لیے آپ سب کو یہاں بلایا گیا ہے تاکہ آپ سب اپنی رائے ظاہر کریں۔۔ اس سے پہلے مجھے پتہ چلا ہے کہ ہمارے بیچ باہر کی وکیل آئی ہیں۔۔اس نے حورین کی طرف دیکھا
آپ کا نام؟۔۔
حورین۔۔حورین اورنگزیب ۔۔حورین نے لب کاٹتے ہوئے اپنا نام بتایا اور دوسری طرف حادی کو دل میں کچھ چبتا محسوس ہوا وہ اب کبھی اس کے نام سے نہیں جانی جائے گی
تو آپ کا یہاں آنے کو ارادہ کیسے ہوا؟۔۔
ایماندار رہتے رہتے تھک گئی ہوں تو سوچا یہ کام بھی آزما لوں اور دیکھوں کہ اس میں ایسا کیا ہے جو لوگوں کو اپنا سب کچھ بھلا دیتا ہے۔۔وہ سرد لہجے میں بولی حادی نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا
بالکل اچھا فیصلہ کیا آپ نے کیونکہ اس دور میں کسی کو بھی ایماندار وکیل کی ضرورت نہیں۔۔ حورین اس کی بات پر لب پھینچ کر بیٹھ گئی
شام کے وقت حورین میٹنگ سے فارغ ہو کر گھر آگئی گاڑی پورچ میں کھڑی کی تو لان میں عینی بیٹھی نظر آئی کوٹ بازو پر ڈالے لان کی طرف بڑھ گئی
یہاں کیا کر رہی ہو ؟۔۔
ہاں؟۔ عینی نے چونک کر دیکھا
کچھ نہیں ایسے ہی۔۔اس نے گہری سانس بھری
کچھ تو کر رہی ہو ۔۔حورین اس کے ساتھ بیٹھ گئی
نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔۔
اداس کیوں لگ رہی ہو؟۔۔ حورین نے اس کا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے پوچھا
اداس تو نہیں ہوں۔۔ عینی نے آبرو اچکائی
تو پھر؟۔۔
بے بس ہوں اداس شخص تو پھر بھی رو لیتا ہے لیکن بے بس شخص تو رو بھی نہیں سکتا۔۔
اور بے بس کیوں ہو؟۔۔
کسی چیز کے نہ ملنے کی اذیت جانتی ہیں آپ ؟۔۔حورین عینی کے سوال پر اسے دیکھتی رہی پھر مسکرا دی
تم کسی چیز کے ملنے کے بعد اسے کھو دینے کی اذیت جانتی ہو؟۔۔عینی نے آبرو اٹھا کر حورین کو دیکھا جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی پھر لب کاٹتی نظریں جھکا گئی
ویسے کون سی چیز نہیں ملی تمہیں؟۔۔ حورین آگے کو جھکی اور تجسس بھرے انداز میں پوچھا
وہی جس کو مانگتے ایک عرصہ گزر گیا ہے اپنی محبوب چیز مانگنے کے لیے میں نے اللہ کو اس کے محبوب کا واسطہ بھی دے دیا ہر طرح کے وسیلے آزما لیے لیکن لگتا ہے اللہ کو میرا مانگنا زیادہ ہی پسند آگیا ہے۔۔ وہ منہ بسورتی ہوئی بولی عینی کی بات پر حورین ہنس دی
تم اللہ سے مانگنے کے لیے وسیلے کیوں تلاش کر رہی ہو؟۔۔
مطلب؟۔۔ عینی نے اسے دیکھا
مطلب کہ اللہ تمہارے قریب ہے تمہاری شاہ رگ سے بھی قریب تو تمہیں کسی اور کے ذریعے مانگنے کی کیا ضرورت؟۔۔کسی اور کے ذریعے تو تب مانگو جب دینے والا تمہاری پہنچ سے دور ہو اور اللہ تو کہتا ہے " وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ" عینی اسے دیکھتی رہی
اور جب تمہیں لگے کہ دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہو رہی عینی تو صبر و شکر سے کام لو اور اس پر صبر مانگ لو اللہ سے۔۔
نہیں۔۔ عینی فوراً بولی
صبر نہیں مانگ سکتی ہر کسی کے دل کو صبر قبول نہیں ہوتا۔۔ آپ تھک گئی ہوں گی فریش ہو جائیں۔۔ وہ کہتی ہوئی جلدی سے اٹھ کر چلی گئی اور حورین اسے حیرت سے جاتی دیکھتی رہی
رات کافی گہری ہو چکی تھی حورین ڈنر کر کے سو گئی ابھی وہ نیند کی وادیوں میں تھی کہ اس کے موبائل کی رنگ ہوئی کافی دیر رنگ ہوتی رہی حورین نے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا تو موبائل ہاتھ میں آیا اس نے نیند میں ہی فون کان سے لگایا
ہیلو کون؟۔۔مد ہوش آواز میں پوچھا
مسز عبدالحادی بات کر رہی ہیں؟۔۔دوسری طرف سے لڑکی کی آواز آئی
نہیں۔۔ آپ کون؟۔۔حورین نے پھر پوچھا
میں عریشہ نوریز بات کر رہی ہوں مجھے مِس حورین سے بات کرنی ہے۔۔ حورین فوراً اٹھ بیٹھی
ک۔کون بات کر رہی ہیں؟۔۔اسے لگا اس نے کچھ غلط سن لیا
عریشہ نوریز۔۔ حورین کو اپنی دنیا ہلتی محسوس ہوئی
ت۔تم ٹھیک ہو؟۔تم تو۔۔
جی میں بالکل ٹھیک ہوں اور زندہ ہوں۔۔۔
تم کہاں ہو اور وہ ہاسپٹل میں۔میں نے تمہاری ڈیڈ باڈی دیکھی۔۔وہ سب کیا تھا؟۔۔۔ حورین نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا
میں یونان میں ہوں اور جو آپ نے ڈیڈ باڈی دیکھی تھی وہ میری نہیں تھی ۔۔
تم مجھے سمجھاؤ گی یہ سب کیا ہے؟۔۔ حورین کو اس کی کچھ سمجھ نہ آئی
جی آپ کے ہسبینڈ مسٹر حادی ہمارے پاس آئے تھے ہم سے ملنے اور انہوں نے ہمیں سب کچھ بتا دیا کہ انہیں مجھے مارنے کا آرڈر دیا گیا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کی وائف کی جان کو خطرہ ہے پہلے تو میں ڈر گئی کہ شاید وہ مجھے مارنے آئے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ مجھے اور میرے بابا کو صحیح سلامت دوسرے ملک بھیجنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ سب کو یہی پتہ چلے کہ عریشہ نوریز نہیں رہی۔۔ مجھے پہلے ہی فلائٹ سے یونان بھیج دیا گیا تھا انہوں نے یہ سب ایک رات میں کیا تھا اور ڈیڈ باڈی کسی اور کی تھی جو شاید میری ہی عمر کی ہو بابا کو اس کے لیے وہاں رکنا پڑا تھا اور کچھ دنوں بعد وہ بھی میرے پاس آگئے۔۔آپ کے ہسبینڈ نے ہمارے سارے اخراجات اٹھائے اور مجھے اچھے کالج میں داخلہ بھی کروایا وہ یہ آج تک کرتے آرہے ہیں لیکن ان سب میں ہم سے ایک غلطی ہو گئی۔۔
وہ۔وہ کیا؟۔۔حورین بمشکل بولی
میرے بابا نے آپ کو بتانے سے روک دیا تھا مسٹر حادی کو کہ کہیں آپ کا ذرا سا اطمینان بھی دشمنوں کو شک میں نہ ڈال دے وہ مجبور باپ تھے انہوں نے وعدہ لے لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے آپ کو نہیں بتائیں گے اور پھر مسٹر حادی نے بے بس باپ کے ہاتھوں بے بس ہو کر وعدہ کر لیا مجھے معاف کر دیں کہ ہم آپ کو نہیں بتا سکے۔۔ حورین کو لگا کہ وہ اب اگلا سانس کبھی نہیں لے سکے گی
آپ بہت خوش قسمت ہیں مِس حورین کہ آپ کو خود پر دنیا و جان لٹانے والا شخص ملا ہے۔۔ وہ کیا بتاتی عریشہ کو کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی خوش قسمتی کو بدقسمت کر گئی ہے اس نے فون رکھ دیا اور سر دونوں ہاتھوں میں دے دیا
یہ میں نے کیا کر دیا۔۔میرے اللہ یہ میں نے کیا کر دیا ۔۔۔وہ کسی شکستہ انسان کی طرح روتی چلی گئی جو ہر جوا اس آس پر لگاتا ہے کہ اگلی بازی وہی جیتے گا لیکن اپنا سب کچھ ہار کر وہ خالی ہاتھ رہ جائے تو بالکل حورین کی طرح ہوتا ہے۔
صبح کے وقت سورج سر پر تھا عینی کچن سے پانی کا گلاس تھامے نکل رہی تھی
عینی تھوڑے سے برتن ہی دھو دو ذرا خیال نہیں کہ ماں کا ہاتھ بٹا لوں۔۔ کہ عدیلہ کی آواز آئی اور عینی تو ایسے آگے بڑھی کہ کچھ سنا ہی نہ ہو
حور آپی۔۔ کہیں جا رہی ہیں؟۔۔حورین کو سیڑھیوں اترتے دیکھا
ہاں کچھ کام ہے۔۔وہ جامنی فراک اور پجامے میں ملبوس تھی اور بالوں کی پونی تھی
آپ ٹھیک تو ہیں؟۔ ٹھیک سے سوئی نہیں کیا؟۔ عینی نے آنکھیں سکیڑ کر حورین کی آنکھوں کے گرد ہلکے پڑے دیکھے بس ہلکے ہی دیکھ سکی اس کے اندر کیا کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا وہ کہاں دیکھ سکتی تھی
کچھ نہیں عینی مجھے کام ہے۔۔حورین کہتی پلٹ گئی
ارے اب پتا نہیں انہیں کیا ہو گیا ہے؟۔۔ وہ کندھے اچکاتی صوفے پر بیٹھ گئی
حورین آفس میں داخل ہوئی تو حادی کو جج سے بات کرتے پا کر ان کے پاس آئی
مس حورین آپ آگئیں؟۔۔
جی سوری مجھے دیر ہو گئی۔۔ حورین نے ایک نظر حادی پر ڈالی جو سنجیدہ سا جج کی طرف ہی رخ کیے کھڑا تھا
کوئی بات نہیں مسٹر حادی کا جو کیس تھا وہ اب آپ کو ہینڈل کرنا ہے تو یہ ساری اہم معلومات آپ کو دے دیں گے۔۔
لیکن میں کیسے؟۔۔ وہ حیران ہوئی
جیسے آپ کرتی ہیں اسی طرح باقی آپ لوگ ڈسکس کر لیں یا آپ مسٹر حادی سے کچھ ٹپس لے لیں۔۔ مجھے کام ہے میں اب چلتا ہوں ۔۔ جج خود کو ایکسکیوز کرتا چلا گیا حادی بھی جوں کا توں مڑ کر باہر کی طرف بڑھا حورین اس کے پیچھے چل دی
حادی تم کیس کیوں نہیں۔۔وہ کچھ حادی سے بولتی کہ حادی کے تیز قدم اسے پیچھے چھوڑ کر آگے چلے گئے۔۔" تو وہ اب اس کی سننا تو دور اس کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا " یہ جان لینے پر حورین کو اپنے دل پر ہاتھ پڑتا محسوس ہوا اور وہ اسے پہلی بار خود سے دور جاتا دیکھ رہی تھی تو اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اس کا سب کچھ لے کر جا رہا ہے اور وہ وہاں خالی ہاتھ کھڑی رہ گئی۔۔
ماہ جبین آفس کی کرسی پر بیٹھی بالوں کا جوڑا کیے دو لٹ چہرے کو چھو رہی تھیں سرخ لپسٹک اور کرسٹل کا نیکلس پہنے وہ کسی سلطنت کی ملکہ لگ رہی تھی اور اس کے سامنے ہی ولید بشر بیٹھا تھا
تم کبھی اتنی دیر کسی وکیل کو نہیں رکھتی بلکہ مجھ سے جلدی تمہیں ہوتی ہے انہیں ٹھکانے لگانے کی۔۔ تو حادی کی باری اتنا انتظار کیوں کر رہی ہو؟۔۔ اگر اس نے ہمارے خلاف چال چل دی تو ہم کیا کریں گے؟۔۔ وہ کچھ پریشان نظر آرہا تھا
تم ٹھیک کہتے ہو میں نے اس پر رحم کیا تھا اپنے بیٹے کا دوست سمجھ کر اور اب تو اس کے پاس کچھ نہیں ہے کھونے کے لیے اس کی محبت اس کی بیوی تو اسے چھوڑ گئی ہے۔۔ اور جس شخص کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو تو وہ اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرے گا ۔۔ماہ جبین تیکھی مسکراہٹ لیے بولی
تو اب کیا کرنا چاہیے؟۔۔
جو ہم کرتے آئے ہیں۔۔ ماہ جبین نے کرسی سے ٹیک لگا لی
تو میں لگاؤں اپنے خاص بندوں کو کام پر؟۔۔ ولید بشر مسکراہٹ لیے آگے کو جھکا
دوپہر کا وقت ہو چکا تھا حادی آفس میں بیٹھا کچھ فائلز ڈرار سے نکال رہا تھا اور سامنے کرسی پر حماد بیٹھا موبائل میں مصروف تھا کچھ دیر بعد سیکرٹری اندر آئی
سر آپ نے مجھے بلایا؟۔۔
ہاں یہ۔۔ حادی فائلز کو چیک کر رہا تھا
یہ سب مِس حورین کو انفارم کر کے کل انہیں دے دیں۔۔ اس نے فائلز سمیٹ کر سیکرٹری کی طرف بڑھائیں حماد نے نظریں اٹھا کر حادی کو دیکھا
جی سر۔۔ وہ فائلز تھامے آفس سے چلی گئی
جس کے علاوہ تم کسی اور کو دیکھنا نہیں چاہتے تھے آج اسے بھی دیکھنے سے انکاری ہو؟۔۔ حماد نے موبائل میں ہی دیکھتے ہوئے پوچھا
کیا مطلب؟۔ حادی نے آبرو اٹھائی
مطلب کہ۔۔ وہ موبائل رکھتا ہوا سیدھا ہوا
تمہیں لگتا ہے اس نے جو کیا وہ ٹھیک تھا؟۔۔
ہاں میں یہ سب ڈیزرو کرتا تھا آخر میرے جرم بھی تو بہت بڑے تھے جس کے بدلے میں اس نے مجھے سزائے موت بس سنائی ہی نہیں بلکہ دے بھی دی۔۔۔حادی نے کرسی سے ٹیک لگا لی
سزائے موت؟۔۔ وہ جانتی ہے یہ سزا تمہارے لیے کسی سزائے موت سے کم نہیں تھی؟۔۔
وہ سب جانتی ہے۔۔ میں اسے بتا چکا تھا اس کے بچھڑنے سے میں بن موت مارا جاؤں گا۔۔ اور اس نے وقت نہیں لیا میری جان لینے میں اور تم کہتے ہو میں اسے دیکھنے سے انکاری ہوں؟۔۔ میں اسے ایک بار دیکھ لوں گا نا حماد تو مجھے یقین آ جائے گا کہ میں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے مجھے یقین آ جائے گا کہ حورین عبدالحادی جس نام پر میں غرور کرتا نہیں تھکتا تھا وہ حورین اورنگزیب ہو گئی ہے۔۔مجھے یقین آ جائے گا وہ میری زندگی سے چلی گئی ہے کبھی نہ آئے کے لیے۔۔ حادی نے تکلیف سے اپنی آنکھیں میچ لیں اور حماد گہری سانس لے کر اٹھ گیا
رات میں ملتے ہیں میں چلتا ہوں۔۔
حماد پینٹ کی جیب سے گاڑی کی چابی نکالتے ہوئے آفس سے باہر نکل رہا تھا چابیاں نکال کے سامنے دیکھا تو گاڑی کے پاس کسی کو کھڑے دیکھ وہ بت بن گیا چہرہ بالکل سپاٹ ہو گیا
گلے نہیں ملو گے میرے بچے؟۔۔وہ شخص آگے بڑھا تو حماد کے قدم پیچھے چل دیے
آ۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟۔۔وہ حیرت میں گھِرا تھا
اپنے بیٹے سے ملنے آیا ہوں اور کیا کرنے آؤں گا؟۔۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ بولے
آپ کی اطلاع کے لیے میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔کہ یہاں آپ کا کوئی بیٹا نہیں۔۔ حماد تھوڑا سنبھلتے ہوئے تلخی سے بولا
ایسے تو نہ کہو حماد۔میں۔میں مجبور تھا تم جانتے ہو۔۔
مجبور؟۔۔حماد بے یقینی سے بولا
ہاں مجبور۔۔ شفیع نے سر جھکا لیا
کوئی باپ اتنا مجبور کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنی اولاد کو چھوڑ کر چلا جائے؟۔۔ وہ حلق کے بل چلایا تھا
میں۔مجھے معاف کر دو حماد تمہاری ماں کے کاموں سے تنگ آگیا تھا اس کے ساتھ رہنا عذاب تھا۔۔وہ افسردگی سے بولے
میری ممی کی غلطیوں کی سزا مجھے کیوں دی؟۔ مجھے کیوں باپ کی محبت سے محروم رکھا آپ نے؟۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اب۔ جو باپ کو دیکھ رک نہ سکے
وہ تمہیں کسی حال میں مجھے نہیں دے سکتی تھی اور میں ایک ماں پر یہ ظلم کر بھی نہیں سکتا تھا ل۔لیکن میں تمہارا مجرم ہوں۔م۔معاف کر دو ایک۔ایک بار میرے گلے لگ جاؤ مجھے خود کو جی بھر کر محسوس کرنے دو۔۔۔وہ بے بسی کے ساتھ بازو پھیلائے کھڑے تھے حماد کچھ دیر انہیں یوہی دیکھتا رہا پھر اس نے پہلا قدم اپنے باپ کی طرف بڑھایا "وہ کتنا ترسا تھا ان کی پناہ میں آنے کے لیے وہ کتنا ترپا تھا اپنے بابا کو بلانے کے لیے" وہ باپ کے گلے لگ گیا شفیع نے اسے جی بھر کر محسوس کیا اور حماد بھی اپنے باپ کی آغوش میں کچھ دیر سکون حاصل کرنے کے بعد پیچھے ہٹا تو شفیع نے اس کا بغور جائزہ لیا
یہ کیا حال کیا ہے ہوا ہے تم نے اپنا کیا ہوا ہے تمہیں؟۔۔۔ وہ اس کے بجھی صورت اور صحت دیکھ بولے
جو ایک بار چھوڑ کر چلا جائے۔ اسے پلٹ کر پیچھے رہ جانے والوں کی خبر رکھنے کا حق نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا اور اگر زندہ ہے تو کس حال میں زندہ ہے۔۔کیونکہ وہ مر کر بھی چھوڑ کر جانے والے کو اپنا حالِ دل نہیں سنائے گا۔۔
میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ہے کتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگا ہے۔۔ شفیع نے حماد کے کندھے کو تھپکایا
جو باپ اپنی اولاد کو دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ جائے وہ اولاد وقت سے پہلے بڑی ہو جاتی ہے۔۔ حماد کے لہجے کی تلخی محسوس کرتے شفیع نے سرد آہ بھری۔
رات کو حورین کافی دیر سے گھر آئی تھی وہ ابھی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی کہ اس کے فون کی رنگ ہوئی بیگ سے موبائل نکال کر کان سے لگایا
ہیلو مِس حورین بات کر رہی ہیں؟۔۔
جی آپ کون؟۔۔
میں مسٹر حادی کی سیکرٹری بات کر رہی ہوں انہوں نے مجھے آپ کو کچھ امپورٹنٹ ڈاکومنٹ دینے کو کہا ہے آپ کل ریسپشن سے پک کر لیں گی؟۔۔
ج۔جی میں کر لوں گی تھینک یو۔۔حورین موبائل کو دیکھتی رہی "تم نے ہی سب ختم کیا ہے حورین تو رو کیوں رہی ہو اس نے خود پر ہی طنز کیا تھا"
جمشید اور عینی کمرے سے باہر نکلے
حور آپی اتنی دیر سے آئی ہیں آپ ہم کب سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ حورین نے چونک کر دیکھا
ہاں کچھ مصروف تھی۔۔۔
آئیں میں اور دادا ابو باتیں کر رہے تھے آپ بھی ہمیں جوائن کر لیں۔۔جمشید کی وہیل چیئر چلاتے ہوئے صوفے تک آئی
نہیں میں تھکی ہوئی ہوں آرام کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ وہ کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی عینی حیرت سے اسے دیکھتی رہی
بھئی مجھے جس کے لیے کمرے سے نکال کر لائی ہو دینے کا ارادہ بھی ہے یا نہیں؟۔۔جمشید نے عینی کو دیکھتے پوچھا
ارے نہیں دادا ابو بس دو منٹ میں آپ کی چائے بنا کر لاتی ہوں۔۔۔عینی چٹکی مارتی کہہ کر کچن کی طرف بڑھ گئی
فجر کے وقت عینی نماز پڑھنے کے بعد قرآن کھولے بیٹھی تھی اور سورہ مزمل کی آخری آیات پڑھ رہی تھی
"بے شک آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ نماز میں قیام کرتے ہیں کبھی دو تہائی رات کے قریب کبھی نصف رات اور کبھی تنہائی رات اور ایک جماعت ان سے جو کہ آاپ کے ساتھ ہیں وہ بھی (یوں ہی قیام کرتے ہیں); اور اللہ تعالی ہی چھوٹا بڑا کرتا ہے رات اور دن کو وہ بھی جانتا ہے کہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی پس تم اتنا قرآن پڑھ لیا کرو جتنا تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو ؛ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم میں سے کچھ بیمار ہوں گے اور کچھ سفر کرتے ہوں گے زمین میں؛ تلاش کر رہے ہوں گے اللہ کے فضل (رزق حلال) کو اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوں گے تو پڑھ لیا کرو قرآن سے جتنا آسان ہو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہا کرو اور جو نیکی تم آگے بھیجو گے اپنے لیے تو اسے اللہ کے پاس موجود پاؤ گے یہی بہتر ہے ( اور اس کا ) اجر بہت بڑا ہوگا ؛ اور مغفرت طلب کیا کرو اللہ سے بے شک اللہ تعالی غفور الرحیم ہے" اس نے قرآن بند کیا اور اپنی جگہ پر رکھ دیا اتنے میں فون کی رنگ ہوئی
اس وقت کون ہے۔۔وہ سوچتے ہوئے موبائل کی طرف بڑھی اور موبائل کی سکرین پر ابھرتے نام کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی حماد کی کال تھی اس نے فوراً موبائل کان سے لگایا
السلام علیکم!
وعلیکم السلام کیسی ہو عینی؟۔۔دوسری طرف سے مدھم آواز آئی
میں تو ٹھیک ہوں آپ بتائیں سب خیریت ہے؟۔۔ وہ اس وقت فون کرنے پر پریشان ہوئی تھی
ہاں سوری تمہیں ڈسٹرب کر دیا۔۔
ارے نہیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی اب بتا دیں وجہ جس کے لیے فون کیا آپ نے۔۔
اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کو کوئی میسر نہیں تھا تو سوچا تمہیں ہی کر لوں۔۔
یہ تو آپ اب اپنے دوستوں سے بے وفائی کر رہے ہیں۔کدھر ہیں آپ کے دو عزیز دوست؟۔ عینی مسکرائی
اسی کا تو ڈر ہے کہ وہ دونوں عزیز دوست ہیں اپنا درد بتاؤں گا تو وہ درد کی وجہ جانے بغیر سکون نہیں کریں گے اور انہیں وجہ تو میں بتانے سے رہا ۔۔
تو پھر کر لیں اپنا دل ہلکا میرے پاس ابھی بہت جگہ ہے غموں کو رکھنے کی۔۔۔
تم نے بھی غم پالے ہیں؟۔۔
ہر اس شخص نے غم پالے ہیں جس نے اپنا کچھ نا کچھ کسی اور کے حوالے کر دیا ہو۔۔
تم نے کیا حوالے کر دیا کسی اور کے؟۔۔حماد کے سوال پر عینی نے گہری سانس بھری
مجھے اپنا دل ہلکا نہیں کرنا تھا ۔۔آپ کو کرنا تھا تو بتائیے۔۔
بے بس کر رکھا ہے محبت نے اور لوگوں نے۔۔ "مجھے بھی تو کر رکھا ہے"
کیوں اتنے بے بس ہو جاتے ہیں لوگ؟۔۔
تم نہیں جانتی عینی انسان کبھی کبھی اتنا بے بس ہو جاتا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آتی۔۔ ہر روز اپنے دل سے لڑتا ہوں ہر دن اسے خود غرض اور بغاوت پر اترنے سے روکتا ہوں اسے سمجھاتا ہوں محبت میں خود غرضی نہیں ہوتی کبھی کبھی تو لگتا ہے اتنا ظلم برداشت کرتے کرتے کہیں یہ مجھ میں پناہ لینے سے انکار ہی نہ کر دے۔۔ حماد کی باتوں پر عینی کچھ دیر کے لیے اپنے خالی ہاتھوں کی طرف دیکھتی رہی
وہ محبت ہی کیا جس میں خودغرضی نہ ہو۔۔ وہ بے سختہ بولی تھی
نہیں محبت میں تو دوسروں کی خوشی دیکھی جاتی ہے اور تب تو خود غرض بننا اور بھی مشکل ہے جب محبت حاصل کرتے آپ کچھ اور کھو دو۔۔
اور وہ کچھ اور آپ کے لیے کتنا عزیز ہے؟۔۔عینی کی آواز روندھی ہوئی تھی جس کا اندازہ حماد کو نہیں ہوا
یوں سمجھ لو کہ اگر ایک جینے کی وجہ ہے تو دوسرے میں جان بستی ہے۔۔"اس کے لیے حورین جینے کی وجہ تھی تو حادی میں جان بستی تھی"
تو آپ جینے کی وجہ حاصل کریں گے تو جان سے جائیں گے۔۔ اور جان حاصل کریں گے تو جینے کی وجہ نہیں رہے گی؟۔ پھر تو آپ بہت ہی خود غرض ہیں آپ دونوں چیزیں ایک ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔
ہاں صحیح کہہ رہی ہو تم شاید۔ میں راہ گزر کا وہ مسافر ہوں جسے منزل مل بھی جائے تو وہ کبھی منزل پر پہنچے گا نہیں۔۔ تمہارا شکریہ میں اب چلتا ہوں تم سو جاؤ۔۔۔ وہ فون بند کر گیا عینی نے موبائل کان سے ہٹایا
آ۔آپ واقعی بہت خود غرض ہیں اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے میرے دل پر قہر ڈھا دیا۔۔وہ بنا آواز روتی چلی گئی حماد ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی آس توڑ کر چلا گیا تھا اور وہ اپنے دل کو یہ سمجھانے سے قاصر تھی کہ حماد اس سے بہت دور ہے صحرا میں بھٹکے اس شخص کی طرح جسے جینے کی وجہ دکھتی ہے تو پاس پہنچنے پر پتا چلتا ہے وہاں سوائے موت کے کچھ نہیں تھا۔۔
دوپہر کے وقت حورین رسپشن پر کھڑی تھی
مس حورین بس مجھے دو منٹ دیجیے۔۔ سیکرٹری اسے کہتی فائلز دیکھنے لگی حورین نے آفس میں جھانکا تو وہاں کوئی نہ تھا پھر نظر گھمائے ارد گرد دیکھا
یہ لیں آپ کے ڈاکومنٹس۔۔ اس نے فائل حورین کے سامنے رکھ دی
تھینک یو۔۔ حورین نے مسکرا کر فائلز پکڑ لیں مڑ کر حادی کے آفس تک بڑھی شیشے کا دروازہ کھولے چاروں اطراف نظر گھمائی پھر اندر آگئی چلتے چلتے پورے روم کا جائزہ لینے لگی ٹیبل کے پاس پہنچی تو نظر ٹیبل پر پڑے کچھ ڈاکومنٹس پر گئی حورین نے آنکھیں سکیڑ کر انہیں دیکھنا چاہا اور دیکھتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں جھک کر کاغذ آگے پیچھے کیے وہ سب کسی چیز کے پختہ ثبوت تھے ماہ جبین اور ولید بشر کے ہر برے کام کے ثبوت ۔۔ اور المیر بشر کے فیکٹری میں ہونے والے ہر کام کے ثبوت تھے
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟۔۔ حادی کی بھاری آواز پر چونکی
وہ۔میں۔۔حادی تیزی سے چلتا ٹیبل کے پاس آیا اور ڈاکومنٹس سمیٹ کر ڈرار میں رکھ دیئے
میرے خیال سے تمہارا کام ہو چکا ہے تم اب جا سکتی ہو۔۔ اس نے حورین کے ہاتھ میں پکڑی فائل دیکھ کر سرد لہجے میں کہا ماتھے پر ڈھیروں بل تھے
وہ میں۔جا ہی رہی تھی۔لیکن یہ سب کیا ہے حادی؟۔۔
کیا؟۔۔ حادی نے انجان بننے کی کوشش کی حورین دو قدم چل کے اس کے قریب ہوئی
تم جانتے ہو میں کس چیز کی بات کر رہی ہوں تمہیں لگتا ہے تمہیں یہ سب کرنا چاہیے؟۔۔
میں جو بھی کروں تمہیں میری لائف میں انٹرفیر کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔۔ مِس حورین اورنگزیب۔۔حادی نے آخری لفظ پر زور دیتے ہوئے تلخی سے کہا
حادی مگر اس میں تمہاری جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے تمہیں لگتا ہے وہ تمہیں آسانی سے جانے دیں گے؟۔۔۔حادی نے غصے سے اس کا بازو اپنی گرفت میں لیا حورین کو اس کی انگلیاں اپنے بازو میں دھنستی محسوس ہوئیں اس نے درد سے اپنی آنکھیں میچ لیں
تم نے میری جان اس قابل چھوڑی ہی کہاں ہے جو کوئی اور لے سکے۔۔وہ سختی سے لب پھینچتے بولا جس پر حورین نے بے ساختہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھا وہ کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی کتنا غصہ تھا ان آنکھوں میں جن میں وہ ہمیشہ اپنے لیے محبت دیکھتی آئی تھی وہاں آج اسے اپنے لئے ڈھونڈنے سے بھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
حادی۔م۔مجھے درد ہو رہا ہے۔۔ وہ اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی بولی کہ وہیں حادی کی گرفت اور مضبوط ہوئی اور حورین کو اپنے بازو کی ہڈیاں کچلتی محسوس ہوئیں وہ درد سے کراہی۔۔
اتنے سے درد پر تم تڑپ پڑی ہو؟۔۔تو سنو آئیندہ کے بعد مجھے اپنی شکل مت دکھانا ورنہ جان لے لوں گا تمہاری۔۔اور یہ بات تم سے بہتر کون جانتا ہے۔۔۔وہ غرایا تھا کسی زخمی شیر کی طرح اور اس کے لفظوں سے حورین کو اپنی جان حلق میں اٹکتی محسوس ہوئی حادی نے زور سے اس کا بازو جھٹکا وہ بے ساختہ پیچھے ہوئی حورین کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ریلا تھا جسے وہ تھامے حادی کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی
چلی جاؤ یہاں سے۔۔وہ چلایا تھا حورین کو پہلی بار اس سے ڈر لگا وہ پلٹی اور بے سختا آنسو گال پر بہنے لگے وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکی دباتی وہاں سے چلے گئی حادی گہرے سانس لیتا ہوا خود کو نارمل کر نے کی کوشش کر رہا تھا کہ پھر اس نے اپنے سر کے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے نوچا ساتھ ہی ٹیبل پر رکھی ہر چیز کو اس نے لمحے میں زمین بوس کر دیا اور حلق کے بل چلایا اس کی چیخوں میں درد کرب اور تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں تھا وہ ٹوٹ گیا تھا کبھی نہ جڑنے کے لیے۔۔وہ مر گیا تھا کبھی نہ جینے کے لیے۔۔اور اس پر ستم یہ کہ اس کا قتل اس کی محبت کے ہاتھوں ہوا تھا۔۔
شام کے وقت عینی ڈرائنگ روم میں بیٹھی موبائل میں مصروف تھی اور ساتھ ہی عدیلہ بیٹھی چائے پی رہی تھی کچھ دیر بعد حورین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی
السلام علیکم!
وعلیکم السلام آگئیں تم؟۔۔عدیلہ نے اسے دیکھتے پوچھا
جی ممی۔۔ وہ گہری سانس لیے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی عینی کو دیکھا جو موبائل میں مصروف تھی
کیا کر رہی ہو تم؟۔۔
کچھ نہیں کر رہی۔۔اس کی نظریں موبائل میں ہی مرکوز تھیں حورین اس کے جواب پر اسے دیکھنے لگی پھر سے کچھ یاد آیا
ہاں تم کچھ کہہ رہی تھی مجھ سے صبح بتاؤ کیا کہنا تھا؟۔۔
کچھ نہیں کہہ رہی تھی حور آپی آپ جہاں مصروف ہیں وہیں مصروف رہیں۔۔۔ وہ کہتی اٹھ کر جانے لگی حورین نے اسے حیرت سے دیکھا
یہ کیسے بات کر رہی ہو آپی سے۔۔عدیلہ نے اسے ٹوکا
کیسے بات کی ہے میں نے ممی؟۔۔۔ ان کے لیے میرے پاس وقت ہوتا ہے؟۔ہمیشہ کسی نہ کسی چیز میں خود کو مصروف کر کے رکھتی ہیں پہلے اپنا سارا وقت وکالت میں وقف کرتی رہیں پھر محبت میں مصروف رہیں اور اب بدلہ لینے میں مصروف ہیں اور آگے پتا نہیں کس میں مصروف ہونا ہے اس لیے آپ مجھے اپنا وقت نہ دیں۔۔ وہ غصے سے کہتی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی اسے حورین کا اتنے دن سے اگنور کرنا برا لگا تھا اور اوپر سے آج حماد کی کی گئی باتوں کا بھی غصہ حورین پر ہی نکال دیا
اس کا دماغ ہل گیا ہے تم اس کی باتوں کو سنجیدہ نہ لو۔۔ عدیلہ نے حورین کا چہرہ دیکھا
نہیں ممی۔۔ اس نے سچ ہی تو کہا ہے۔۔ حورین کا دل چاہ رہا تھا بس پھوٹ پھوٹ کر رو دے
حورین۔۔۔
اس نے سچ کہا ممی میں پہلے وکالت میں الجھی رہی وہاں سے نکلی نہیں کہ محبت میں الجھ گئی ابھی اس میں مصروف تھی کہ بدلہ لینے میں سب کچھ داؤ پر لگا دیا لیکن۔لیکن عینی کو غور سے کبھی سننے کی کوشش نہیں کی وہ سنجیدہ رہنے لگی اتنی بڑی باتیں کرنے لگی تھی میں نے کبھی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی ممی۔۔کہ وہ وقت سے پہلے بڑی کیوں ہو گئی میں اس کے دل کا حال نہیں جان سکی ۔۔وہ روہانسی ہو گئی
حورین بچے وہ بس ایسے ہی بول گئی ہے۔ عدیلہ اسے دیکھ کر پریشانی سے بولیں
ایسے نہیں بول کہ گئی وہ ممی مجھے جاننا چاہیے تھا اسے کیا چاہیے وہ کس چیز کے لیے اتنا سنجیدہ ہے۔۔میں بڑی بہن ہوں اس کی مجھے نہیں پتا ہوگا تو اور کسے پتا ہونا چاہیے میں نے بڑی بہن کا فرض نہیں نبھایا۔۔۔
حورین تم ہر کسی کے دل کا حال نہیں جان سکتی ہو۔۔ یہ تمہاری غلطی نہیں ہے وہ اپنی عمر کے اس حصے میں ہے جب لوگ بڑا ہونا سیکھتے ہیں وہ اس عمر میں پہنچ گئی ہے جہاں اسے کچھ چاہیے ہوگا تو وہ تم سے بچوں کی طرح فرمائش نہیں کرے گی خود کو قصوروار سمجھنا بند کرو۔جاؤ فریش ہو جاؤ میں کھانا لگواتی ہوں۔۔ وہ کہتی ہوئی اٹھ گئیں
رات کافی ہو چکی تھی عینی بستر پر بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور حورین اندر آئی عینی نے نظر اٹھا کر دیکھا وہ چلتے چلتے اس کے پاس آئی
میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں؟۔۔
جی۔۔وہ اس کے پاس بستر پر بیٹھ گئی اور کچھ دیر عینی کے چہرے کو دیکھتی رہی عینی حورین کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی
وہ۔آئی ۔آئی ایم سوری۔۔وہ جھجکتے ہوئے بولی
کس لیے؟۔۔حورین اسے ایسے ہی دیکھ رہی تھی
مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا میں نے سچی دل سے نہیں کہا۔۔بس نکل گیا۔۔
بس ایسے وہی نکلتا ہے جو دل میں ہوتا ہے۔۔ حورین مسکرائی
سچی قسم لے لیں ممی قس۔۔۔ وہ بولتی کہ حورین نے اسے ٹوک دیا
چپ قسم لینے کی ضرورت نہیں اور کسی اور کی قسم نہیں لیتے عینی یہ شرک ہے قسم صرف اللہ کی لینی چاہیے وہ بھی تب جب آپ سچے ہوں۔۔اس کی بات پر عینی چپ کر گئی حورین نے گہری سانس لی
تم نے بالکل ٹھیک کہا تھا عینی اگر حادی جھلس کر رہ گیا تو راکھ میں بھی ہو جاؤں گی۔۔ اور راکھ بھی ایسی کہ جسے کوئی سمیٹ کر پھوک مار دے تو اس کا وجود ہوا میں دھوئیں کی طرح بکھرتا چلا جاتا ہے۔۔۔ حورین کی بات پر عینی اسے یک ٹک دیکھتی رہی
تو آپ کو اب پچھتاوا ہو رہا ہے؟۔۔
بہت۔بہت زیادہ لیکن عینی اس نے کسی کا قتل نہیں کیا مگر اس سے قتل ہوا ضرور ہے۔ ۔میرے یقین کا میرے اعتبار کا۔۔ میری جان بچاتے بچاتے وہ شاید یہ بھول گیا کہ اگر محبت کے محل میں اعتبار کی دیواریں نہ رہیں تو وہ۔۔کسی مٹی کے گھروندے کی طرح زمین بوس ہو جاتی ہے۔۔ حورین کی آنکھ سے گرتا آنسو دیکھ عینی نے اس کا ہاتھ تھاما
حور آپی۔۔
سب نے پوچھا مجھ سے تم پچھتاؤ گی تو نہیں اور مجھے لگا تھا کہ تب میرے پچھتانے کے دن ختم ہو جائیں گے لیکن وہ تو اب میرے ساتھ قبر تک جائیں گے۔۔۔
آپ ان سے محبت کرنا چھوڑ دیں پھر یہ پچھتاوا قبر تک نہیں جائے گا۔۔عینی کو خود نہیں پتہ تھا اس نے کیا بولا لیکن وہ اپنی حور آپی کا درد دور کرنے کے لیے ہر ناممکن چیز بھی کر جائے
اس کی محبت نکال دوں؟۔۔ حورین زخمی سا مسکرائی۔۔میرے جسم میں حادی کی محبت رگوں میں بہتے خون کی طرح سرائیت کرتی ہے محبت نکالنے کی جرأت کروں گی تو مر نہیں جاؤں گی؟۔۔"ایک کہتا ہے کسی کی چاہت کو نکال دینے سے دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے تو دوسرا کہتا ہے محبت نکالنے سے جان نکل جائے گی کیا اس قدر تکلیف دیتا ہے کسی کی چاہت کو ترک کر دینا؟"۔۔عینی نے خود سے سوال کیا وہ ہر اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو دل دے کر بے بس ہو چکا ہو اور وہ خود بھی ان میں سے ایک تھی۔۔
صبح کے وقت عینی کلاس روم سے نکل رہی تھی کہ نور کی آواز پر رک گئی
بے وفا لڑکی مجھے اکیلا چھوڑ کر جا رہی ہو۔۔ وہ اس کے پاس آکر رک گئی
تمہیں کیا۔۔میرا بس چلے میں پوری دنیا کو چھوڑ کر نکل جاؤں۔۔ایک نظر نور کو دیکھ عینی آگے چل دی نور موبائل میں مصروف اس کے ساتھ چلنے لگی
تم نے ویڈیوز اپلوڈ کرنا کیوں چھوڑ دیا؟۔ اتنی اچھی فین فالونگ ہے تمہاری اگر ایسے کرو گی تو فین فالونگ گر جائے گی۔۔نور عینی کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ سکرول کرتی بولی
مجھے ایسے لوگ نہیں چاہیے جو محرومیوں میں ساتھ چھوڑ دیں۔۔۔ عینی یونیورسٹی کی گھاس پر بیگ رکھے خود بھی وہیں بیٹھ گئی
کیا ہو گیا ہے تمہیں کیوں اتنی سریل باتیں کر رہی ہو؟۔۔
جب سے پتہ چلا ہے کہ حقیقت کی دنیا بہت الگ ہے تب سے خیالی دنیا لوگوں کو دکھانا چھوڑ دی ہے میں نے تاکہ انہیں میری طرح درد نہ ملے۔۔۔ عینی سنجیدگی سے زمین کو گھورتے بولی
کیسی حقیقت کی دنیا کیسی خیالی دنیا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تمہاری۔۔ نور نے موبائل بند کر کے پوری توجہ سے عینی کو دیکھا
میں ناولز پڑھتے پڑھتے ان میں اتنا کھو گئی۔۔ کہ حقیقت کی دنیا کو بھی ویسا ہی تصور کر لیا تھا میں نے۔۔ یہی سوچتی تھی۔۔ جب مجھے محبت ہوگی تو صحیح جگہ صحیح وقت پر صحیح انسان سے ہوگی ہر چیز کی طرح وہ بالکل پرفیکٹ ہوگا۔۔لیکن حقیقت بالکل الٹ نکلی مجھے تو غلط جگہ غلط وقت پر غلط انسان سے محبت ہو گئی وہ بالکل پرفیکٹ نہیں اس کے پاس تو دل ہی نہیں اور بغیر دل کے کوئی پرفیکٹ نہیں ہو سکتا۔۔۔ نور اسے غور سے دیکھتی رہی
وہ اپنی محبت کبھی حاصل نہیں کر سکتے چاہ کر بھی نہیں انہوں نے مجھے خود بتایا نور۔۔تو پھر وہ اس محبت کو جانے کیوں نہیں دے رہے جس کا کوئی حاصل حصول ہی نہیں؟۔۔۔ عینی کے چہرے پر شدید غصہ اور غم تھا
تم تو دوسری محبت کو جائز سمجھتی ہو نا۔۔وہ نہیں جانے دے رہے تو تم جانے دو ان کی محبت کو۔۔۔ نور اسے یوں ہی دیکھتی بولی
اب گناہ سمجھتی ہوں دوسری محبت کو۔۔ان کی محبت کو جانے دیا تو جان بھی جائے گی اور اپنے ہاتھوں خود کی جان لینا گناہ ہی ہے۔۔۔ وہ تڑپ کر بولی
تو بس اسی لیے وہ بھی نہیں جانے دے رہے۔۔۔ نور کی بات پر عینی اسے یک ٹک دیکھتی رہی
شام کے وقت حورین ریسٹورنٹ داخل ہوئی تو سامنے ہی ماہ جبین ٹیبل پر بیٹھی نظر آئی جو موبائل میں مصروف تھی اسے دیکھ حورین کو عریشہ کے ساتھ گزارا وقت یاد آیا اور پھر اس کا عریشہ کی موت پر رونا یاد آیا پھر حادی کا قاتل بننا یاد آیا حورین کو اس وقت ماہ جبین بہت ناگوار گزری تھی وہ چلتے چلتے اس کے پاس آئی
السلام علیکم!۔۔
اوہ۔۔علیکم السلام بیٹھو۔۔ پہلے تو ماہ جبین چونکی پھر مسکراتے ہوئے کرسی کی طرف اشارہ کیا حورین اس کے سامنے کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی
کیسی ہو؟۔۔ وہ پرجوش نظر آرہی تھی
ٹھیک ہوں۔۔۔ آپ نے مجھے کیسے یاد کیا؟۔۔ حورین چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی
میں نے سوچا تم سے ملے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے کیوں نا مل لیا جائے۔۔ کیا پینا پسند کرو گی؟۔۔
جی کچھ نہیں مجھے جلدی جانا ہے میں کام سے بریک لے کر آپ سے ملنے آئی ہوں۔
تو پھر تو مجھے سیدھا مدے کی بات کرنی چاہیے تمہارا مطلب ؟۔۔ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ بولی حورین چپ رہی۔۔
میرا بیٹا حماد تمہیں پسند کرتا ہے۔۔ اس سے شادی کر لو۔۔۔حورین کو پہلی بات پر حیرت نہیں ہوئی لیکن آخری بات پر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
کیا۔۔میں کیا کر لوں؟۔۔
تو تم جانتی ہو وہ تمہیں پسند کرتا ہے تو پھر شادی کرنے میں کیا حرج ہے؟۔۔ تمہیں کسی نہ کسی سے شادی تو کرنی ہے۔۔البتہ وہ حادی تو نہیں ہو سکتا پھر کوئی بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ماہ جبین نے تو جیسے بات ہی ختم کر دی اور حورین کو اپنے دل پر ہاتھ پرتا محسوس ہوا "وہ کوئی بھی ہو سکتا تھا اب لیکن حادی کبھی نہیں ہو سکتا تھا"
یہ میری زندگی ہے اور اپنی زندگی کے فیصلوں میں مجھے کسی اور کی رائے نہیں چاہیے۔۔۔ وہ دانت پیستی ہوئی بولی
تمہیں رائے بالکل نہیں چاہیے لیکن ایک اچھی قسمت تو چاہیے جو میرے بیٹے سے شادی کر کے ہو جائے گی۔۔۔ وہ اسی طرح مسکراتی کہہ کر اسے اور تپا گئی تھی اور پھر وہ ہلکا سا مسکرا دی
آپ کے خیال میں یہ سچ ہو سکتا ہے کہ حماد مجھے مل گیا تو میں خوش قسمت ہو جاؤں گی لیکن آپ شاید یہ بھول رہی ہیں۔۔کہ میں وہ لڑکی ہوں جو اپنی خوش قسمتی کو بد قسمت کی نظر کر دیتی ہے میرا بریک ٹائم ختم ہو گیا ہے امید ہے آپ میرے فیصلے سے مطمئن ہوں گی۔۔ وہ کہتی اٹھ کر بنا کچھ سنے چلی گئی
تمہیں میں ایسی مات دوں گی کہ تم یاد رکھو گی کیونکہ ماہ جبین سب کچھ کر سکتی ہے۔۔۔ اس نے کہتے ہوئے موبائل کان سے لگایا۔۔
حماد ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو حادی کو کسی کام میں مصروف پایا
آفس کا کام اب گھر بھی شروع کر دیا۔۔ وہ سامنے صوفے پر بیٹھتے بولا
ہاں گھر میں اور کچھ کرنے کو ہوتا کیا ہے ۔۔۔
اب کس کی کشتی ڈبونے لگا ہے؟۔۔ وہ بکھرے کاغذات پر جھکا
ان کی جن کی بہت پہلے ڈبو دینی چاہیے تھی.. حادی سنجیدگی سے بولا
کن کی؟۔۔
المیر بشر اور ولید بشر۔۔۔حادی نے بس ان کے ہی نام لیے حماد نے گہری سانس لیتے ہوئے صوفے سے ٹیک لگا لی
اور میری ممی کہاں ہیں؟۔۔
تمہیں پسند نہیں آئے گا ان کا نام سننا۔۔۔
چھوڑو یار۔۔مجھے اب کوئی چیز حیران نہیں کرتی۔۔۔ اس نے سر جھٹکا حادی نے گہری نظر اس پر ڈالی
تو تمہیں واقعی برا نہیں لگے گا اگر میں ان کے خلاف لڑوں گا؟۔۔
اگر مجھے برا لگے گا تو تم نہیں لڑو گے؟۔۔ حماد نے الٹا سوال کیا
میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا۔۔۔حادی دوبارہ کام میں مصروف ہو گیا
تو پھر چھوڑ دو مجھے جیسا بھی لگے اور مجھے یہ بتاؤ تمہاری سیکرٹری کا نام کیا ہے؟۔۔ حماد نے آنکھیں گول کیں
کیوں اسے کیا ہوا ہے؟۔۔حادی نے نظریں اٹھا کر دیکھا
بہت پیاری ہے۔۔۔
خدا کا خوف کرو حماد۔۔تمہیں کون سی لڑکی پیاری نہیں لگتی؟۔۔وہ بیزاری سے بولا
میں اپنی بات نہیں کر رہا تمہارے لیے پوچھ رہا ہوں تمہیں پیاری نہیں لگی؟۔۔حماد نے ایک آنکھ دباتے ہوئے دانت نکالے
باہر جانے کا راستہ وہاں ہے جس طرح آئے تھے اسی طرح واپس مڑ جاؤ۔۔۔حادی نے انگلی کے اشارے سے اسے جانے کا راستہ دکھایا
لو ایک تو کا بھلائی کا زمانہ ہی نہیں۔۔ کبھی تم نے اس طرح میری بھلائی کا سوچا ہے جیسے میں نے سوچا میں تو بس یہی کہہ رہا تھا کہ اس سے محبت کر لو تمہیں ساری زندگی سرسر کرتی نہیں تھکے گی۔۔حماد تو بس آج کچھ سننے کے موڈ میں تھا
حماد محبت کوئی کھیل نہیں۔۔جو تم نے کہا تو مجھے اس سے ہو گئی اور جو حال محبت نے میرا کر دیا ہے نا اس کے بعد تو میں کسی سے محبت کرنے کا سوچوں گا بھی نہیں۔۔حادی سپاٹ لہجے میں بولا
حورین سے بھی نہیں؟۔۔۔ حماد نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا جس پر وہ اسے یک ٹک دیکھتا رہا
آج تو کہہ دیا آئندہ نام نہ لینا اس کا۔۔حادی لب پھینچے بولا اور اس کی بات پر حماد کو حیرت کا جھٹکا لگا
حادی یہ کیسی محبت تھی۔۔جو پل میں نفرت کی شدت اختیار کر گئی؟۔۔
نفرت؟۔۔حادی زخمی سا مسکرایا
نفرت چاہ کر بھی نہیں ہوئی مجھے اس سے۔۔ اور نہ ہی مرتے دم تک کر سکوں گا۔۔۔
تو اس کا نام لینے سے منع کیوں کرتے ہو؟۔۔۔
جس کا نام لینے سے میں کبھی جی اٹھتا تھا آج اس کے نام سے جان جاتی ہے۔۔۔ میرا دل سینا چیر کر باہر آنے کو بے تاب رہتا ہے کہتا ہے یہ سب جس کو پکار رہے ہیں وہ تمہارے پاس اب نہیں ہے۔۔ تو میں تمہارے پاس رہ کر کیا کروں؟۔۔ اس نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بنائیں حماد بنا آنکھ جھپکے اسے دیکھتا رہا "وہ ہر روز اس بات سے آشنا ہوتا جا رہا تھا کہ ان دونوں نے خود پر کتنا ظلم کیا ہے۔۔کوئی اپنے ہاتھوں اپنی جان لیتا ہے بھلا؟۔۔ لیکن وہ انجان تھا اس بات سے کہ جلد ہی وہ بھی اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے والا ہے۔۔"
حورین آسمان کو دیکھ رہی تھی جہاں چاروں طرف سیاہی تھی اور چاند خود کو بادلوں کی اوڑھ میں چھپائے بیٹھا تھا
"دیکھو میں نے ایک ساتھ دو چاند قید کیے ہیں" اس نے یک دم آنکھیں بند کر لیں تو آنسو گر کر رخسار پر بہہ گیا
مجھے معاف کر دو حادی۔۔کہ میں تمہارا وہ چاند نہیں بن سکی جو ساری زندگی تمہارے گھر کو چمکا سکے۔۔۔
"رات کا وقت تھا حادی پینٹ کی جیب سے چابی نکالتے آفس سے باہر نکلا گاڑی تک پہنچ کر گاڑی کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھا کہ اچانک اسے اپنے بازو میں کچھ لگنے سے شدید تکلیف ہوئی اس نے درد سے کراہتے ہوئے بازو پر ہاتھ رکھا تو اس کا ہاتھ لہو لہان ہو گیا اسے ابھی کچھ سمجھ آتا کہ تین چار اور گولیاں اسے سینے اور بازو پر آ لگیں وہ شدید تکلیف کے باعث گاڑی کے ساتھ لگے زمین پر بیٹھتا چلا گیا "
حادی!۔۔۔ وہ حادی کو پکارتی ہوئی گھبرا کر اٹھی اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اور پسینے میں شرابور تھی حورین نے نظر پورے کمرے میں گھمائی وہ صرف ایک خواب تھا ایک برا خواب۔۔حورین نے سر پر ہاتھ رکھتے گہری سانس لیے خود کو نارمل کیا تب ہی دروازہ کھلا اور عینی اندر آئی حورین نے عینی کو دیکھا
کیا ہوا تمہیں؟۔۔
وہ۔۔۔
کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟۔۔ حورین پاؤں زمین پر رکھے بستر سے اٹھی
حور آپی۔۔۔عینی کا رنگ اڑا ہوا تھا
عینی کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے؟۔۔تم کچھ بول کیوں نہیں رہی؟۔۔وہ اس کے پاس آئی اور اس کا رنگ دیکھ اسے عجیب سے احساس نے آ گھیرا تھا
کسی کو کچھ ہوا ہے؟۔۔حورین اس کے پیچھے باہر دیکھتی بولی
تم بول کیوں نہیں رہی کیا ہوا ہے؟۔۔ سب ٹھیک ہے؟۔۔ح۔حادی ٹھیک ہے؟۔۔اور اس نے اصل سوال پوچھ لیا جو اسے تنگ کر رہا تھا اور اس کے پوچھتے ہی عینی کو خود پر آسمان گرتا محسوس ہوا اور اس نے جان لیا کہ حورین کو الہام ہوا ہے "کون کہتا ہے عشق کرنے والوں کو الہام نہیں ہوتے؟"
تمہیں میری سمجھ نہیں آرہی؟۔۔ میں تم سے پوچھ رہی ہوں حادی ٹھیک ہے؟۔۔حورین اسے بازوؤں سے جھنجوڑتے ہوئے چلائی
حور آپی ح۔حادی بھیا۔۔کو گولیاں لگی ہیں۔۔وہ ہاسپٹل۔میں ہیں۔عینی نے اٹکتے ہوئے بمشکل اپنی بات پوری کی اور یہ سنتے ہی حورین کے پیروں تلے زمین کھسک گئی اسے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی اور لمحے میں زمین پر ڈھیر ہو گئی۔
جو اس نے دیکھا تھا وہ سب سچ تھا کوئی برا خواب نہیں تھا۔۔حادی سچ میں لہولہان ہوا تھا حورین نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ دے دیے
نہیں۔نہیں۔۔وہ حلق کے بل چلانا شروع ہو گئی اور اسے دیکھ عینی کی روح کانپ اٹھی
"عشق الہام ہوتا ہے
کہاں یہ عام ہوتا ہے
ہوجائے جس کو یہ لاحق
بس وہی نیلام ہوتا ہے"
حورین عینی عدیلہ ہاسپٹل پہنچے تو حماد پہلے ہی وہاں موجود تھا
حماد بیٹا یہ سب کیسے ہوا؟۔۔ وہ اتنی دیر گئے آفس میں کیا کر رہا تھا؟۔۔ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں؟۔۔۔عدیلہ نے حماد کو دیکھ ڈھیروں سوال کیے حماد نے ایک نظر حورین کو دیکھا
وہ آنٹی۔۔پتا نہیں میں شام تک اس کے پاس ہی تھا پھر کچھ کام سے جانا پڑ گیا ورنہ اسی کے ساتھ رکنے کا ارادہ تھا۔۔پتا نہیں وہ گھر پر کام کرتا آفس کیوں چلا گیا اور۔۔ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ ہم دعا کریں اپریشن کر رہے ہیں اس کا۔۔۔ حماد نے بس اتنا ہی بتانا مناسب سمجھا لیکن ڈاکٹرز اسے بتا چکے ہیں کہ اس کی حالت کریٹیکل ہے
ہاں ہاں۔۔ہم دعا کر رہے ہیں۔۔اسے کچھ نہیں ہوگا۔۔عدیلہ پریشانی سے بولی
کافی دیر گزرنے کے بعد بھی آپریشن ابھی تک چل رہا تھا عینی اور حورین ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے اور حماد دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اور عدیلہ فجر کی نماز پڑھنے گئی ہوئی تھی۔۔
حماد نے ایک نظر عینی کے ساتھ بیٹھی حورین کو دیکھا جو سر جھکائے اپنے خالی ہاتھوں کو مل رہی تھی اسے دیکھتے حماد نے سوچا اگر ایک مر جائے گا تو کیا دوسرا جینے کے قابل رہے گا؟۔۔ اور تب اس نے جان لیا کہ آج اگر اندر موجود شخص مر گیا تو باہر بیٹھی یہ حورین بھی قبر میں اتر جائے گی۔۔ حماد نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور پوری شدت سے دعا مانگی
یا اللہ یہ ستم نہ کرنا۔۔ہم پر رحم کھا لے۔۔ مجھ پر رحم کھا لے۔۔ عینی نے دیوار سے لگے حماد کو دیکھا جو آنکھیں میچے کھڑا تھا اس نے ایک نظر حورین کو دیکھا پھر اٹھ کر حماد کے پاس آئی
آپ نے ہم سے کچھ چھپایا ہے نا؟۔۔عینی کی آواز پر حماد نے چونک کر آنکھیں کھولیں
کیا؟۔۔میں کیوں چھپاؤں گا کچھ۔۔
آپ نے نہیں بتایا کہ ان کی حالت کیسی ہے؟۔۔
وہ ٹھیک ہے عینی۔۔بس آپریشن ہو جائے تو تم خود دیکھ لینا اسے۔۔ حماد سمجھاتے ہوئے بولا
اگر وہ اتنے ہی ٹھیک ہوتے تو یوں آپ کی جان پر نہ بنی ہوتی۔۔۔عینی کی بات پر وہ اسے دیکھتا رہا
تو پھر دعا کرو عینی جو میری جان پر بنی ہے وہ حورین کی جان پر نہ بن جائے۔۔۔حماد کے کہنے کی دیر تھی کہ عینی کو اپنے دل پر ہاتھ پرتا محسوس ہوا اور مڑ کر حورین کو دیکھا
نہیں۔ایسا نہیں ہو سکتا حور آپی تو ہمارے بارے میں ایک بار نہیں سوچیں گیں اور اپنی سانسیں حادی بھیا کے ساتھ ہی روک دیں گی۔۔ وہ دوبارہ حورین کے ساتھ آکر بیٹھی وہ جو کب سے اپنے خالی ہاتھوں کو مل رہی تھی "اس شخص کی طرح جو سب کچھ کھو کر خالی ہاتھ ملتا رہ جاتا" عینی نے اس کے حرکت کرتے ہاتھ پکڑ لیے حورین نے بے ساختہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
سب ٹھیک ہو جائے گا۔آپ پریشان نہ ہوں۔۔وہ حورین کے ہاتھوں کو زور سے دبائے بولی عدیلہ نماز پڑھ کے آرہی تھی تبھی ڈاکٹر باہر نکلا اس کے قدم تیز ہوئے حورین اور عینی فوراً اٹھے حماد ڈاکٹر کو دیکھ سیدھا ہوا
ڈاکٹر اب وہ کیسا ہے؟۔۔ٹھیک تو ہے نا؟۔۔ بس عدیلہ نے پوچھنے کی ہمت کی حورین اپنا سانس روکے کھڑی تھی اگر خبر بری ہوتی تو اگلا سانس کبھی نہ لیتی اور باقی سب کے دل تھم چکے تھے۔
جی ان کا آپریشن کامیاب رہا ہے انہیں کچھ دیر کے لیے انڈر ابزرویشن رکھا جائے گا پھر آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔۔ڈاکٹر کے کہنے کی دیر تھی کہ سب کے تھمے دل پھر دھڑکنے لگ گئے اور حورین کا رکا سانس اللہ کا شکر ادا کرنے سے بحال ہوا۔۔
آپ میں سے کوئی میرے ساتھ آئے۔۔ڈاکٹر بولا
جی میں چلتا ہوں۔۔۔حماد ڈاکٹر کے ساتھ چلا گیا اور حورین کرسی پر بیٹھ گئی اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا یہ وقت جس طرح اس نے گزارا تھا بس وہی جانتی تھی مانو جیسے حادی اس کی جان اپنی مٹھی میں لیے ہوئے تھا جس طرح کبھی وہ حادی کی جان لیے بیٹھی تھی۔۔
حورین اور عینی گھر آ گئے اور عدیلہ ہاسپٹل میں حماد کے ساتھ ہی ٹہری تھی
تم لوگ مجھے اکیلا ترپتا چھوڑ گئے ہو میرے حال پر رحم کرو۔۔حادی کیسا ہے؟۔۔ٹھیک ہے؟ حورین اور عینی کو اندر آتے دیکھ جمشید صاحب بہت پریشانی سے پوچھنے لگے
دادا ابو۔۔ عینی دادا کے سامنے زمین پر بیٹھی
وہ بالکل ٹھیک ہیں بس آرام کر رہے ہیں اور آپ کو بھی آرام کرنا چاہیے۔۔حورین سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی
تو حورین اتنی چپ کیوں ہے؟۔۔ تم کچھ چھپا رہی ہو؟۔۔
جب انسان بہت روتا ہے اس کے بعد وہ خاموش ہو جاتا ہے بس اس لیے وہ خاموش ہیں چلیں۔۔اب میں آپ کو کمرے میں لے کر چلوں۔۔وہ جمشید کی وہیل چیئر گھماتی بولی
تو پھر میری بات کرواؤ حادی سے میں بھی اسے سن لوں۔۔۔جمشید صاحب کو تو صبر ہی نہ پڑھ رہا تھا
دادا ابو آرام کرتے ہوئے بندہ کیسے بات کر کرے گا؟۔۔صبح کرواؤں گی۔۔اور عینی انہیں ٹالتے ہوئے کمرے میں لے گئی
صبح کے وقت عینی نے سیڑھیاں اترتے ادھر ادھر نظر گھمائی وہ حورین کو دیکھ رہی تھی جو اپنے کمرے میں نہ تھی ڈرائنگ روم میں جمشید صاحب تسبیح پڑھنے میں مشغول تھے اور عدیلہ کچن میں مصروف تھی عینی نے لان میں جھانکا تو حورین لان میں کھڑی نظر آئی عینی جمشید صاحب کے پاس آکر ان ٹانگ پکڑے بیٹھی
جو بھی پڑھ رہے ہیں بس مجھ پر پھونک دیں۔۔ اس نے منہ آگے کیا
کیوں بھئی تم پر کیوں پھونک دوں؟۔۔جمشید صاحب ہنستے ہوئے بولے
تاکہ میں کامیاب ہو جاؤں۔۔۔ عینی نے آنکھیں گول کیں
تم تو ہمیشہ ہی کامیاب رہتی ہو یہ تو میں حورین اور حادی کے لیے پڑھ رہا ہوں جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔۔
تو کیا یہ پھونک دینے سے انہیں ایک دوسرے کی جانوں پر ترس آجائے گا؟۔۔عینی نے آبرو اٹھائی
بے شک۔۔جمشید صاحب نے عینی کا گال تھپتھپایا
پھر مجھے یہ بتائیں کہ آپ کی حور بیٹی لان میں کیا کر رہی ہے؟۔۔عینی نے آنکھوں سے لان کی طرف اشارہ کیا جمشید صاحب نے لان میں دیکھا جہاں حورین کھڑی آسمان کو تک رہی تھی
اس وقت وہ آسمان میں چاند دیکھنے سے تو رہی۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے
تو پھر سوچ کے بتائیں کیا کر رہی ہیں؟۔۔ جمشید صاحب نے اس کے کہنے پر تھوڑا سوچنے پر زور ڈالا اور پھر عینی کو دیکھا
تم میرے کمزور سے دماغ پر زور ڈالنے کی بجائے اس سے خود کیوں نہیں پوچھ لیتی؟۔۔
اوہ۔۔ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔ عینی نے حیرت سے منہ کھولا اور وہیں اس کا کان جمشید صاحب کے ہاتھ میں تھا
شیطان مجھے تنگ کر رہی ہے۔۔
آہ۔۔دادا ابو درد ہو رہا ہے۔۔ اور عینی نے پوری ڈرامے کی دکان لگالی جمشید صاحب نے اس کا کان چھوڑ دیا
جاؤ اب تنگ نہیں کرو۔۔مجھے پڑھنے دو۔۔ وہ اپنے کان کو سہلاتی منہ بسورتی دادا کو دیکھتی اٹھ گئی سلائڈر سائیڈ پہ کر کے حورین کے پاس آگئی
کیا آج صبح میں چاند نکلا ہے جسے آپ تاری جا رہی ہیں؟۔۔ حورین کی سوچ کا تسلسل ٹوٹا تو اس نے چونک کر عینی کو دیکھا
نہیں چاند تو رات میں بھی بادلوں کی اوڑھ میں چھپ کر مجھ سے منہ پھیر لیتا ہے۔۔دن میں کہاں سے آئے گا؟۔۔حورین کرسی پر بیٹھ گئی
آج انہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا۔۔ہم سب جا رہے ہیں ان سے ملنے آپ چلیں گی؟۔۔ عینی نے اسے بغور دیکھتے پوچھا حادی پورے چوبیس گھنٹے ابزرویشن رہا تھا اور اب دوسرے کمرے میں شفٹ ہونے والا تھا
نہیں مجھے بہت کام ہیں۔۔تم لوگ چلے جانا۔۔۔ اس کے جواب پر عینی نے سرد آہ بھری
کچھ دیر میں عینی عدیلہ اور جمشید حادی سے ملنے چلے گئے تھے اور حورین گھر پر ہی تھی۔۔
رات کو حورین عشاء کی نماز پڑھ کے فارغ ہوئی پھر اس نے کچھ یاد آنے پر موبائل اٹھایا اور حماد کو کال ملائی
ہیلو؟۔
ہائے حماد کیسے ہو؟۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔تم کیسی ہو؟۔۔
اچھی ہوں۔۔۔مجھے کچھ کام تھا تم سے۔۔
ہاں بولو۔۔۔
وہ حادی کی کچھ کیس کی فائلز ہیں جس پر وہ کام کر رہا تھا تم مجھے وہ فارورڈ کر سکتے ہو؟۔۔ حورین دوپٹہ کھول کے بستر پر بیٹھی
ہاں شاید مجھے پتا ہے ان کا۔۔میں اس کے گھر ہی ہوں اس کا کچھ سامان لینے آیا تھا۔۔
شکریہ۔۔مجھے جلدی سے بھیج دینا۔۔۔
اوکے اللہ حافظ۔۔
صبح کے وقت حورین کسی آفس میں داخل ہوئی تو سامنے ہی جسٹس عالم کو بیٹھا پایا
آئیں بیٹھیں مِس حورین۔۔۔وہ گرم جوشی سے بولا
سوری میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔۔حورین معذرت کرتے کرسی پر بیٹھی
نہیں ایسی کوئی بات نہیں بلکہ میرے لیے تو یہ اعزاز کی بات ہے کہ آپ نے آج میرے آفس آنے کا شرف بخشا۔۔۔کیا پینا پسند کریں گی آپ ؟۔۔اس نے انٹرکام پر ہاتھ رکھا
نہیں کچھ نہیں۔۔مجھے آپ سے ضروری کام ہے۔۔۔حورین نے فائلز کھول کے عالم کے سامنے رکھیں وہ فائلز پکڑے دیکھنے لگا
جی تو آپ کو میری کیسی مدد درکار ہے؟۔۔ اس نے دونوں ہاتھ آپس میں ملاتے ہوئے ٹیبل پر ٹکا دیئے
عبدالحادی آپس کا خاص شاگرد ہے اور وہ یہ کیس لڑنے لگا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اس پر قاتلانہ حملہ کروا دیا گیا۔۔تو اب یہ کیس مجھے لڑنا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کو اس کیس میں بہت دلچسپی ہو گی۔۔حورین سنجیدہ لہجے میں بولی
آپ نے میرے بہت سے کام کیے ہیں مِس حورین اور آج پہلی بار مجھ سے کسی مدد کی طلبگار ہیں اور بے شک مجھے اس کیس میں کافی دلچسپی ہے۔۔ وہ کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا
تو میں آپ کی طرف سے ہاں سمجھوں؟۔۔
آپ کا کام ہو جائے گا آپ بے فکر رہیں عالم کبھی کسی کے احسان چکانا نہیں بھولتا۔۔۔اور تب پہلی بار حورین کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری
عینی چادر پکڑاؤ مجھے۔۔۔عدیلہ صوفے پر بیٹھی چائے پی رہی تھی
عینی!۔۔ پھر عینی کو پکارا اور دوسری ہی آواز پر وہ لان سے بھاگتی آئی
جی ممی۔۔۔
کتنی بار آواز دی ہے تمہیں مجال ہے جو سن لو۔۔۔اور عدیلہ کے قصیدے شروع ہوگئے
جی ممی اب آگئی ہوں نا کیا کہنا تھا۔۔
چادر دو مجھے۔۔۔ عینی کی نظر چادر پر پڑی تو وہ غم میں ہی ڈوب گئی
کیا دیکھ رہی ہو اب مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔ عدیلہ اسے بت بنے دیکھتے ہوئے بولی
جی ممی میں دیکھ رہی ہوں کتنی دور پڑی ہے چادر۔۔ وہ اس چادر کو گھورتی ہوئی بولی جو عدیلہ کے سامنے صوفے پر آرام فرما رہی تھی
ایک تو تم سے باتیں کروا لو۔۔۔
نہیں ممی میں سوچ رہی تھی اس کے پاؤں کیوں نہیں ہیں یہ خود چل کر آپ کے پاس نہیں آ سکتی۔۔۔ وہ چادر کو اٹھائے عدیلہ کے سامنے آئی
کہاں جا رہی ہیں آپ ممی؟۔۔ حورین نے سیڑھیاں اترتے پوچھا
ہاں۔۔ بیٹا ہاسپٹل جا رہی ہوں حادی سے ملنے۔۔ حماد لینے آرہا ہے۔۔۔عینی فوراً عدیلہ کے پاس بیٹھی
میں بھی چلوں ممی؟۔۔۔۔پوری دنیا کی معصومیت چہرے پر لائے بولی۔۔
نہیں حادی کو آرام کی ضرورت ہے ٹینشن کی نہیں۔۔۔حورین لان کی طرف چلی گئی
میں کون سی انہیں ٹینشن دوں گی۔۔۔
تم نہیں تمہاری یہ ٹرٹر کرتی زبان ضرور دے گی۔۔۔عینی نے منہ بنا لیا وہ بھی بڑا سارا حورین لان میں آئی تو اندر آتے حماد کو دیکھا
کیسی ہو؟۔۔
تمہارے سامنے ہوں۔۔۔
بہت اچھی ہو پھر تو۔۔۔حماد نے اسے سر تا پاؤں دیکھ دانت نکالے
شکریہ۔۔۔حورین ہلکا سا مسکرائی
تم حادی سے ملنے کیوں نہیں آئی ابھی تک؟۔۔۔
بس اسے اپنی شکل نہیں دکھانا چاہتی۔۔۔حورین زمین کو گھورتے بولی
اور وہ کیوں؟۔۔
اس نے ایک بار کہا تھا اب شکل دکھائی تو جان لے لوں گا تمہاری۔۔۔۔
سیریسلی اور تم ڈر گئی؟۔۔وہ تمہیں اس حالت میں لگتا ہے کہ تمہاری جان لے سکے؟۔۔حماد کو حورین کی بات پر حیرت ہوئی
تمہیں کس نے کہا میں اپنی جان کی دھمکی سے ڈر گئی؟۔۔۔ حورین نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا
تو پھر؟۔۔
وہ میری نہیں اپنی جان ضرور لے گا بس اس لیے ڈر گئی۔۔۔ اس نے پھر نظریں جھکا لیں حماد کچھ دیر اسے دیکھتا رہا
اسے تم سے نفرت ہو گئی ہے نا؟۔۔ وہ نہیں جانتا اس نے یہ سوال کیوں کیا
نفرت؟۔۔ حورین مسکرائی
وہ کبھی نفرت نہیں کر سکتا مجھ سے مر کر بھی نہیں۔۔
تمہیں اتنا یقین ہے؟۔۔ حماد نے حیرانگی سے پوچھا
ہاں کیونکہ میں نے اس کی محبت بہت قریب سے دیکھی ہے اور اس کی محبت ایسی نہیں تھی جو نفرت اختیار کر لے۔۔حورین کا اتنے یقین سے کہنا حماد کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا
مجھ سے شادی کر لو حورین ۔۔۔حماد کے الفاظ حورین کو بے حس و حرکت کر گئے
میں تمہارے لیے ایک اچھا پارٹنر ثابت ہوں گا۔۔۔
لیکن۔میں کیسے۔۔۔حورین بمشکل بولی
کیا مطلب کیسے۔۔۔جیسے سب کرتے ہیں ویسے۔۔حماد آبرو اچکاتے ہوئے بولا
تم جانتے ہو میں حادی۔۔۔
میں تم سے حادی کے حصے کی محبت نہیں مانگ رہا نہ ہی اس کی جگہ مانگ رہا ہوں حورین۔۔۔ میں تمہارے دل میں بس اپنے لیے ذرا سی جگہ مانگ رہا ہوں۔۔۔وہ اسے چپ دیکھتی رہی
میں وعدہ کرتا ہوں حادی کی طرح کبھی تمہارا یقین نہیں توڑوں گا تمہیں پچھتانے کا موقع نہیں دوں گا۔۔میں نے اپنی محبت کو ہر بار جانے دیا لیکن اس بار جانے دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔ "حادی کی طرح تمہارا یقین نہیں توڑوں گا" کے الفاظ حورین کی سماعتوں میں گونج رہے تھے۔۔کیا ہوتا اگر حادی اس پر ایک بار اعتبار کر لیتا اور اسے سب کچھ سچ بتا دیتا تو آج وہ اس مقام پر نہ ہوتی جہاں اسے کبھی کسی اور کو چننا پڑتا۔۔
ارے حماد بیٹا!۔۔تم کب آئے مجھے پتا ہی نہیں چلا تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔ عدیلہ حماد کو لان میں دیکھتے بولی
جی آنٹی بس ابھی آیا ہوں۔۔ حماد عدیلہ سے مخاطب ہوا اور حورین جو کسی خسارے کی وادیوں میں کھو چکی تھی وہ ہوش میں آئی
تمہیں بھلا کیا ضرورت تھی میں ڈرائیور کے ساتھ بھی جا سکتی تھی۔۔۔
کوئی بات نہیں آنٹی مجھے ویسے بھی یہاں آنا ہی تھا۔۔۔حماد ایک نظر حورین کو دیکھتا ہوا بولا
چلو پھر چلتے ہیں۔۔۔حماد اسے انہیں سوچو میں گم چھوڑ کر چلا گیا۔۔
ہاں بس اب یہی کام رہ گیا تھا میرے حصے۔۔ تمہاری خدمت کرنے کا۔۔۔حماد حادی کے پاس بیٹھے سیب کاٹ رہا تھا اور ساتھ سنانے کا عمل بھی جاری تھا
جہاں ثواب ملے وہاں زبان نہیں چلاتے بس ہاتھ چلاتے ہیں۔۔۔حادی ٹیک لگائے ہوئے آدھا بیٹھا تھا اور آدھا لیٹا ہوا تھا
ہاں بس دیکھتے جاؤ میں کتنے ثواب کماتا ہوں۔۔۔ ایک سیب کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے بولا جسے دیکھا حادی نے افسوس سے سر ہلایا
پکڑو کھاؤ اب یہ مت کہنا کہ میں ہی تمہیں کھلاؤں۔۔۔ حماد نے پلیٹ اس کے آگے کی اور حادی سامنے دیوار کو دیکھتے کچھ سوچ رہا تھا
وہ نہیں آئی نا۔۔۔
کون؟۔۔حماد کے پوچھنے پر حادی نے اسے ایک نظر دیکھا
کیسے آتی وہ تو تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دکھانا چاہتی۔۔۔حماد نے کندھے اچکائے
ہاں ہم اب اس لائک کہاں۔۔حادی سیدھا ہونے لگا تو حماد نے اسے سہارا دے کر بٹھایا
تم نے ہی تو اسے کہا تھا اگر وہ اب تمہارے سامنے آئی تو جان لے لو گے۔۔۔
تو مطلب اسے واقعی لگتا ہے کہ میں اس کی جان لے سکتا ہوں۔۔حادی زخمی سا مسکرایا
اسے اپنی جان کی پرواہ کہاں ہے اسے تو تمہاری جان عزیز ہے۔۔باتیں چھوڑو سیب کھاؤ ورنہ ختم ہو جائیں گے۔۔ اور حماد نے پھر سے ٹکڑا اٹھایا جو مسلسل کھاتا جا رہا تھا
اچھا وہ جس کیس پر میں کام کر رہا تھا کیا تم اس کیس کی فائلز لا دو گے گھر سے؟۔۔ کافی دن ضائع ہو گئے ہیں مجھے اس پر جلدی کام کرنا ہے۔۔۔
کس کو کیا کام کرنا ہے؟۔۔ عدیلہ نے کمرے میں آتے پوچھا جو ریسٹروم گئی ہوئی تھی
آنٹی حادی کہہ رہا ہے اسے عدالت جا کر کیس لڑنا ہے۔۔ حماد سیب کھاتے ہوئے بولا
کوئی عدالت نہیں جا رہا تمہیں بیڈ ریسٹ کا کہا گیا ہے۔۔ وہ بھی لمبا مجھے تم کام کرتے نظر نہ آؤ۔۔عدیلہ سامنے صوفے پر بیٹھتی بولی
پھوپھو ضروری کام ہے بس کچھ دیر ہی لگے گی۔۔۔
جتنا بھی ضروری ہو تمہاری صحت سے ضروری بالکل نہیں ہے۔۔۔
مگر پھپھو۔۔۔ حادی التجائی انداز میں بولا
کہہ دیا نا۔۔ اور عدیلہ بھی ٹس سے مس نہ ہوئی پھر حادی نے بیزاریت سے حماد کو دیکھا جو مسلسل اس کی پلیٹ سے سیب کھانے میں مشغول تھا
پکڑو تم ہی ٹھوس لو سارا۔۔۔پلیٹ اس کے سامنے کر دی جسے حماد نے مزے سے پکڑ لیا
حورین کورٹ میں دیوار کے ساتھ لگے کھڑی تھی جب المیر بشر کو پکڑ کے لایا جا رہا تھا اس کے ہاتھوں پر ہتکڑی لگی تھی اور دو پولیس آفیسرز کی وردی میں ملبوس لوگوں نے اسے پکڑ رکھا تھا حورین اسے دیکھ سیدھی ہوئی
آپ کو دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔۔حورین اسے تیکھی مسکراہٹ سے دیکھتے بولی
تم نے بہت غلط بندے سے پنگا لیا ہے تم پچھتاؤ گی..المیر بشر جبڑے پھینچتے ہوئے بولا
پچھتانے کی میں عادی ہوں۔۔۔اور کوئی بات کریں۔۔۔
بہت بڑی غلطی کی تجھے اسی وقت میں نے تیری اوقات دکھا دی ہوتی تو آج یوں مجھے ہتھکڑیاں نہ بندھی ہوتیں۔۔
تو کس نے روکا تھا دکھا دیتے اوقات۔۔اپنی۔۔ حورین اپنی پر زور دیتے ہوئے بولی
تیرے سابقہ شوہر نے روک دیا تھا اور بدلے میں تیرے موکل کو خریدنا پڑا تھا اسے ۔۔بڑی عزیز ہے تو اسے لیکن اب دیکھتے ہیں وہ مجھے کیسے روکے گا۔۔۔حورین اسے دیکھتی رہی اس کو اپنا دل کچلتا محسوس ہوا "یعنی دوسرا جرم بھی حادی کو حورین کی جان کے بدلے میں کرنا پڑا تھا"
اب تم جیل میں سڑ کر اپنی آخری سانسیں گنو جو جرم تم نے کیے ہیں اور دوسروں سے کروائے ہیں اس کا حساب تم دو گے اور تم بخوبی جانتے ہو کہ حساب۔۔میں کسی کو معاف نہیں کرتی چاہے وہ میرا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔۔۔وہ تلخی سے دانت پیستے ہوئے بول کر وہاں سے چلی گئی
ماہ جبین تم کچھ کرتی کیوں نہیں میرا بیٹا جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔۔ حادی سے جان چھڑوانے کے بعد بھی ہمارا کام نہیں ہوا۔۔۔ ولید بشر آفس میں چکر کاٹتے ہوئے بول رہا تھا اور ماہ جبین صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی
ہمیں کیا معلوم تھا حادی کو چپ کرانے سے حورین چیخنا شروع کر دے گی۔۔۔
تو اسے بھی چپ کرواؤ اور میرا بیٹا آزاد کرو۔۔۔ وہ غصے سے بولا
تمہارے بیٹے سے زیادہ مجھے اپنے بیٹے کی جان عزیز ہے جو کہ اس لڑکی میں بستی ہے ۔۔۔وہ استہزاء مسکرائی
تو کیا تم میرے بیٹے کے لیے کچھ نہیں کرو گی؟۔۔ وہ حیرانگی سے بولا
ماہ جبین تب تک سب کا ساتھ دیتی ہے جب تک کوئی اسے نقصان نہ پہنچائے اور جب کوئی اپنے ساتھ اسے بھی ڈبونے لگے تو ماہ جبین اپنا راستہ الگ کر لیتی ہے۔۔۔ تو اب سے ولید بشر میں تمہارا گند نہیں سنبھالوں گی خود سنبھالو اپنا بیٹا ۔۔۔۔
اب تم ایسا کرو گی؟۔۔یاد رکھو ماہ جبین مجھے کوئی نقصان ہوا تو نقصان تمہارا بھی اتنا ہی ہوگا۔۔۔ وہ دھاڑا تھا ماہ جبین اطمینان سے صوفے سے اٹھی اور چلتے ہوئے ٹیبل کے پاس آئی
تمہارے نفع سے نہ اب میرا کوئی نفع ہوگا نہ ہی تمہارے نقصان سے مجھے کوئی نقصان ہوگا ۔۔۔ٹیبل پر پڑے پیپرز اٹھا کر ولید کے سامنے کیے جسے ولید نے دیکھا تو اس کا رنگ فک ہو گیا
تم۔تم نے یہ۔۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی؟۔۔ تم اب میرے بزنس پارٹنر نہیں رہے تو یہاں سے چلے جاؤ اس سے پہلے کہ میں گارڈز کو بلا کر تمہاری عزت کرواؤں۔۔ ماہ جبین نے انگلی سے باہر کی طرف اشارہ کرتے کہا
تمہیں میں دیکھ لوں گا تم ایسے ہی اپنی سزا سے بچ نہیں سکتی۔۔۔ ولید غصے سے آگ بگولا ہوتے آفس سے نکل گیا
ماہ جبین سب کچھ کر سکتی ہے۔۔۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی
حورین ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھی موبائل میں مصروف تھی
حورین بی بی آپ سے ملنے کوئی خاتون آئی ہیں۔۔۔ملازمہ نے اطلاع دی
خاتون؟۔۔ ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔حورین موبائل رکھتی صوفے سے اٹھی گیٹ پر کھڑی ماہ جبین کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی
اوہ ڈیئر حورین!۔۔کیسی ہو؟۔۔وہ ہمیشہ کی طرح پرجوش تھی
ٹھیک ہوں۔۔ آپ یہاں؟۔۔ خیریت؟۔۔
ہاں خیریت نہیں تھی اس لیے مجھے یہاں۔۔ تمہارے گھر آنا پڑا۔۔ ماہ جبین نے آنکھوں پر لگائے گلاسز اتارے
جی اندر آئیے۔۔۔
نہیں ادھر ہی بات کروں گی اور مختصر کروں گی۔۔۔
تو کیجیے۔۔۔حورین نے بازو پر بازو ٹکائے
حماد سے شادی کر لو۔۔۔
آپ کو میں پہلے بھی بتا چکی ہوں۔۔۔ حورین کچھ بولتی کہ ماہ جبین نے اس کی بات کاٹ دی
حماد نے پروپوز کیا ہے تمہیں۔۔پہلے میں خود ہی آئی تھی لیکن اب اپنے بیٹے کے لیے آئی ہوں اور جواب لیے بغیر نہیں جانے والی۔۔
میرا جس سے دل ہوگا میں شادی کروں گی کم از کم مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں اور میرے ذاتی معاملات میں دخل دینا بند کریں۔۔ حورین تلخی سے بولی
اگر تمہارے انکار سے حادی کی جان داؤ پر لگ جائے تب بھی ہاں نہیں کرو گی؟۔۔
مطلب؟۔۔۔ حورین کو سمجھ نہ آیا
مطلب یہ کہ اس وقت حادی جس حال میں ہے وہ میری وجہ سے ہے اور میں آگے بھی بہت کچھ کر سکتی ہوں۔۔حورین اس نے تمہاری جان کے بدلے بہت بڑے بڑے کام کیے ہیں اس نے ایک جیتی جاگتی لڑکی کی جان لیتے ہوئے بھی ایک بار نہیں سوچا تو تم اس کی جان بچانے کے لیے کتنا سوچو گی؟۔۔ وہ تیکھی سے مسکراہٹ لیے حورین کو سن کر گئی تھی
آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟۔۔
یہی کہ یہ میرے موبائل میں اس شخص کا نمبر ہے جو اس وقت حادی کے پاس موجود ہے تمہارا جواب انکار میں ہوا تو مجھے لمحہ بھی نہیں لگے گا حادی کو ہمیشہ کے لیے سلانے میں۔۔ وہ موبائل کو حورین کے سامنے لہراتی بولی اور نمبر ڈائل کر کے کان سے لگایا حورین کو خود پر آسمان گرتا محسوس ہوا وہاں جو کچھ بھی ہوا تھا وہ لمحوں کا کھیل تھا جو حورین کو سمجھنے میں وقت لگا
ہاں تم حادی کے پاس ہو نا؟۔۔ وہ موبائل پر کسی سے مخاطب ہوئی
میں کروں گی۔۔ میں حماد سے شادی کروں گی۔۔ حورین کو اپنی دنیا ہلتی محسوس ہوئی اس کی آنکھوں میں ماہ جبین کے لیے بے یقینی ڈر اور خوف تھا
ٹھیک ہے تم اسے آرام کرنے دو۔۔۔ماہ جبین کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی
تمہیں جلد رخصت کرنے آؤں گی اپنی ممی سے بات کرلو۔۔۔ وہ گلاسز آنکھوں پر لگائے حورین کا گال تھپتھپاتی باہر نکل گئی حورین وہاں بے حس و و حرکت کھڑی تھی ایک فیصلے نے اس کی پوری زندگی بدل دی تھی ماہ جبین گاڑی میں بیٹھی
ماہ جبین سب کچھ کر سکتی ہے۔۔وہ حماد کو حورین بھی دے سکتی ہے۔۔ وہ فاتحانہ انداز میں بولی جیسے اس نے آج کوئی بڑی چیز فتح کر لی ہو
کیا ہوا حورین کون آیا تھا باہر؟۔۔عدیلہ نے حورین کو ڈرائنگ روم میں آتے دیکھ پوچھا حورین سن دماغ کے ساتھ چلتی ہوئی صوفے تک آئی عینی سیڑھیاں اتر رہی تھی
حورین!۔۔
ہوں؟؟۔ حورین چونکی
میں پوچھ رہی ہوں کون آیا تھا؟۔۔عدیلہ اس کی پریشانی دیکھ صوفے سے اٹھی۔۔
وہ ممی۔۔۔ اس نے گردن پر ہاتھ پھیرا
کیا ہوا حور آپی سب ٹھیک ہے؟۔۔عینی کو حورین کی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگی
ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔اس نے گہری سانس بھری
کون آیا تھا بتا نہیں رہی تم۔۔ عدیلہ نے سختی سے پوچھا
میں شادی کر رہی ہوں۔۔۔
کیا ؟۔۔عدیلہ چونکی
ہاں میں حماد سے شادی کر رہی ہوں آپ اس کی ممی سے بات کر لیں۔۔وہ وہاں کھڑے لوگوں پر دھماکہ کرتی سیڑھیاں چڑھ گئی
یہ لڑکی اور کیا کیا دکھائے گی مجھے یا اللہ۔۔۔ عدیلہ کا سر ہی گھوم گیا اور سیڑھیوں میں عینی بے حس و حرکت کھڑی رہی
یہ۔یہ کیا بول کر گئی ہیں؟۔۔
کان بند ہیں تمہارے سنا نہیں حماد سے شادی کرنی ہے جناب کو اپنے سابقہ شوہر کے دوست سے۔۔۔یہ کتنا ظلم کرے گی اس کی جان پر۔۔ عدلیہ سر پکڑے صوفے پر بیٹھ گئی
لیکن یہ کیوں کریں گی ان سے شادی؟۔۔ عینی کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ آیا جو انکشاف اس پر ہوا وہ سچ تھا یا اس کا وہم
کیوں کرے گی؟۔۔ کیوں کرتے ہیں لوگ شادی؟۔۔ حماد نے کہا ہوگا تو اس نے ہاں کر دی۔۔۔جاؤ میرا سر نہیں کھاؤ۔۔۔
نہیں۔۔ عینی بے یقینی سے سر کو دائیں بائیں ہلاتے مڑی اور سیڑھیاں بھاگتے ہوئے چڑھ گئی
واہ آج میرا بیٹا گھر پر ہے۔۔۔ماہ جبین حماد کو اس کے کمرے میں دیکھ خوش ہوئی
جی سوچا آج گھر آکر سو جاؤں۔۔۔ حماد نے گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی
اچھا کیا ورنہ مجھے لگا تم اپنی ممی کو بھول ہی گئے اپنے دوست کے پیچھے۔۔۔ ماہ جبین اس کے پاس آکر بیٹھ گئی
آپ کہاں سے آرہی ہیں اس وقت؟۔۔
آفس تھی۔۔۔تمہیں خوشخبری سنانے آئی ہوں۔۔
اچھا میں حیران ہوں میری زندگی میں خوشخبری بھی آسکتی ہے ۔۔وہ سر جھٹکتا ہوا بولا
ہاں آسکتی ہے اور بہت بڑی خوشخبری ہے۔۔ ماہ جبین نے حماد کے کندھے پر ہاتھ رکھا
سنا دیں پھر۔۔
حورین نے تم سے شادی کے لیے ہاں کر دی ہے۔۔ ممی پلیز میں مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں مجھے سونا ہے۔۔۔حماد بیزاریت سے بولا
میں سجچ کہہ رہی ہوں مجھے حورین کی کال آئی تھی اور کل میں عدلیہ کے پاس جاؤں گی باقاعدہ بات کرنے۔۔ ماہ جبین کی بات پر حماد نے اسے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں بے یقینی سی بے یقینی تھی۔۔
ممی آپ۔آپ سچ کہہ رہی ہیں؟۔۔۔
ہاں میری جان بالکل سچ۔۔۔اس نے پیار سے حماد کے گال پر ہاتھ رکھا
لیکن کیوں؟۔۔میرا مطلب کل میں اس سے ملا تھا میں نے اس سے بات بھی کی۔۔لیکن اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔پھر اچانک کیسے؟۔۔
کیونکہ اسے یقین آگیا ہے کہ جس دنیا میں وہ بھٹک گئی ہے وہاں سے بس تم ہی اسے نکال سکتے ہو اس لیے۔۔۔
عینی بے چینی سے کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی
نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔وہ اپنے گال پر بہتے آنسوؤں کو بار بار صاف کرتی جا رہی تھی
یا اللہ میرے ساتھ۔۔میرے ساتھ ایسا۔۔میں شکوہ نہیں کر رہی۔۔مگر میں تجھ سے مانگتی رہی مگر۔۔ وہ بولتے ہوئے بار بار اپنی آنکھیں صاف کر رہی تھی
حورین بستر پر سر ٹانگوں میں دیے بیٹھی تھی
میں نہیں جانتی میں نے فیصلہ ٹھیک کیا یا غلط۔۔۔ لیکن تو مجھے صبر دینا میرے اللہ۔۔ مجھے صبر دینا۔۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا کہ میں حادی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں لیکن آپ مجھے صبر دیں۔۔۔ حادی نے ہر بار میری جان بچانے کے لیے سب کچھ کیا تو کیا میں بس اتنا سا کام نہیں کر سکتی؟۔۔" اور وہ اتنا سا کام بس یہی تھا کہ اسے کسی اور کے ساتھ زندگی گزارنی تھی اس کا نام حادی کے علاوہ کسی اور سے جڑنا تھا"
رات کافی گہری تھی عینی گاڑی سے اتر کر فٹ پاتھ پر کھڑی ہوئی یہ وہی جگہ تھی جہاں حماد اسے لائبریری کے بعد لایا تھا جہاں وہ حقیقت کی دنیا میں لائی گئی تھی کچھ دیر بعد آگے ایک گاڑی رکی اور اس میں سے حماد نکلا
عینی سب ٹھیک ہے؟۔۔ تم نے اس وقت۔۔وہ آگے بڑھتے ہوئے پوچھنے لگا
آپ حور آپی سے شادی کیوں کر رہے ہیں؟۔۔ عینی کے سوال پر وہ وہیں رک گیا
کیا مطلب کیوں کر رہا ہوں؟۔۔
جی کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔عینی نے زور دیتے ہوئے پوچھا
کیوں نہیں کر سکتا؟۔۔۔ اسے کسی نہ کسی سے شادی کرنی ہی تھی تو وہ کسی حماد کیوں نہیں ہو سکتا؟۔۔۔کیا مجھے اپنی محبت حاصل کرنے کا حق نہیں ہے؟۔۔حماد کو عینی کا سوال بہت عجیب لگا
محبت؟۔۔یکطرفہ محبت۔۔۔
"یک طرفہ محبت جان تو نہیں لیتی۔۔ مگر ہر پل جان لیتی ہے" اور آج عینی پر یہ ثابت ہو گیا کہ اس کے سامنے کھڑا موجود شخص جس کی یک طرف محبت میں مبتلا تھا جس پر دل ہار بیٹھا تھا وہ کوئی اور نہیں اس کی اپنی بہن حورین ہی تھی اور یہ جان لینے پر عینی کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی ۔۔
لیکن تم یہاں کیوں؟۔۔
مبارک ہو آپ کی محبت آپ پر مہربان ہو گئی۔۔ بس وہ مجھ پر مہربان ہونا بھول گئی۔۔ حماد کے بڑھتے قدم تھم گئے وہ عینی کو یک ٹک دیکھتا رہا وہ بچہ نہیں تھا جو اس کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکتا اور اس کی نظروں کے سامنے عینی کا بدلتا انداز کسی فلم کی طرح چلتا دکھائی دیا
عینی تم بہت اچھی ہو تمہیں اللہ بہترین سے نوازے گا۔۔۔ حماد نرمی سے بولا
مجھے بہترین کی خواہش پہلے بھی نہیں تھی نہ آگے کبھی ہو گی۔۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجھے اب بہتر کی خواہش بھی نہیں رہی۔۔ اس نے آنکھ جھپکی اور آنسو چھلک کر گال پر بہہ گیا
آپ نے سچ کہا تھا کہ ہماری قسمت میں کسی سے محبت کرنا تو لکھا ہوتا ہے لیکن ان کا ملنا نہیں لکھا ہوتا پھر چاہے ہم دم درود کریں، جادو کریں، یا دعائیں وہ ہمیں نہیں ملتے لیکن کسی اور کی جھولی میں بن مانگے دے دیے جاتے ہیں" اور حورین کو بھی تو وہ بن مانگے دے دیا گیا تھا اور مانگنے والی خالی ہاتھ کھڑی رہ گئی تھی" حماد اسے ساکت دیکھتا رہ گیا عینی نے ایک نظر حماد کو جی بھر کے دیکھا کیونکہ آج وہ جس نظر سے اسے دیکھ رہی تھی اس کے بعد وہ کبھی اس نظر سے دیکھنے کی ہمت نہیں کرے گی۔۔
میں چلتی ہوں ۔۔۔وہ اپنے گال پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیے گاڑی میں بیٹھ گئ اور حماد وہاں جوں کا توں کھڑا رہا۔۔۔
عینی اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے نور کو بیٹھا پایا
عینی تم کہاں تھی؟۔۔مجھے ڈرا کر رکھ دیا تم نے کتنا۔۔۔نور نے پریشانی سے اس سے پوچھا وہ بستر پر خاموشی سے بیٹھ گئی
عینی میں کچھ پوچھ رہی ہوں سب ٹھیک ہے؟۔۔ جب تمہاری کال آئی تو تم رو رہی تھی کیا ہوا ہے؟۔۔
رونا ہی تو ہے اب مجھے۔۔ساری عمر۔۔وہ سرد لہجے میں بولی
تم مجھے بتاؤ گی کہ کیا ہوا ہے؟۔۔
میری خوشی اور محبت بدعاؤں کی نظر ہو گئی ہے اور کیا ہونا ہے۔۔۔عینی غصے سے بولی
مجھے تمہاری سمجھ نہیں آرہی کھل کر بولو عینی کیا بات ہے؟۔۔
گناہ ہو گیا ہے مجھ سے۔۔۔
کیسا گناہ؟۔۔۔
اپنے ہی ہاتھوں اپنے دل کا قتل کیا ہے میں نے۔۔۔پہلے غلط انسان سے محبت کر کے دوسرا اس انسان سے محبت کر کے جو پہلے ہی کسی پر مر چکا ہو تیسرا اس انسان سے محبت کر کے جو کسی اور کی نہیں بلکہ میری بہن کی محبت میں گرفتار تھا۔۔ کہتے ہوئے اس کی آنکھ سے پھر آنسو روانہ تھے اسے دوبارہ اپنا دل کسی چیز سے چیرتا محسوس ہوا
وہ حور آپی سے محبت کرتے ہیں؟۔۔نور کو دھچکا لگا
نکاح ہے ان کا نور۔۔۔میں قسم سے ایسا نہیں چاہتی کچھ کرو نور اس دل کو نکال کر پھینکو میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔۔یہ مجھے مار ڈالے گا یہ مجھے زندہ نہیں رہنے دے گا۔۔۔نور اسے نکال دو میرے اندر سے اور کہیں دور پھینک دو تاکہ مجھے اس کا کرب محسوس نہ ہو سکے۔۔ عینی نور کے ہاتھ پکڑے روتے ہوئے کہتی گئی اور نور اسے بے حس و حرکت دیکھتی رہی۔۔
" آج عینی کا دل کئی حصوں میں ٹوٹ گیا تھا جس کے ٹکڑے اس کے بدن کو چھلنی کر رہے تھے۔۔ کوئی عینی سے پوچھے کے دل کا ٹوٹنا کیسا ہوتا ہے تو وہ بتاتی کے جب روح کو جسم سے جدا کیا جاتا ہے تو لگتا ہے جسم کو کانٹوں پر بچھا کر کھینچ دیا گیا ہو بلکل ویسے ہی جب دل ٹوٹتا ہے تو لگتا ہے کہ دل کو کانٹوں پر بچھا کر کھینچ دیا گیا ہو"
نور نہیں جانتی تھی کے وہ کبھی اس طرح بھی ٹوٹ سکتی ہے وہ یہی سمجھتی رہی کہ عینی حماد کے لئے وقتی پسندیدگی رکھتی ہے جو اس عمر میں سب کو ہوتی ہے۔۔ لیکن وہ کہاں جانتی تھی کہ اسے تو عشق ہوا تھا جو بڑھتے دنوں کے ساتھ ایسی جان لیوا شدت اختیار کر لے گی کے اس کی ہنستی کھیلتی عینی کو زندگی کا روگ لگا دے گا۔۔۔
صبح کا وقت تھا عینی حادی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اس کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی
تمہاری بہن بہت ظالم ہے۔۔۔ایک بار حال پوچھنے بھی نہیں آئی بیمار کا۔۔۔وہ خفگی سے بولا تو عینی نے نظر اٹھائے اسے دیکھا
ایک بات کہوں مانیں گے؟۔۔
سو کہو۔۔مانوں گا ایک بھی نہیں۔۔
حور آپی کو بھول جائیں ۔۔۔ حادی نے اسے ایک نظر دیکھا
یہ تو ایسے ہو گیا کہ تم جیتے جاگتے انسان سے کہو کہ جینا بھول جائے۔۔۔اس نے مسکرا کر سر جھٹکا
آپ انہیں بھول کیوں نہیں سکتے؟۔۔ کتنا برا کیا ہے انہوں نے آپ کے ساتھ۔۔۔عینی منہ بنا کر بولی
یہ دل کے کام ہیں عینی۔۔ دل ہم پر پورا اختیار رکھتا ہے اور ہم اس پر ذرا سی بھی دسترس نہیں رکھتا۔۔ یہ چاہتا بھی کسی کو اپنی مرضی سے ہے اور بھولتا بھی کسی کو اپنی مرضی سے ہی ہے۔۔۔
پھر تو ایسے دل کو نکال کر پھینک دینا چاہیے جو رہتا تو ہم میں ہے لیکن جیتا کسی اور کے لیے ہے۔۔۔
خیریت ہے آج منہ سے آگ کیوں برسا رہی ہو؟۔۔حادی نے اسے انکھیں سکیڑتے ہوئے دیکھا
کاش میںرے لفظوں سے واقعی سب کو آگ لگ جاتی۔۔۔ عینی لب کاٹتے ہوئے بولی
اچھا۔۔ تو مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔اس نے عینی کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا
قتل ہو رہے ہیں۔۔ اور سرعام ہو رہے ہیں
کس کے؟۔۔
دل کے اور کس کے۔۔۔
اور کس نے کیا ہے۔۔۔قتل؟۔۔
جن پر یہ مرتا ہے۔۔۔وہی تو مارتے ہیں اسے۔۔۔
بات تو سچی ہے تمہاری۔۔۔لیکن یہ پاگل پھر بھی ان پر مرتا چلا جاتا ہے۔۔۔حادی نے سرد آہ بھری
کیسے ہو حادی۔۔۔ حماد کمرے میں آیا
ہاں ٹھیک۔۔ تو بتا۔۔۔ عینی نے مڑ کر نہیں دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی
میں بھی ٹھیک۔۔۔ تمہارے لیے دو خوشخبریاں لایا ہوں کون سی سنو گے پہلے؟۔۔حماد نے عینی کو دیکھا جس کا دخ حادی کی طرف ہی تھا
کوئی بھی سنا دو۔۔۔
المیر بشر گرفتار ہو گیا ہے۔۔۔۔
کس نے کیا؟۔۔۔ وہ حیران ہوا
حورین نے۔۔۔تمہارا ادھورا کیس لڑا۔۔۔حادی کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری
اور دوسری خوشخبری؟۔۔ عینی اپنے ہاتھ مسلنے لگ گئی دل میں دعا کر رہی تھی کہ حماد حادی کو جان لیوا خبر نہ سنائے
میرا نکاح ہو رہا ہے۔۔ حماد آہستہ لب بولا
نکاح؟۔۔ تو میرے بستر پر پڑنے کا انتظار کر رہا تھا نکاح کے لیے؟۔۔ پہلے تو اسے حیرت ہوئی پھر غصہ آیا
نہیں میری ابھی بھی خواہش ہے کہ تو میرے نکاح پر ٹھیک ہو جائے۔۔کس سے ہے نکاح پوچھو گے نہیں؟۔۔
بتا دو کس کے نصیب پھوٹے؟۔۔۔حادی نے تجسس سے پوچھا
حورین کے۔۔۔ اور حماد کے لفظ پر عینی کو اپنا دل چیرتا محسوس ہوا اور حادی کسی بت کا مجسمہ بنے اسے دیکھتا رہا
میں اب چلتا ہوں بہت کام ہیں ۔۔ وہ حادی کو بت بنا چھوڑ کر چلا گیا عینی نے اپنا سر جھکا لیا اس کے آنسو ٹپ ٹپ ہاتھوں پر گر رہے تھے اس میں حادی کو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی
اس لیے تم۔۔مجھے اسے بھولنے کا۔۔ کہہ رہی تھی۔۔حادی بمشکل بولا۔۔۔لیکن میری قسمت میں پھر بھی اسے دل سے نہیں نکال سکتا۔۔۔ اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہوا اور جسم ٹھنڈا پڑنے لگا
آپ انہیں کبھی معاف نہ کرنا۔۔۔ عینی کی آواز روندھی ہوئی تھی لیکن نظریں پھر بھی نہ اٹھیں
اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔۔ جو میں اسے معاف نہ کروں بلکہ ہمارا حساب پورا ہوا میں نے اسے بہت تکلیف دی تھی بدلے میں اس نے بھی مجھے تکلیف دے دی لیکن کبھی نہ ختم ہونے والی۔۔۔لیکن اسے کہنا۔۔ ایک ہی بار میری جان لے لے۔۔ یوں قسطوں میں موت کا مزہ نہ چکھائے۔۔ حادی کہ لب تھرتھرائے تھے عینی نے بے ساختہ نظر اٹھا کر اسے دیکھا
مجھے آرام کرنا ہے تم جاؤ ۔۔۔تمہیں بہت کام ہوں گے۔۔
ح۔حادی بھیا ۔۔۔عینی کا دل ترپا تھا اسے دیکھ
پلیز مجھے آرام کرنے دو۔۔۔حادی التجائی انداز میں کہہ کر کروٹ لے کر لیٹ گیا عینی کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر آنسو صاف کرتی ہوئی اٹھ گئی حادی کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں تو آنسو چھلک کر بستر پر جذب ہو گیا حادی کو اپنی جان حلق میں اٹکتی محسوس ہو رہی تھی اسے لگا جیسے اسے زندگی دے کر روز مرنے کی بد دعا دے دی گئی ہو اور اسے اب روز ہی تو مرنا تھا کیونکہ کبھی اس کی دسترس میں رہنے والی حورین کسی اور کی دسترس میں جانے لگی تھی۔۔
دوپہر کے وقت حورین ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی عینی سیڑھیاں اترتی نظر آئی
عینی ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔۔۔حورین نے اسے صوفے پر اشارہ کرتے ہوئے بولا
تم کدھر گھوم رہی ہو مجھے نظر ہی نہیں آئی اتنے دنوں سے۔۔۔
آپ کی شادی میں مصروف ہوں۔۔ وقت کم ہے نا۔۔۔عینی صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی حورین خاموش رہی عینی نے ایک نظر اسے دیکھا جسے دلہن بننے میں ایک دن رہ گیا تھا لیکن نور دور دور تک نہ تھا چہرے پر۔۔
حور آپی گیم کھیلیں؟۔۔
کون سی۔۔
جو کھیلتے ہیں ہم۔۔
ٹھیک ہے تم شروع کرو۔۔۔۔
گرم؟۔۔ عینی نے گہری سانس بھری
دھوپ۔۔۔
رات؟۔۔۔ حورین نے پوچھا
اندھیرا۔۔۔
پانی؟۔۔
دریا۔۔۔
جھیل؟۔۔۔
آنسو۔۔۔
روشنی؟۔۔۔
چاند۔۔۔ حورین نے آنکھیں بند کر لیں
مشکل؟۔۔
صبر۔۔۔" عینی کے لیے صبر کرنا ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے"
موت؟۔۔۔
جدائی۔۔۔ " حادی سے جدائی حورین کے لیے کسی موت سے کم نہیں تھی "
پھول؟۔۔۔
مرجھانا۔۔۔ " وہ پھول تھی سو مرجھانا ہی اس کا مقدر بنا"
جھوٹ؟۔۔۔
حادی۔۔۔" حادی ایک جھوٹ تھا جو کبھی حورین کی زندگی کا حصہ تھا"۔۔۔
عینی نے اس کے جواب پر حورین کو دیکھا جو آنکھوں موندے بیٹھی تھی
خواب۔۔؟ حورین نے سوال کخا
"حماد"۔۔ وہ دل میں ہی کہہ سکی اس کے لبوں سے یہ نام ادا نہ ہو سکا "حماد اس کے لیے اب کسی خواب سا تھا"
حورین نے آنکھیں کھولیں اور عینی کو دیکھا جو کہیں کھوئی ہوئی تھی
عینی تم ہار گئی۔۔تم ٹھیک تو ہو نا؟۔۔حورین نے حیر ت سے پوچھا
جی میں واقعی ہار گئی۔۔۔اور میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔عینی سیدھی ہوئی
کچھ تو ہوا ہے گم صم لگ رہی ہو اور یہ گیم جو کبھی نہ ہارو تم۔۔وہ ہار گئی؟۔۔۔
ہاں نقصان ہو گیا ہے میرا۔۔۔
کیسا نقصان؟۔۔۔
وہ۔۔ناول کی ایک کتاب خریدنی تھی لیکن ساری بک گئی۔۔۔ اور عینی جھوٹ بولنے میں ماہر ہے
پھر تو تمہارا واقعی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہے۔۔۔ حورین افسوس میں سر دائیں بائیں ہلاتی بولی
"سچ میں میرا واقعی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہے" عینی کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا اس نے آگے بڑھ کر ٹیبل پر رکھی کین کی بوتل اٹھائی اور کھولنے لگی تبھی اس کی انگلی کٹ گئی اور اس سے خون بہنے لگا
عینی تم نے خود کو چوٹ لگا لی؟بوا جلدی سے فرسٹ ایڈ لائیں۔ ۔۔ حورین اس کے ہاتھ کو تھامے بولی عینی اپنی انگلی سے بہتے خون کو دیکھ رہی تھی اور ایک دم اس کی آنکھ سے آنسو گر کر گال پر بہہ گیا
کیا ہوا تمہیں درد ہو رہا ہے؟۔۔حورین نے اس کی انگلی کو زور سے دبایا
نہیں درد نہیں ہو رہا۔۔۔
تو رو کیوں رہی ہو؟۔۔۔
آنسوؤں کو تو بس نکلنے کا بہانہ چاہیے۔۔۔ وہ نم آنکھوں سے مسکراتی بولی وہ جو ذرا سی چوٹ پر پورے گھر کو سر پر اٹھا لیتی تھی اسے آج چوٹ لگی اور سسکی بھی نہیں نکلی کیونکہ باقی کوئی بھی چوٹ اس چوٹ کی تکلیف سے ذیادہ نہ تھی جو اسے مل چکی تھی۔۔۔
رات کے وقت حورین کمرے میں بیٹھی موبائل پر کال ملا رہی تھی
ہیلو؟۔۔
ہیلو حماد کیسے ہو؟۔۔۔
میں ٹھیک تم کیسی ہو؟۔۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں۔۔
کیسے یاد کیا مجھے؟۔۔
وہ تم سے ایک بات کرنی تھی۔۔
رکو پہلے مجھے بتا دو شادی کے متعلق کوئی بومب تو نہیں گرانے والی تاکہ میں تیار ہو جاؤں۔۔۔
نہیں مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
ہاں کرو سن رہا ہوں۔۔
کیا میں تم پر۔۔اعتبار کر سکتی ہوں؟۔۔
آنکھیں بند کر کے۔۔۔
میں نے عریشہ نوریز کو یونان سے بلایا ہے ولید بشر کے کیس کے لیے اور اسے یہاں حفاظت کی ضرورت ہے۔۔ جو شاید تم دے سکو۔۔
عریشہ نوریز؟۔۔ وہ تو
وہ زندہ ہے۔۔
اور یہ بات تم جانتی ہو؟۔۔تو تم۔۔
مجھے کچھ دیر پہلے ہی پتا چلا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے اس کی حفاظت میرے ذمہ ۔۔ مجھے بتا دینا وہ کب آرہی ہے میں پک کر لوں گا۔۔۔
وہ کل آرہی ہے۔۔۔
نکاح سے پہلے یا بعد میں؟۔۔
پہلے ہی۔۔۔
ٹھیک ہے تم بے فکر رہو۔۔۔۔
دوپہر کے وقت حورین پیلے فراک اور پجامہ پہنے ہوئے تھی اور ہاتھوں پر حماد کے نام کی مہندی لگ چکی تھی وہ کمرے میں بیٹھی ہاتھ پر لگی ہوئی مہندی کو دیکھ رہی تھی کبھی اس کے ہاتھ پر حادی کے نام کی مہندی تھی اور آج کسی اور کے نام کی وہ اپنا سب کچھ پہلی محبت پر لٹا چکی تھی اور آج اسے کسی اور سے محبت کرنی تھی۔۔۔جو وہ کبھی جائز نہیں سمجھتی تھی کہ وہ انسان جو اپنا سب کچھ کسی پر ہار چکا ہو اس کے پاس کسی دوسری محبت میں لٹانے کے لیے کیا رہے گا۔۔ اور وہ یہی سوچ رہی تھی کہ وہ حماد کو کیا دے گی۔۔۔
حور آپی پارلر کے لیے ریڈی ہو جائیں۔۔۔آپ کا ڈریس آگیا ہے۔۔۔ عینی نے دلہن کا جوڑا ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا حورین نے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا اور پھر اپنا موبائل ڈھونڈنے لگی
کیا کر رہی ہیں؟۔۔۔
میرا موبائل کہاں ہے۔۔۔ اس نے بکھرے ہوئے کپڑوں کو اٹھایا تو موبائل نظر آیا
اب اس وقت کسے کال کرنی ہے؟۔۔جلدی کریں نا ممی مجھے بول رہی ہیں۔۔ عینی نے ڈریس بیڈ پر رکھا
بس دو منٹ۔۔۔ اس نے موبائل کان سے لگایا مگر کال پک نہیں ہوئی
حماد کو کال نہیں لگ رہی۔۔۔
اتنی بے تاب ہیں بات کرنے کے لیے۔۔۔
بکواس نہیں کرو ضروری کام تھا۔۔۔حورین نے دوبارہ کال ملائی
ارے جب وہ فری ہوں گے کال کر لیں گے۔۔۔ کیوں میرا قتل کروانا ہے۔۔ آخر حورین کو اٹھنا ہی پڑا
حورین پارلر چلی گئی اور عینی بھی روم میں تیار ہو رہی تھی تب ہی اس کے موبائل پر کال آئی اس نے ایئرنگز کان میں ڈالتے ہوئے موبائل پر نظر ڈالی تو ہاتھ وہیں رک گئے وہ حماد کی کال تھی اس نے کال اٹھائی
ہیلو۔۔۔
ہیلو عینی سوری تمہیں ڈسٹرب کیا۔۔حورین کہاں ہے؟۔۔۔
وہ آپ کا انتظار کر کے پارلر جا چکی ہیں۔۔۔
اچھا اسے کال نہیں مل رہی وہ آئے تو اسے کہنا مجھے کال کر لے ۔۔۔
جی اللہ حافظ۔۔۔ عینی نے فون رکھ دیا اس نے گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی اور اپنے بے ترتیب دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر اسے لگام ڈالی۔۔۔ وہ سیڑھیاں اترتی نیچے آئی اس نے جامنی قمیض اور شرارہ پہن رکھا تھا بالوں کو پراندہ کیے اور دو لٹ چہرے کو چھو رہی تھیں زیادہ میک اپ نہیں تھا بالکل سادہ تیار تھی لیکن بہت حسین لگ رہی تھی
عینی تیار ہو گئی تم؟۔۔ عدیلہ اپنے کمرے سے نکلتی بولی
جی ممی۔۔ میں بس تھوڑی دیر میں آرہی ہوں۔۔۔
کیوں کدھر جانا ہے تمہیں؟۔۔سب کچھ چھوڑو میرا یہ نیکلس بند کرو۔۔۔ وہ ہاتھ میں نیکلس پکڑے کھڑی تھی
ممی مجھے نور کو پک کرنے جانا ہے۔۔آپ۔آپ کا نیکلس۔۔۔عینی نے سیڑھیاں اترتی ہوئی کزن کا ہاتھ پکڑے روکا
عنیز ممی کو نیکلس پہنا دو۔۔
تم کیوں لینے جا رہی ہو اسے وہ خود کیوں نہیں آرہی؟۔۔عدیلہ غصے میں بولی
ممی دو منٹ میں آ جاؤں گی اس کا ڈرائیور نہیں ہے اللہ حافظ۔۔۔ وہ کہتی ہوئی ڈرائنگ روم سے نکل گئی
گندی اولاد۔۔۔ یہ عنیز بیٹا مجھے پہنا دو۔۔۔ عدیلہ نے اسے نیکلس پکڑایا
وہ ہاسپٹل کے روم میں داخل ہوئی تو حادی تیار بیٹھا نظر آیا
السلام علیکم!۔۔
وعلیکم السلام۔۔تم یہاں؟۔۔۔ حادی نے اسے سر تا پاؤں تیار دیکھ کر پوچھا
ہاں ڈسچارج ہو رہے ہیں آج تو آپ سے ملنے آگئی۔۔۔عینی سامنے صوفے پر بیٹھ گئی
پھوپھو مجھ سے ملنا نہیں چاہتیں ؟۔۔کافی دن سے نہیں آئیں۔۔ وہ کلائی پر گھڑی پہننے لگا
ملنا چاہتی ہیں لیکن ملنے کی ہمت نہیں ان میں۔۔۔
کیوں بھائی؟۔۔ حادی نے حیرت سے پوچھا
وہ شرمندہ ہیں اپنی حور بیٹی کی وجہ سے۔۔ کہ انہوں نے کس کس انداز میں آپ کی جان لی ہے۔۔۔عینی دیوار پر ٹک ٹکی باندھی بیٹھی تھی
ان سے کہو وہ فکر نہ کریں۔۔۔ حورین کے پاس اگر ہزار طریقے بھی ہوں مجھے مارنے کے تو ہزار طریقوں سے میری جان لے لے گی۔۔ آخر ظالم حسینہ ہے وہ۔۔۔ حادی نے زخمی سا مسکراتے ہوئے سر جھٹکا
اب کیا کریں گے آپ؟۔۔
بریک لے رہا ہوں۔۔۔
کس سے؟۔۔
زندگی سے۔۔۔
مطلب؟۔۔
جا رہا ہوں۔۔۔
کہاں؟۔۔۔
ابھی تو ترکی جا رہا ہوں۔۔پھر جہاں میری قسمت لے جائے وہاں جاؤں گا۔۔۔
آپ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟۔۔۔عینی نے حیرانگی سے دیکھا
تم سب ایک دوسرے کے لیے ہو میرے لیے یہاں کوئی نہیں ہے اس لیے جانا چاہتا ہوں۔۔حادی نے اپنے ہاتھ کو انگوٹھے سے مسلا
وکالت چھوڑ دیں گے؟۔۔
ہاں۔۔
لیکن وہ تو آپ کا پسندیدہ پیشہ تھا۔۔۔
مجھے پتا نہیں تھا میرا پیشہ میری جان لینے کا سبب بنے گا۔۔۔جانتی ہو میں نے ہر بڑا مقدمہ چلاکی اور دماغ سے کھیلا اور جیت گیا لیکن جب محبت کے مقدمے میں ایمانداری اور دل سے کھیلا تو محبت کی پہلی ہی سنوائی میں مجھے مات ہوگئی۔۔۔ ہر مقدمہ جیتنے والا آج اپنی محبت کا مقدمہ ہار گیا ہے۔۔ عینی اسے خاموشی سے دیکھتی رہی۔۔۔
حور آپی جانتی ہیں آپ نے کسی کا قتل نہیں کیا۔۔۔عینی کی بات پر حادی کا حرکت کرتا انگوٹھا رک گیا اس نے گہری سانس لیتے ہوئے آنکھیں زور سے میچ لیں
لیکن پھر بھی قتل تو مجھ سے ہوا ہے۔۔۔ گہری سانس سے اس کے لب تھرتھرائے تھے جیسے وہ بس رو دینے والا ہو
کیسے؟۔۔۔
میں نے محبت میں بے وفائی کر کے۔۔۔ محبت کا قتل کیا ہے۔۔اور جانتی ہو محبت میں بے وفائی صرف کسی تیسرے شخص کے آنے سے نہیں ہوتی۔۔بے وفائی کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں محبت کرنے والے کا یقین توڑنا اس کے اعتبار کی دھجیاں اڑا دینا اور اس کا مان توڑ دینا اور یہ سب جرم مجھ سے ہوئے ہیں۔۔۔عینی اسے بے حس و حرکت دیکھتی رہی اور اس نے دل میں محبت کو بددعا دی "کہ تم کیسے کیسو کو کھا گئی تمہیں بھی عدالت کی پہلی سنوائی میں سزائے موت نصیب ہو۔۔ لیکن وہ کیا جانے کہ قانون کی کسی بھی عدالت میں محبت کی کبھی سنوائی نہیں ہو سکتی"
حورین دلہن کے جوڑے میں تیار تھی اوف وائٹ قمیض پر گولڈن تلے کا کام اور ایسا ہی شرارہ تھا اور سر پر بھی کام سے بھرا اوف وائٹ ڈوپٹہ اور ہلکے سے میکاپ میں بھی قیامت ڈھا رہی تھی نکاح میں کچھ وقت رہ گیا تھا حورین دلہن بنی اپنے دادا کے گھٹنوں سے لگی بیٹھی تھی جو اسے مسلسل سر پر پیار دے رہے تھے
دادا ابو میں نہیں جانتی میرا فیصلہ ٹھیک ہے یا غلط مگر آپ دعا کیجئے گا کہ جو فیصلہ میں لے چکی ہوں اللہ مجھے اس پر صبر کرنے کی توفیق دے۔۔۔
تم نے بہت اچھا فیصلہ لیا ہے دیکھنا تمہاری اگلی منزل بہت آسان ہوگی۔۔۔ تم نے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں میری بیٹی اب تمہارے زخموں کو مرہم مل جائے گا۔۔۔وہ اس کے بالوں کو پیار سے سہلا رہے تھے
زخم کسی اور سے ملیں تو اس کی دوا کوئی اور کیسے بن سکتا ہے؟۔۔
یہ سب اللہ کے کام ہیں میری جان اگر اس نے تمہیں کچھ دے کر آزمایا ہے تو وہ تم سے لے کر بھی آزمائے گا۔۔۔
حور آپی نکاح کا وقت ہو گیا۔۔۔عینی دروازہ کھولے اندر آئی
چلو میری بیٹی تمہاری خوبصورت زندگی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔۔جمشید صاحب نے آخری بار سر پر ہاتھ پھیرا تو حورین آنکھوں سے آنسوؤں کو صاف کرتی اٹھ گئی
حماد نے سفید کرتا پہنا تھا جس پر گولڈن کا کام تھا اور سفید ہی پجامہ وہ دولہا بنے کوئی ہو بہو شہزادہ لگ رہا تھا۔۔ دونوں کو آمنے سامنے پھولوں کی چادر کے اوڑھ میں بٹھا دیا گیا تھا جگہ وہی تھی وقت بھی وہی تھا موقع بھی وہی تھا دلہن بھی وہی تھی اگر کچھ بدلا تھا تو صرف حماد۔۔۔
عینی سامنے کھڑی دونوں کو دیکھ رہی تھی نور نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے پھول لیے
عینی تم اتنی ٹھنڈی کیوں پڑ رہی ہو؟۔۔ کسی لاش کی طرح ٹھنڈے پڑتے عینی کے ہاتھ کو پکڑے نور نے پریشانی سے پوچھا
مجھے پکڑ کے رکھو نور۔۔۔ میں یہاں ڈھیر ہو کر اپنی بہن کی خوشیوں کو ماتم کا سماں نییں بنانا چاہتی۔۔۔عینی نے نور کا ہاتھ زور سے دباتے ہوئے کہا
عینی تم ٹھیک تو ہو؟۔۔۔
کچھ مت بولو میں نہیں جانتی میں نے اپنے اس بے جان جسم کو کس طرح کھڑا رکھا ہے یہاں۔۔۔ عینی کے لفظوں می کپکپاہٹ تھی
دختر حورین بنت اورنگزیب کیا آپ کو دس لاکھ روپے سکّہ راج البخت حماد ولد شفیع کے ساتھ نکاح پڑھایا جاتا ہے قبول ہے؟۔۔۔ کچھ دیر کی خاموشی چھا گئی اور یہ خاموشی کتنے لوگوں کے دل پر بن آئی تھی
ق۔قبول ہے۔۔۔ "حورین نے حادی کے ساتھ گزارے ہر لمحے کو اپنے نقش سے مٹا دیا"
قبول ہے۔۔۔ " اس نے حادی سے کی گئی بے غرض محبت کو دل کے ملبے تلے دفنا دیا"
قبول ہے۔۔۔ " اس نے خود کو حماد کی ملکیت میں سونپ دیا" ۔۔۔اور آج حورین اورنگزیب اور حماد شفیع حورین حماد شفیع ہوئے یہ خوشیوں کا سماں کسی دکھ کے سماں سا تھا لیکن سب خوش نظر آرہے تھے اور آج اگر کوئی بہت خوش تھا تو بے شک وہ ماہ جبین تھی جس نے اپنے بیٹے کی حورین اسے دے دی تھی۔۔۔ نکاح میں کچھ ہی لوگ شامل تھے اور سب اب دلہا دلہن کو مبارکباد دے رہے تھے۔۔۔"جہاں آج حماد کو اس کی بے پناہ چاہی محبت ملی تھی وہاں حورین کو اس کی بے پناہ چاہی محبت سے دستبردار ہونا پڑا"
حورین بستر پہ بیٹھی ہوئی تھی اور اس کی نظریں اپنے ہاتھوں پر مرکوز تھیں ارد گرد پھولوں کی سجاوٹ کی گئی تھی جس کی خوشبو فضا میں رقص کر رہی تھی وہ آج دوسری بار دلہن بن کر کسی اور کے گھر کسی اور کے کمرے اور کسی اور کی ملکیت میں تھی۔۔جہاں دلہن ہزاروں جذبات لیے بیٹھی ہوتی ہے مگر وہ ہر جذبات سے آڑی تھی تبھی دروازہ کھلا اور کسی کے قدم اپنی طرف آتے محسوس کیے وہ اپنے ہاتھوں کو مسلنے لگ گئی حماد اس کے پاس بستر پر بیٹھ گیا
کیسی ہو؟۔۔
ٹھیک ہوں۔۔ مختصر سوال کا مختصر جواب آیا
بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔ حورین کا چہرہ گھونگھٹ سے ڈھکا ہوا نہیں تھا
مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ تم نے دنیا کی سب سے خوبصورت دلہن دیکھی ہے تو میں تمہارا نام لوں گا۔۔۔ میں نے حورین کو دیکھا ہے یا اس کے علاوہ کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں۔۔ وہ اس کے چہرے کو اپنی آنکھوں کے حصار میں لیے بول رہا تھا اور حورین کے لب باہم پیوست تھے اور انگلیوں کو مسلنے کا کام جاری تھا حماد نے شیروانی کی جیب سے ایک ڈبی نکالی اور حورین کے سامنے کر دی اس کی حرکت کرتی انگلیاں تھم گئیں اور نظریں اٹھا کر سیاہ ڈبی کو دیکھا
یہ تمہارے لیے میں نے انگوٹھی لی تھی۔۔ اس نے ڈبی کھولی تو اس میں ایک رنگ تھی جس پر سفید ہیرا جڑا ہوا تھا اور اس کے چاروں کونوں پر چھوٹے پھول بنے تھے دیکھنے میں انتہائی دلکش تھی
یہ پتہ نہیں میں نے کب لی۔۔ تمیں سوچ کر لی تھی لیکن دینے کی غرض سے نہیں کیونکہ مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ کبھی مجھے تمہاری انگلیوں میں یہ پہنانے کا موقع بھی ملے گا۔۔۔ وہ کہتے ہوئے ہنس دیا۔۔ لیکن کسے پتہ تھا کہ میرے ساتھ ساتھ اس انگوٹھی کی قسمت بھی چمک جائے گی۔۔
کیا میں پہنا دوں؟۔۔ اس نے اجازت چاہی جس پر حورین نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا اور مہندی لگا ہاتھ آگے بڑھایا جسے حماد نے تھام لیا اور انگوٹھی پہنا کر اس کے ہاتھ کو دیکھتا رہا اس کے ہاتھ پر پہنی انگوٹھی میں جڑا ہوا ہیرا پورے حق سے چمک اٹھا جیسے وہ اپنے اصل حقدار کے پاس پہنچ چکا ہو حماد نے بےساختہ جھک کر انگوٹھی پہنی ہوئی انگلی پر لب رکھ دیئے جس پر حورین کا دل پوری شدت سے باہر نکلنے کے لیے مچل اٹھا
رات کے اس پہر چاند بھی زمین پر موجود لوگوں کی تباہی دیکھ کر بادلوں میں پناہ لے گیا
صبح کے وقت ماہ جبین ٹیبل پر ناشتہ لگوا رہی تھی اس نے براؤن شرٹ اور سفید ٹراؤزر پہن رکھا تھا بالوں کا سٹائلش جوڑا کیا خاصی دلکش لگ رہی تھی کچھ دیر بعد حورین کو کمرے سے باہر نکلتے دیکھا اس نے مہرون کامدار فراک اور پجامہ پہن رکھا تھا اور بال کھلے اور سیدھے تھے
تم اٹھ گئی ؟۔۔۔
جی۔۔۔ وہ چلتے ہوئے ٹیبل کے پاس آئی
تمہارے گھر سے ناشتہ آگیا ہے میں نے اس تکلف سے منع بھی کیا تھا۔۔ وہ ٹیبل پر اشارہ کرتی بولی جہاں ناشتہ لگ چکا تھا حورین نے کوئی جواب نہ دیا وہ حورین کو پہلے بھی پسند نہیں تھی لیکن دھمکی دینے کی وجہ سے اسے ماہ جبین سے نفرت ہوگئی تھی
حماد کہاں ہے؟۔۔
وہ بس آتا ہی ہوگا۔۔
ٹھیک ہے تم بیٹھو۔۔ ماہ جبین نے کرسی کی طرف اشارہ کیا تب ہی حماد بھی کمرے سے نکل آیا اس نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی
کیا ہو رہا ہے۔۔ ان کے پاس آکر پرجوش انداز میں بولا
کتنا پیارا لگ رہا ہے میرا بیٹا اللہ تمہیں بری نظر سے بچائے۔۔۔ ماہ جبین نے حماد کے گال پر ہاتھ رکھتے پیار سے کہا
آپ کی بہو سے کم ہی لگ رہا ہوں ۔۔ حماد نے مسکراتے ہوئے ماہ جبین کے گال پر رکھے ہوئے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے حرین کو دیکھا
یہ تو ہے ۔۔ چلو آؤ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔۔۔حماد نے آگے بڑھ کر حورین کے لیے کرسی پیچھے کی جس پر وہ بیٹھ گئی
تو کب تک جا رہے ہیں آپ؟ ۔۔۔ وہ اس کے سوال پر آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھنے لگا
تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو ؟۔۔ حادی عینی کو اتنی صبح اپنے گھر کے باہر دیکھ حیران ہوا
ملنے آئی ہوں آپ سے اندر نہیں بلائیں گے؟۔۔ وہ اندر آنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن حادی کا بھاری بھرکم بازو دیوار کی طرح بیچ میں حائل تھا اس نے گہری سانس بھرتے بازو ہٹا لیا اور اندر آنے کا راستہ دیا
تم یونیورسٹی نہیں گئی؟۔۔
نہیں چھٹی کر لی۔۔۔
کیوں ؟۔۔شادی کی خوشی میں؟۔۔ اس نے صوفے پر بیٹھتے پوچھا
نہیں آپ کا غم بانٹنے کی خوشی میں۔۔۔ عینی پورے استحاق سے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھ گئی
کس بات کا غم ؟۔۔ حادی نے آبرو اٹھائیں
لے دن دیہاڑے آپ کی محبت کسی اور کی ہو گئی غم نہیں منائیں گے آپ؟۔۔۔۔ عینی نے حیرت سے پوچھا
وہ جس کی ہوئی وہ میرا دوست ہے اور جانتا ہوں بہت خوش رکھے گا ۔۔ اب تم ہی بتاؤ اس کے خوش رہنے پر غم مناؤں گا؟۔۔
ان کے خوش ہونے پر نہ منائیں اپنے برباد ہونے پر تو منائیں۔۔۔
تم کیوں چاہتی ہو میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر غم مناؤں؟۔۔
یہ پہلا سوال اچھا کیا ہے آپ نے۔۔ ساتھ غم منانے کی آفر اس لیے دے رہی ہوں کہ آپ کے پاس ہوئی تو آپ کو دو لفظی جملے دلاسے دے دوں گی یا کہوں گی جانے دیں جو آپ کا نہیں تھا اس پر کیا ٹسوے بہانا۔۔ لیکن اگر اکیلے میں غم منایا تو ایسے بکھریں گے کہ سمیٹے نہیں جائیں گے ۔۔۔وہ ہاتھوں کے اشارے سے بولتی گئی اور حادی اسے دیکھتا رہا
تمہیں لگتا ہے میں سمیٹے جانے کے قابل بچا بھی ہوں؟۔۔ اور اس کے ایک سوال پر عینی یک ٹک اسے دیکھنے لگی اسے لگا بس جو ہمت وہ جمع کر کے آئی تھی آنسوؤں کے ذریعے بہہ نا جائے وہ کمزور نہیں پڑ سکتی تھی۔۔ تبھی اس نے گہرا سانس لیا اور آنکھوں کو جھپکتے ہوئے آنسوؤں کو باہر آنے سے باز کیا
کسی کے پیچھے بکھر جانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔۔۔ وہ منہ میں بڑبڑائی جس کی آواز حادی کے کانوں تک پہنچ گئی
تو آپ ہی بتا دیں میڈم۔۔ محبت کے رخصت ہو جانے پر خوش ہونا کہاں کی وفاداری ہے؟۔۔ وہ بے تاثر لہجے میں بولا عینی لب کاٹتے اسے دیکھنے لگی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی
تو سیدھا بولیں میرے دلاسوں کی ضرورت نہیں آپ کو۔۔ اکیلے ہی غم منا کر کسی رانجھے کی طرح روگ پالنے ہیں۔۔ بکھرنا ہے مرنا ہے مٹنا ہے لیکن ایک بات بتا دوں وہ نہیں ملنے والی آپ کو میں خام خواں یونیورسٹی سے چھٹی کر بیٹھی ہوں۔۔۔ وہ سپاٹ سی کہتی ہوئی ڈرائنگ روم سے چلی گئی اور حادی سرد آہ بھر کر اسے دیکھتا رہا
وہ گیٹ سے باہر نکلی
آئی تھی تم بڑی تیس مار خاں بن کر خود کو محبت میں بکھرنے سے روک نہیں سکتی دوسروں کو سنبھالنے چلی تھی۔۔ وہ خود کو کوستی اپنے لب کاٹ رہی تھی آنکھوں میں اترتی نمی کے باعث اس کے سامنے موجود ہر شے دھندلی نظر آنے لگی وہ گہری سانس لیتے خود کو نارمل کرتی گاڑی کی طرف بڑھ گئی
شام کا وقت ہو چکا تھا گاڑی گھر کے باہر رکی تو وہ گاڑی سے نکل کر اندر داخل ہو گئی
ارے عینی بی بی اتنی دیر کر دی آپ نے آنے میں حورین بی بی کب سے آپ کا پوچھ رہی ہیں۔۔ لان میں کھڑی ملازمہ نے عینی کو دیکھ فوراً خبر پہنچائی
دوست کی طرف تھی دیر ہو گئی۔۔ حور آپی آئی ہیں؟۔۔ وہ خوشی سے کہتی تیز قدم اٹھاتی جانے لگی
ہاں جی۔۔ حور بی بی اور حمادہ بابا آئیں ہیں نا تو اس لیے پوچھ رہے ہیں۔۔۔ اور وہیں تیز قدم آہستہ پڑ گئے اور پھر یک دم رک گئے اسے لگا وہ اب اگلا قدم نہیں اٹھا سکے گی
"مبارک ہو عینی تم پر جینے کے ساتھ ساتھ مرنا بھی واجب ہو گیا ہے" وہ ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے لے گئی ہاتھوں کو مسلتے اندر بڑھی
حور آپی آپ ۔۔۔ حورین کو ڈرائنگ روم میں بیٹھے پایا
آگئ تم کب سے انتظار کر رہی ہوں تمہارا۔۔ حورین اسے دیکھ بولی
ہاں بس نور کی طرف تھی دیر ہو گئی آنے میں۔۔
ایک یہ اور ایک اس کی نور پتہ نہیں کب ان کی دوستی کو بریک لگے گی۔۔ عدیلہ بیگم ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگواتے بولیں عینی نے مسکراتے ہوئے لب کاٹتے ادھر ادھر نظر گھمائی
آپ کے دلہا صاحب کہاں ہیں؟۔۔۔
وہ بس تھوڑی دیر پہلے ہی نکلا ہے ضروری کام آگیا تھا۔۔ حورین بتاتے ہوئے اٹھ گئی اور عینی کا رکا سانس بحال ہوا وہ جلدی سے اٹھتے سیڑھیاں چڑھ کر جانے لگی
کہاں جا رہی ہو کھانا تو کھا لو۔۔ عدیلہ نے اسے دیکھتے کہا
آتی ہوں ممی۔۔ وہ کہتی تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی
صبح کا وقت تھا حورین سفید فراک اور سفی ہی پجامہ پہنے کندھوں پر سرخ دوپٹہ پھیلائے بال کھلے ہوئے کمر پر تھے ڈریسنگ ٹیبل پر کھڑی ڈریسنگ کو سیٹ کر رہی تھی مسلسل ہاتھوں کی حرکت کی وجہ سے کلائیوں میں پہنی سرخ چوڑیاں کھنکتی کمرے میں پھیلی خاموشی کو توڑتی تھیں وہ اب باکس میں سے ایک ایک کر کے پرفیومز نکال کر سامنے رکھنے لگی آخری پرفیوم کی بوتل باکس سے نکالی کہ اس کا رنگ دیکھ اس کے ہاتھوں کی حرکت تھم گئی وہ گلابی رنگ کی تھی جیسی حادی نے اسے دی تھی بالکل ویسی نہیں تھی وہ کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی
"کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اب سے مجھے تمہاری خوشبو کے علاوہ کسی کی خوشبو نہ آئے " اسے اپنے دل میں کچھ چبتا محسوس ہوا تبھی دروازہ کھلا اور حماد اندر آیا حورین نے چونک کر اسے دیکھا
کیا کر رہی ہو؟۔۔ حماد نے دیکھ سوال کیا
کچھ نہیں۔۔ بس ایسے ہی۔۔ اس نے فوراً پرفیوم باکس میں واپس ڈال دی
اچھا تو اپنا ہاتھ لاؤ۔۔۔ حماد نے ہاتھ آگے بڑھایا
کیوں؟۔۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
ایک تو تم سوال بہت کرتی ہو کبھی اچھی بیویوں کی طرح ہاں میں ہاں بھی ملا لیا کرو۔۔ وہ آنکھیں گول کئے بولا تو حورین مسکرا کر سر جھٹکا اور ہاتھ آگے کر دیا حماد نے اس کا ہاتھ تھاما اور کمر کے پیچھے کئے ہاتھ کو آگے بڑھایا جس میں گلابی اور پیلے پھولوں کا گجرا تھا وہ اس کی کلائی پر پہنی چوڑیوں کو پیچھے کرتا ہاتھ میں گجرا پہنانے لگا
میں نے سوچا پھولوں پر مرنے والی لڑکی کو روز گجروں سے نوازا جائے۔۔۔ اس نے پہنانے کے بعد گجرے پر اپنی شہادت کی انگلی پھیری
یہ بہت پیارے ہیں حماد ۔۔ حورین نے چمکتی آنکھوں سے گجرے پر ہاتھ پھیرا
اہاں۔۔۔مجھے نہیں لگ رہے تھے اتنے پیارے۔۔۔ وہ اب دوسری کلائی پر پہنانے لگا
لیکن جب کوئی چیز تم پہن لو تو اسے خوبصورتی مل جاتی ہے۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بولا
تمہارا شکریہ۔۔ وہ آہستہ لب بولی
کوئی کام کر رہی تھی تم ؟۔۔ وہ گہری سانس بھرتا بیڈ پر بیٹھ گیا
ہاں بس سیٹنگ کر رہی تھی۔۔ اتنے دن سے کر نہیں سکی ۔۔وہ دوبارہ باکس سے سامان نکالنے لگی
عینی یونیورسٹی میں موجود باغ میں چکر کاٹ رہی تھی اور نور اس کے پیچھے پیچھے اس سے باتیں کر رہی تھی جو شاید اس کے کانوں تک بھی نہیں پہنچ رہی تھیں
عینی میں کب سے تم سے بات کر رہی ہوں اور تم چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہو۔۔ نور جل کر بولی
میرا کچھ سننے کو دل نہیں کر رہا نور۔۔ سنتی ہوں تو لگتا ہے مجھے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا۔۔ عینی کے چلتے قدموں کو بریک لگی اور چپ کا روزہ ٹوٹا
شکر اللہ کا تم بولتی ہو مجھے لگا گونگی ہو گئی ہو... کیوں کیا ہوا کانوں کو بہری تو نہیں ہو گئی۔۔ پہلی بات پر نور نے سکھ کا سانس لیا اور وہیں دوسری بات پر فکر سے پوچھا
پتہ نہیں میرے ارد گرد ہر آواز خلا سے آتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ لگتا ہے جیسے میرا دل کسی خلا میں پھنس کر رہ گیا ہو۔۔۔ دل کرتا ہے کچھ کر لوں۔۔۔
کیا کر لوں؟۔۔ خودکشی؟۔۔ اس نے آنکھیں گھمائیں
خودکشی حلال ہوتی تو قسم سے کر لیتی۔۔ کاش یہاں زندہ لوگوں کو مار دینا حرام ہو جائے یا پھر خودکشی حلال ہو جائے۔۔۔ عینی لب کاٹتے بولی
عینی یہ دنیا کاش پر نہیں چلتی یہاں حسرتوں کے سوا کچھ نہیں۔۔ اور میری حسرت ہو رہی ہے کہ ہم کینٹین سے کچھ کھا لیں جو پوری ہو جائے گی ۔۔۔ وہ آبرو اچکاتی عینی کا بازو پکڑے لے جانے لگی
تم کسی دن کھا کھا کر مر جاؤ گی۔۔ عینی جل کر بولی
توبہ توبہ کتنی ظالم ہو میرے کھانے کو نظر لگائے بیٹھی ہو ۔۔۔ میں تو تمہارے لیے بول رہی ہوں کہ غم منانے کے لیے پیٹ میں کچھ ہونا ضروری ہے۔۔ نور افسوس سے سر دائیں بائیں ہلاتی بولی
دوپہر کے وقت حورین لان کی طرف آئی تو وہاں ماہ جبین کھڑی ملازمہ کو پودوں کو ٹھیک سے پانی دینے کی ہدایت دے رہی تھی
اوہ حورین تم آگئی ۔۔۔ وہ حورین کو دیکھ بولی جس پر حورین خاموش رہی
اچھی بات ہے تم آگئی ۔۔ دیکھ لو سب کام آخر تمہیں ہی سنبھالنا ہے یہاں کے سب ملازموں کو ۔۔۔وہ مسکرا کر بولی جس پر حورین مسکرا بھی نہ سکی
آپ کو لگتا ہے جو آپ کر چکی ہیں ان سب سے بچ سکتی ہیں؟۔۔ اس نے تلخ لہجے سے سوال کیا
میں نے کیا کیا ہے ؟۔۔ ماہ جبین نے حیرت سموئے پوچھا
آپ اچھے سے جانتی ہیں میں کس کی بات کر رہی ہوں۔۔۔ حورین نے دانت پیستے جواب دیا
اوہ مائی ڈیئر حورین۔۔ اب ان سب باتوں کا کیا فائدہ ۔۔ فائدہ تو تب ہو جب کوئی نتیجہ نکلے اور مجھے اب کوئی کیا کر لے گا؟۔۔ تم ہی بتا دو کیا تم اپنے شوہر کی ماں کو جیل میں ڈال سکتی ہو ؟۔۔ماہ جبین کے طنزیہ پوچھنے پر حورین اسے لب بھینچ کر دیکھتی رہی
دیکھو تم اب بہو ہو میری حماد کی طرح عزیز ہو مجھے۔۔ تم سے دشمنی نہیں رکھ سکتی آخر کو میرے بیٹے کی محبت ہو تو بہتر یہی ہے اس سب کو جتنا جلدی ہو سکے ایکسیپٹ کر لو۔۔۔ وہ نرمی سے اس کے کندھے کو تھپکاتی اندر چلی گئی
رات کے وقت حادی بیڈ سے ٹیک لگائے آنکھوں پر بازو ٹکائے ہوئے تھا اور سائیڈ ٹیبل پر موبائل نجانے کب سے بج رہا تھا لیکن تھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا بجتے ہوئے پھر خاموش ہوا اور کمرے میں کچھ دیر کی خاموشی چھا گئی تب ہی وہ دوبارہ بج اٹھا حادی نے آنکھوں سے بازو ہٹاتے موبائل پکڑا سکرین پر ابھرتا نام عینی کا تھا اس نے موبائل کان سے لگایا
حد ہے میں صبح سے کال کر رہی ہوں اور جناب ہیں کے فون اٹھانا گوارا نہیں کر رہے۔۔ فون اٹھتے ہی عینی جل کر بولی
کیا بات ہے عینی کیوں کال کی ہے۔۔ وہ بھاری لہجے میں بولا
تو اب مطلب آپ میری کالز سے بیزار بھی ہو گئے ہیں ؟۔۔ اس نے صدمے سے سوال کیا مگر حای کچھ نہ بولا
وہ ۔۔میں نے پوچھنا تھا کہ۔۔ ہمیں چھوڑ کر کب جا رہی ہیں؟۔۔ حادی کو نہ بولتے پایا تو خود ہی سوال کر دیا
جلد ہی ۔۔ مختصر جواب آیا
مطلب مانتے ہیں ہم سب پر ظلم کرنے لگے ہیں کیونکہ کسی کو چھوڑ کر جانا ظلم سے کم نہیں ہوتا۔۔ عینی کے بولتے ہی حادی کو اپنی سماعتوں میں کرب سے بھری آواز گونجتی محسوس ہوئی
"تم بہت ظالم ہو حورین تم نے مجھ پر رحم نہیں کیا " اس نے ایک گہری سانس بھری
جو ظالم ہوتے ہیں وہ بس ظلم ہی کرتے ہیں ان سے رحم کی امید نہیں کی جا سکتی۔۔۔ عینی میں اکیلے میں غم نہیں مناؤں گا۔۔ نہ ہی روؤں گا ۔۔ اور نہ ہی رانجھے کی طرح روگ پالوں گا اس لیے میرے لیے پریشان نہ ہوا کرو ۔۔۔ حادی کے سنجیدہ لہجے پر عینی کچھ دیر کے لیے خاموش رہی
ارے منا لیں غم۔۔۔ نہ منایا تو آپ کے اندر سے خاک بھی نہیں ملے گی آپ کی۔۔ اور جانے سے پہلے ملتے جائیے گا اتنا مہربان تو ہونا بنتا ہے ایک ظالم کا۔۔ میں فون رکھتی ہوں اللہ حافظ۔۔ وہ کچھ دیر فون کو دیکھتا رہا پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر دوبارہ آنکھوں پر بازو ٹکا لیے۔
شام کے وقت حورین لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھی تب ہی مین گیٹ کھلا اور حماد کی گاڑی اندر داخل ہوئی حورین نے ایک نظر اسے دیکھا وہ گاڑی سے نکل کر لان میں ہی آ رہا تھا
کیا کر رہی ہو؟۔۔ اس کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا
کچھ نہیں۔۔ چائے پیو گے تم؟۔۔
نہیں تم پیو۔۔ اس نے کرسی سے ٹیک لگا لی
کہاں گئے ہوئے تھے؟۔۔
بس کچھ کام تھا ضروری۔۔ کیوں تم نے مجھے مِس کیا؟۔۔۔ حماد نے آبرو اٹھائے پوچھا جس پر حورین ہلکا سا مسکرا دی وہ اب کچھ سوچتے کپ کے گرد انگلی چلانے لگی
حماد تم سے کچھ مانگوں تو دوگے؟۔۔
جان بھی مانگ لو تو دے دوں گا۔۔۔
جان کیوں مانگوں۔۔مجھے بیوہ تھوڑی ہونا ہے۔۔ وہ ترک کر بولی
مطلب میری جان کی پرواہ نہیں۔۔ اپنے بیوہ ہونے کی پرواہ ہے ؟۔۔ حماد نے صدمے سے سامنے بیٹھی ظالم کو دیکھا
جان کی پرواہ ہے تبھی تو کہا۔۔
اچھا مذاق کر رہا ہوں۔۔ بولو کیا چاہیے۔۔
اعتبار چاہیے۔۔ دھیمے لہجے میں کہا
وہ بس تمہارے لیے ہی ہے کر کے دیکھ لو۔۔۔ وہ صاف گوئی سے بولا
میں تم سے پہلے بھی بات کرنا چاہ رہی تھی۔۔ عریشہ نوریز کے بارے میں۔۔ میں نے اسے یونان سے بلایا ہے۔۔حورین کے کہنے پر حماد نے اسے حیرت سے دیکھا
عریشہ نوریز؟۔۔ وہ تو مر گئی۔۔
وہ زندہ ہے۔۔ اور ٹھیک ہے۔۔ اس نے حماد کی بات کاٹتے بتایا۔۔
تم کب سے جانتی ہو؟۔۔
زیادہ دیر نہیں ہوئی بس شادی سے کچھ دن پہلے ہی۔۔۔
تو تم اب بتا رہی ہو مجھے؟۔۔۔
نکاح والے دن کال کر رہی تھی لیکن تم مصروف تھے۔۔۔
تو اب کیا چاہتی ہو؟۔۔
میں نے اسے ولید بشر کے کیس کے لیے بلایا ہے تو اسے یہاں حفاظت کی ضرورت ہے جو شاید تم دے سکو۔۔
ہممم۔۔ ٹھیک ہے اس کی حفاظت میری ذمے مجھے بتا دینا وہ کب آرہی ہے ۔۔۔ حماد نے سوچتے ہوئے کہا
تمہارا شکریہ حماد۔۔ حورین خوشی سے چمک اٹھی جس پر حماد مسکرا دیا
تو اب تمہیں کیسا لگتا ہے؟۔۔
کس بارے میں؟۔۔ اس نے آبرو اٹھائی
حادی کے بارے میں۔۔ اس نے حورین کے چہرے کو بغور دیکھتے پوچھا
کچھ نہیں لگتا۔۔۔بس خوش ہوں کہ وہ اچھا انسان ہی تھا۔۔ وہ کہتی ہوئی ہنس دی
تو تمہیں پچھتاوا ہوا ؟۔۔
پچھتاوا مجھے اسے غلط سمجھنے پر نہیں ہوا حماد۔۔ پچھتاوا اس بات کا ہوا کہ ہم دونوں سے محبت کا بھرم نہ رکھا گیا اس نے مجھ پر اعتبار نہ کیا اور میں نے آنکھوں دیکھا سچ مان لیا ۔۔۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہی نہیں تھے بس ایک موڑ پر مل کر بچھڑنا ہی قسمت تھا۔۔ وہ کہتی گئی اور حماد اس کے چہرے کو دیکھتا رہا
عینی سیڑهیاں اترتی دادا کے کمرے کا رخ کر گئی دروازہ کھولا تو انہیں بستر پر بیٹھے پایا
میں اندر آ جاؤں؟۔۔۔ اس نے اجازت چاہی
آجاؤ میری بچی۔۔۔ جمشید صاحب پیار سے بولے وہ چلتے ہوئے ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی
کیسے آنا ہوا میرے پاس؟۔۔
یاد آ رہی تھی۔۔۔
کس کی؟۔۔ انہوں نے عینک اتار کا سائڈ ٹیبل پر رکھ دی
حور آپی کی۔۔۔
حور آپی یاد پر دادا کے پاس چلی آئی۔۔ جمشید صاحب مسکرا کر بولے
ہاں جب کوئی پاس ہو تو غم کم ہوتا ہے۔۔ میری بچی نے بھی غم پالیں ہیں۔۔
غم پالتا کون ہے خود ہی پل جاتے ہیں۔۔ وہ مسکرا دی لیکن لہجہ اداس تھا
غم خود نہیں پلتے میری جان۔۔ بے حد گمان کر لینا غموں کو جنم دیتا ہے۔۔
تو گمان کیوں ہوتے ہیں انسانوں کو؟۔۔
گمان تب ہوتے ہیں جب وہ دوسرے انسان سے کچھ لینے کی چاہت کر لیں جبکہ دوسرے انسان نے تو ایسا کوئی وعدہ نہیں لیا ہوتا کہ میں تمہیں تمہارے مانگنے پر دے دوں گا۔۔
اور میری بچی یہ انسانوں کے بس کی بات نہیں کہ وہ کسی کو کچھ دے سکیں ۔۔۔جب تک اللہ کی اجازت نہ ہو۔۔۔
تو گمان سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟۔۔
یقین کو تسلیم کر کے۔۔۔ عینی دادا کی بات پر انہیں دیکھتی رہی۔۔
میری وجہ سے محبت میں مر مٹنے والے سچ میں مر گئے۔۔۔ عریشہ صدمے سے بولی حماد اس کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا وہ اسے کچھ دیر پہلے ہی ایئرپورٹ سے پک کر کے آیا اور اس کے پوچھنے پر حورین اور حادی کے ساتھ جو ہوا سب بتا دیا
تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا عریشہ۔۔ شاید یہی قسمت میں لکھا ہوا تھا شاید ایسے ہی حورین کو میرے پاس آنا تھا ۔۔خود کو قصوروار مت سمجھو ۔۔ وہ نرمی سے بولا
کاش مسٹر حادی نے مجھے مار دیا ہوتا یا کاش میں عدالت میں کھڑے ہونے کی جرأت نہ کرتی میں نہ ہوتی تو کچھ نہ ہوتا ۔۔۔
تم نہ ہوتی تو آج حورین کو یہ پتہ نہ چلتا کہ حادی اچھا انسان ہے ۔۔تمہیں قتل کر کے وہ حورین کا بھی قتل کر دیتا اور یہ بات وہ اچھے سے جانتا تھا۔۔۔
تو آپ ہی بتائیں آپ کو اب کوئی زندہ لگ رہا ہے؟۔۔ عریشہ نے نظر اٹھائے سوال کیا اور اس کا جواب حماد کے پاس نہیں تھا
پتہ ہے جب میرے سامنے وہ مسٹر حادی کا ذکر کرتی تھی تو ان کے چہرے پر عجیب سی خوشی ہوتی تھی۔۔ وہ تو اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی چاہے تو شرط لگا لیں۔۔ اس کی بات پر حماد لب کاٹتے اسے دیکھتا رہا
حورین نیلا فراک اور پجامہ پہنے سر کو نیلے ہی سٹالر سے ڈھانپے ہوئے گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑی تھی وہ کورٹ میں جانے سے ڈر رہی تھی۔۔ ڈر رہی تھی کہ حادی سے سامنا نہ ہو پھر وہ یک دم سیدھی ہوئی اور پوری شدت سے دعا کی کہ "آج کے بعد کبھی ہم دونوں کے راستے نہ ٹکرائیں اور غلطی سے سامنے آ بھی جائے تو وہ ایسے گزر جائے جیسے مجھے جانتا ہی نہ ہو کہ کون حورین ؟۔۔" اس نے دعا کرتے گہری سانس بھرتے کورٹ کی طرف قدم بڑھائے تب ہی اس کے قدم جام ہو گئے اور وہ اپنی جگہ منجمد رہ گئی سامنے ہی حادی آ رہا تھا حورین نے بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھا "کیا دعائیں اتنی جلدی رد ہو جاتی ہیں؟۔۔" اس کا دل چاہا زمین پھٹے اور اس میں سما جائے ۔۔ وہ سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس سنجیدہ تاثرات لیے اسی طرف آ رہا تھا حورین نے مٹھیاں پھینچ لیں اور حادی اس کے پاس بغیر اسے دیکھے ایسے گزرا جیسے اس نے واقعی کہا ہو۔۔ کون حورین ؟۔۔ "کیا دعائیں اتنی جلدی قبول ہوتی ہیں؟" ۔۔اب کی بار سوال بدل گیا تھا اور حورین کو لگا کہ وہ سچ مچ زمین میں سما گئی ہے اسے اپنے ہونے پر شک سا ہوا کیا وہ کچھ پل کے لیے اس دنیا میں نہیں تھی اس لیے حادی کو نظر نہیں آئی؟۔۔یا وہ صرف حادی کی دنیا میں نہیں تھی؟۔۔ اسے لگا وہ اپنا اگلا قدم نہیں اٹھا سکے گی اگر اٹھایا تو زمین بوس ہو جائے گی حورین کو اپنے سامنے کے مناظر دھندلے دکھائی دینے لگے اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھا جو بس وہی تک رہا آنکھیں زور زور سے جھپکتے آنسوؤں کو پلکوں سے پیچھے جانے کا حکم دیا اور مٹھیاں پھینچتے قدم آگے بڑھایا۔۔
وہ آفس میں بیٹھا کچھ فائلز دیکھنے میں مصروف نظر آ رہا تھا دروازہ کھلا اور حماد اندر آیا حادی نے ایک نظر اسے دیکھا پھر فائلز میں مصروف ہو گیا
کیا تم مجھ سے دوستی توڑ رہے ہو؟۔۔ حماد نے اس کے سامنے بیٹھتے سوال کیا
یہ نیک خیالات مجھے روز آتے ہیں۔۔ وہ فائلز میں ہی نظریں مرکوز کیے بولا
تم ملے کیوں نہیں مجھ سے؟۔۔ اس نے حادی کا چہرہ بغور دیکھتے پوچھا جس پر حادی نے اسے کو سرتا پاؤں ایک نظر دیکھا
کیوں تمہارے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہیں؟۔۔ یا میری جگہ تمہیں گولیاں لگی تھیں جو میں نہیں ملا تم سے۔۔ حماد اس کے جواب پر ہنس پڑا
کیسی ہے تمہاری طبیعت؟۔۔
تمہارے سامنے ہی ہے۔۔ بد قسمتی سے بچ گیا ہوں۔۔۔
ہاں میں دیکھ رہا ہوں تمہیں زندہ اور تمہیں زندہ دیکھ مجھے سکون بھی مل رہا ہے۔۔ وہ حادی کی رویے سے ذرا حیرت میں آیا تھا لیکن حادی تو ایسے تھا جیسے کچھ نہیں ہوا ہو
تو پھر دیکھ لو جتنا دیکھ سکتے ہو بعد میں موقع نہیں ملے گا۔۔
وہ کیوں؟۔۔ اس نے اچھنبے سے پوچھا
کیونکہ میں جا رہا ہوں۔۔۔
کہاں۔۔۔
دور۔۔۔
کیوں؟۔۔
پوچھنے کی ضرورت ہے؟۔۔بتاؤ کیا پیو گے چائے یا کافی؟۔۔ حماد اس کے سوال پر خاموش ہو گیا
یہ تم نے کب سے میری خاطر تواضع شروع کر دی؟۔۔
پہلی اور آخری بار ہے کروانی ہے تو کروا لو ۔۔حادی آبرو اچکاتے ہوئے بولا
بار بار مت بولو کہ تم جا رہے ہو۔۔۔
کیوں؟۔۔ اس نے حیرت سے دیکھا
کیونکہ لگ رہا ہے تم نہیں جا رہے۔۔جان جا رہی ہے۔۔ حماد کی بات پر وہ اسے دیکھتا رہا اس کا لہجہ عام تھا لیکن اداسی جھلک رہی تھی
تمہیں پتہ نہیں تم میں میری جان بستی ہے آخر دوست ہو۔۔۔
اور تمہیں پتہ نہیں جان زیادہ دیر تک ساتھ نہیں رہتی اسے جانا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانے کے لیے ہی آتی ہے۔۔ وہ کرسی سے ٹیک لگائے بولا اور حماد کو اپنا دل کسی چیز سے چیرتا محسوس ہوا
حورین سے ملو گے؟۔۔
نہیں۔۔۔ مختصر جواب آیا
کیوں؟۔۔
تم ہی بتاؤ کہ کس رشتے سے ملوں کوئی ایک رشتہ تو ہے نہیں میرا اس کے ساتھ۔۔ میری پھوپھو کی بیٹی ہے،میری دوست ہے، میری سابقہ منگیتر اور سابقہ بیوی بھی ہے اور اب میرے دوست کی بیوی ہے۔۔ تمہیں نہیں لگتا اتنے رشتوں سے ملنے سے اچھا اب میں اس سے کبھی نہ ملوں۔۔ اس کے لہجے میں کیا تھا وہ حماد نہیں جان سکا
اور ویسے بھی میں نے اس سے کہا تھا اسے دیکھوں گا تو جان لے لوں گا اور وہ اس ڈر سے مجھے اپنی شکل کبھی نہیں دکھائے گی آخر جان لینے میں ماہر ہوں میں۔۔۔ تمہارے لیے کافی ہی منگوا لیتا ہوں۔۔ اس نے بولتے ہوئے انٹر کام ہاتھ میں لیا۔۔
رات کا وقت تھا عینی کچن سے نکل کر اوپر جانے لگی
عینی بی بی باہر آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔۔ملازمہ نے آکر اطلاع دی۔۔
مجھ سے؟۔۔ کون آیا ہے؟۔۔ عینی حیران ہوئی
پتہ نہیں گاڑی کے شیشے اوپر تھے دیکھ نہیں سکا گارڈ۔۔ عینی کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا "حادی بھائی جانے لگے؟" اس کے قدم بے سختہ باہر کی طرف بڑھے وہ گیٹ سے باہر نکلی تو اس کے قدم وہیں رک گئی باہر کا سانس باہر اور اندر کا اندر ہی رہ گیا حماد گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا عینی کو دیکھ سیدھا ہوا
کیسی ہو؟۔۔ وہ اس کے سوال پر اسے دیکھتی رہی
خیریت ہے ۔۔جان لینے والے حال پوچھنے آئے ہیں؟۔۔ وہ منہ میں بڑبڑا کر رہ گئی لیکن اس کی آواز حماد کے کانوں سے بچ نہیں سکی
اگر پوچھ ہی لیا ہے حال تو بتا بھی دو۔۔ وہ مسکرا کر بولا
بتا تو دیا ہے جان نہیں رہی تو حال جان کر کیا کریں گے؟۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولی جس پر حماد اسے دیکھتا رہا
تو پھر جمع کر لو خود میں جان ضرورت پڑے گی تمہیں۔۔
کیوں؟۔۔اب کون سی قیامت ڈھانے لگے ہیں؟۔۔ وہ ایسے ہی سرد لہجے میں بولی
اگر یہ قیامت نہ ڈھائی تو قیامت تک سب پر قیامت کا سماں ہی رہے گا۔۔
کیا۔۔کیا کرنے لگے ہیں؟۔۔ عینی کا لہجہ ایک دم پریشانی میں ڈھل گیا
پتہ چل جائے گا تمہیں۔۔میں چلتا ہوں۔۔ وہ کہتا پلٹ گیا جیسے بس اسے آگاہ کرنے آیا ہو اور عینی وہاں بت بنی کھڑی رہ گئی
صبح سویرے حورین ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی وہ جب سے اٹھی تھی حماد اسے کہیں نظر نہ آیا تو فریش ہونے لگی اس کی نظریں ابھی بھی گھڑی پر تھیں
یہ بتائے بغیر کہاں چلا گیا؟۔ خود سے سوال کرتی بالوں کی پونی کرنے لگی تبھی دروازہ کھلا اور حماد اندر آیا
گڈ مارننگ!۔۔۔
گڈ مارننگ۔۔ کہاں تھے تم؟۔۔اتنی صبح کہاں نکل گئے تھے؟۔ اس نے فوراً دیکھ سوال کیا
تمہارے لیے کچھ لینے گیا تھا۔۔ وہ مسکرا کر حورین کی طرف بڑھا
کیا؟۔۔ اس کے پوچھنے پر حماد نے ہاتھ آگے کیے تو ان میں گجرے تھے
تم بھی نا حماد۔۔ وہ گجروں کو دیکھ بے ساختہ بولی
پیارا ہوں نا ؟۔۔ حماد نے آبرو اٹھائیں جس پر حورین ہنس دی پھر وہ حورین کی کلائیوں میں باری باری گجرے پہنانے لگا
جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تمہاری کلائیاں پھولوں سے حالی نہیں رہیں گی۔۔ جی بھر کر محسوس کر لو انہیں۔۔ اس نے پہناتے ہوئے ہمیشہ کی طرح شہادت کی انگلی پھولوں پر پھیری تھی
جی بھر کر کیوں محسوس کر لوں؟۔۔ تم نے تو روز ہی لا کر دینے ہوتے ہیں۔۔ وہ اب کلائیوں کو گھما کر گجرے دیکھنے لگی
اب یہ والی روز پتہ نہیں روز آتی ہے کہ نہیں۔۔ وہ کندھے اچکاتے بولا
کیا مطلب؟۔۔حورین الجھ کر دیکھنے لگی
مطلب کہ باہر آ کر ناشتہ کر لیں جناب۔۔
ہاں میں بس ابھی آئی ۔۔ وہ گجروں کو اتار کر ڈریسنگ پر رکھنے لگی
کیوں اتار رہی ہو؟۔۔ حماد نے فوراً ٹوکا
ناشتہ کرنے کے لیے میں تو اتار کر ہی جاتی ہوں۔۔
آج مت اتارو مجھے تمہاری کلائیوں میں آج بس پھول دیکھنے ہیں۔۔۔
مجھے تمہاری کچھ سمجھ نہیں آرہی ۔۔ وہ جھنجھلا کر کہتی اس کے ساتھ چل دی۔۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے نور وہ کچھ برا کرنے لگے ہیں.. وہ پریشانی میں چکر کاٹتی بول رہی تھی اور نور اسے کب سے یہی کرتے دیکھتی جھنجھلا گئی
یار کیا برا کرنے لگے ہیں۔۔ اور اگر کرنے لگے ہیں تو کوئی انہیں کیسے روک سکتا ہے؟۔۔
مجھے نہیں پتہ لیکن کل رات ان کی آنکھوں میں بغاوت تھی۔۔ محبت سے بغاوت وہ۔۔ وہ اپنی جان دینے کا سوچ رہی ہیں۔۔۔
کیسے لیں گے یار وہ اپنی جان؟۔۔ نور نے بیزاریت سے پوچھا
حور آپی کو چھوڑ دیں گے۔۔ انہوں نے سوچا ہوگا وہ ان کے ساتھ خوش نہیں تو چھوڑ دو۔۔ کوئی انہیں بتائے محبت کو جانے دینا کوئی کھیل نہیں ہے محبت جاتی ہے تو جان چلی جاتی ہے زندہ لاش کو چھوڑ کر روح بھٹک جاتی ہے۔۔۔ وہ لب کاٹتے بولی
تو پھر حور آپی کا کیا؟۔۔۔
وہ۔۔ مجھے یقین ہے وہ ان کی محبت میں اپنی محبت بھول جائیں گی۔۔۔
واہ!۔۔ تمہاری محبت اور ان کی محبت کے اصول الگ کیوں ہیں؟۔۔ تم محبت کو جانے دو تو جان جائے گی حور آپی اور حادی بھائی محبت کو جانے دیں گے تو بھول جائیں گے؟۔۔ نور نے حیرانگی سے پوچھا جس پر عینی کے پاس جواب نہ بنا
میں بس اتنا جانتی ہوں انہیں اپنی محبت مل گئی ہے۔۔ اور وہ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جن پر محبت مہربان ہو۔۔
اور اگر ایسی بات ہے عینی اورنگزیب تو محبت تم پر بھی کسی کے مہربان ہے آؤ تمہیں لے کر چلوں اس کے پاس اسے ہاں کرو جو تمہاری محبت میں مرتا ہے ۔۔ تو میں تسلیم کر لوں گی کہ پہلی محبت کو جانے دیا جا سکتا ہے کرو دل اس کے نام۔۔ نور تنک کر بولی اور عینی کو لگا اس کا دل کسی نے بھٹی میں جلنے کے لیے جھونک دیا ہو
تم جان مانگ لو نور دل مت مانگو وہ بس اس دل میں ہی تو رہتے ہیں۔۔ اس کے علاوہ وہ میرے اختیار میں کہیں بھی نہیں ہے۔۔ وہ بے بسی سے بولی اور نور اسے دیکھتی رہ گئی
رات کے وقت حورین لان میں ٹہل رہی تھی کچھ دیر ٹہلنے کے بعد وہ اندر آگئی ماہ جبین ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی
حماد آیا نہیں ابھی تک؟۔۔ حورین کو دیکھ پوچھا
نہیں۔۔۔
پھر ہم ڈنر کر لیتے ہیں وہ آئے گا تو کر لے گا اور کیا پتہ وہ کر کے ہی آئے۔۔۔
نہیں اس کا انتظار کر لیتے ہیں۔۔ حورین بولی اس کا دل نجانے کیوں گھبرا رہا تھا
جیسا تم کہو۔۔ ماہ جبین مسکرا دی تب ہی ڈرائیور اندر آیا
دلہن بیگم!۔۔ یہ حماد بابا نے مجھے دیا تھا کہ میں آپ کو دے دوں۔۔ اس نے لفافہ حورین کے آگے کیا حورین نے تھام لیا
یہ کیا ہے؟۔۔ ماہ جبین الجھی حورین نے ایک نظر ماہ جبین پر ڈال کر لفافہ کھولا تو اس میں سے دو پیپرز نکلے اور اسے دیکھتے ہی حرین بالکل ساکت ہو گئی
حورین کیا ہے یہ۔۔ ماہ جبین نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا اور کاغذ بے ساختہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹیبل پر گر گیا جس پر ماہ جبین کی نظر پڑی
طلاق!۔۔ اس نے اپنے منہ پر بے ساختہ ہاتھ رکھا اب حورین کے ہاتھ ایک نوٹ رہ گیا تھا جس پر وہ کسی برف کا مجسمہ بنے نظر دوہرانے لگی اور گر جانے کے انداز میں صوفے پر بیٹھ گئی
"حورین تم جب میری دلہن بنی تھی تو یقین مانو لگ رہا تھا جیسے آسمان سے کوئی حور اتر آئی ہو بہت حسین لگ رہی تھی تم لیکن ایک چیز کی کمی تھی۔۔ نور کی تمہارے چہرے پر وہ نور نہیں تھا جو میں نے تم پر حادی کی دلہن بنے دیکھا تھا اور تب میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں تمہارے چہرے پر نور لانے کا سبب بنوں گا " حورین کو حماد اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا نظر آیا حماد نے اس کے ہاتھ تھام لئے
"میں عریشہ سے ملا تو جانتی ہوں اس نے کیا کہا؟۔۔اس نے کہا کہ حادی کا نام لے کر حورین کے چہرے پر جو خوشی آتی ہے شرط لگا لیں وہ آپ کبھی نہیں لا سکتے اور پتہ ہے میں نے شرط نہیں لگائی کیونکہ جانتا تھا میں نے ہار جانا ہے۔۔ میں اس بار تمہیں جانے نہیں دینا چاہتا تھا حورین مجھے لگا تم جاؤ گی تو میری جان بھی جائے گی لیکن تمہیں اپنے ساتھ نہ ہو کر بھی اپنے ساتھ دیکھنا مجھے اور مار رہا تھا تو سوچا جانے دوں"۔۔ حورین کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں اور وہ نم آنکھوں کے ساتھ اپنے سامنے اسے دیکھتی رہی جو اسے مسکرا کر اپنا حال سنا رہا تھا
"تو میرے دل نے تڑپ کر بولا لعنت ہو حماد شفیع تمہارے اتنا فراخ دل ہونے پر خود تو ڈوبے مجھے بھی ساتھ لے کر ڈوب گئے تمہارا جبر برداشت کرتے میں دھڑکنا چھوڑ دوں اس سے پہلے مجھے خود میں سے نکال دو۔۔ لیکن میں دل کو کیا سمجھاتا کہ میں نے تو سوچا تھا کہ تمہیں اتنی محبت دوں گا کہ حادی کی محبت کا نام بھی باقی نہیں رہے گا لیکن شاید میں یہ بھول گیا کہ جب میں چاہ کر بھی تمہاری محبت سے دستبردار نہیں ہو سکتا اور کسی کو کبھی تمہارا مقام نہیں دے سکتا تو تمہارے لیے میں نے محبت کے اصول کیوں بدل دیے؟۔۔ حورین کی آنکھ سے آنسو چھلک کر گال
پر بہہ گیا اس کے ہاتھ پر حماد کی گرفت مضبوط ہو گئی جیسے وہ خود کے ساتھ اسے بھی حوصلہ دے رہا ہو
"تمہیں یاد ہے میں نے تم سے کہا تھا جب مجھے اپنے احساسات کا پتہ چلے گا کہ مجھے تم سے چاہت ہے، محبت ہے، عشق ہے یا جنونیت تب تم سے اظہار کروں گا تو آج میں تم سے اظہار کرتا ہوں حورین کہ مجھے تم سے چاہت بھی ہے، محبت بھی ہے، عشق بھی ہے اور جنونیت بھی ہے۔۔ اور میں نے چاہت کے نام پر تمہیں بے پناہ چاہا اور بے غرض چاہا اور مرتے دم تک چاہتا رہوں گا، محبت کے نام پر میں نے ہر پل تمہاری خوشیوں کی دعا کی ہے اور آج تمہیں تمہاری چھینی گئی خوشیاں واپس دینا چاہتا ہوں، عشق کے نام پر میں نے اپنا سب کچھ تم پر لٹا دیا اپنا دل اپنی جان اپنی روح سب کچھ اور جنونیت کے نام پر میں نے تمہیں حاصل کر لیا جس پل جس لمحے تم میرے ساتھ میری ملکیت میں رہی میں نے اس میں اپنی پوری زندگی جی لی۔۔ تم صرف میری تھی تم حورین حماد شفیع تھی اس خوشی کے بعد مجھے زندگی میں کبھی کچھ نہیں چاہیے۔۔ میری ممی نے سب کچھ کیا اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر تمہیں دھمکیاں دیں حادی کی جان سے ڈرا کر تم سے ہاں کروا دی انہوں نے ہر طرح سے سچ کو بدلنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی وہ اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتیں کہ وہ حماد کو کبھی حورین نہیں دے سکتیں کیونکہ حورین صرف حادی کی ہے اور یہ بات مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے ممی شاید یہ بھول گئی تھیں کہ ان کے کیے گئے گناہ کا کفارہ ان کے بیٹے کی قربانی سے ہی ادا ہو سکتا ہے۔۔میں ملا تھا حادی سے اور اسے دیکھ لگا وہ تو قبر میں اتر چکا ہے اور تم اترنے کی تیاریاں کر رہی ہو شاید۔۔ تم جانتی ہو تم دونوں بہت عزیز ہو مجھے اور میں نے خود غرض بننا چاہا مگر نہ کام رہا کیونکہ اگر تم میرے جینے کی وجہ ہو تو حادی میں جان بستی ہے اور بھلا میں کیسے جینے کی وجہ حاصل کر کے جان سے ہاتھ دھو سکتا ہوں؟۔۔کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ میں بہت خود غرض ہوں جو جینے کی وجہ اور جان دونوں ایک ساتھ حاصل کرنا چاہتا ہوں اور مجھے بھی لگتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہے میں واقعی بہت خود غرض ہوں۔۔۔ حورین مجھے تم سے محبت کا کبھی پچھتاوا نہیں ہوا اور نہ آگے کبھی ہوگا"۔۔اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیک چکا تھا وہ لب کاٹے اسے دیکھتی رہی حماد کی آنکھوں میں بھی نمی واضح تھی اس نے ایک گہری سانس بھری
"تو اس لیے میں حورین حماد شفیع تمہیں خود سے آزاد کرتا ہوں، تمہیں اپنے نام سے آزاد کرتا ہوں، تمہیں اپنی ملکیت سے آزاد کرتا ہوں ،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"۔۔ حورین نے حماد کے ہاتھوں پر گرفت سخت کر کے روکنا چاہا
"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"۔۔ حورین کو لگا اس کے دل کو کسی نے چیر دیا ہو
"میں حورین اورنگزیب"۔۔ حماد کی آنکھ سے آنسو نکلنے لگا جسے وہ روکے ہوئے تھا لیکن چہرے پر مسکراہٹ برقرار تھی
"تمہیں طلاق دیتا ہوں" اور اس کا آنسو حورین کے ہاتھ پر گر پڑا حماد کو لگا اس کا دل کسی نے چھوڑی سے ذبح کر کے رکھ دیا ہو لیکن یہ کام اس نے خود کیا تھا اور وہ حورین کے سامنے سے جا چکا تھا وہ اسے چاہ کر بھی روک نہ سکی اور اس کے ہاتھ میں رہ جانے والا فقط اس کا خط تھا اس نے خط کے آخر پر انگوٹھا پھیرا جہاں کسی کا آنسو گر کر خشک ہو چکا تھا اور وہ حماد کا تھا جو شاید خط لکھتے ہوئے ضبط کے باوجود گر گیا
یہ اس نے کیا کیا حورین؟۔۔ ماہ جبین بے یقینی سے حورین کو دیکھ رہی تھی جس کا وجود خود ریزہ ریزہ بکھر گیا تھا
یہ حماد نے کیا کیا۔۔۔وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟۔۔ماہ جبین کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں
حورین تم نہیں جانتی میں نے اسے ہر رات تمہارے لیے تڑپتے دیکھا ہے سسکتے دیکھا ہے۔۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے کو کس قدر اذیت میں دیکھا ہے تم نہیں جان سکتی۔۔حورین زمین پر بیٹھتی ہوئی ماہ جبین کو بے حس و حرکت دیکھ رہی تھی
میں نے اسے دے تو دی تھی حورین۔۔۔کیوں کیوں اس نے اپنے ہاتھوں اپنی جان لی؟۔۔ کیوں۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب انڈل آیا تھا اور آج سب کو خون کے آنسو رلانے والی خود خون کے آنسو رو رہی تھی سب کچھ ہونے کے باوجود وہ خالی ہاتھ رہ گئی تھی اس کی کل وراثت اس کا لاڈلا اسے خالی ہاتھ کر گیا۔۔۔
"کون کہتا ہے عشق لاڈلوں کے بس کی بات نہیں۔۔ وہ بھی تو اپنی ماں کا بہت لاڈلا تھا اور عشق کیسے ہوتا ہے اور عشق میں خود کو تباہ و برباد کیسے کیا جاتا ہے اس نے کر کے دکھایا تھا"
دوپہر کے وقت عینی کمرے میں آئی تو حورین کو بستر پر بیٹھے دیکھا وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آکر بیٹھ گئی
کیسی ہیں آپ ؟۔۔۔عینی نے حورین کے چہرے کو دیکھا
ٹھیک ہوں۔۔۔ (وہ جب سے آئی تھی خاموش تھی۔۔۔ کھانا بھی کھانیےکی ہوش نہیں رہتی تھی کبھی عینی کمرے میں آکر کھانا دیتی یا کبھی عدیلہ۔۔ وہ جیسے سب سے لاتعلق ہو کر رہنا پسند کرتی تھی۔۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہونا شروع ہوگئی ) عینی زمین کو گھوریاں ڈالنے لگی کچھ دیر کی خاموشی چھا گئی
بہت برے ہیں حماد بھائی انہیں کبھی معاف نہ کرنا میں بھی نہیں کروں گی۔۔۔حورین اس کی بات پر اسے دیکھنے لگ گئی
اگر چھوڑنا ہی تھا تو نکاح کیوں کیا؟۔۔۔ ہمیشہ تڑپیں گے کبھی سکون نہیں آئے گا انہیں۔۔۔انشاءاللہ۔۔۔عینی غصے سے کئی دنوں بعد آج اپنے دل کا غبار نکالنے کے لئے بولی جس پر حورین ہلکا سا مسکرا دی
تم اتنی کڑوی باتیں کیوں کر رہی ہو اس کے لیے؟۔۔۔
یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔عینی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ تو حماد کو دل کی گہرائیوں سے بد دعائیں اور گالیاں دے ڈالے اس نے خود کو عینی کو جیتنے بھی نہ دیا اور حورین کو بھی ہار گیا۔۔" لیکن وہ کہاں جانتی تھی کہ حماد آج ہار کر نہیں جیت کر گیا ہے حورین کے دل میں آج وہ اپنے لیے ایسا مقام بنا کر چلے گیا ہے جو شاید اس سے پہلے کبھی بھی نہ تھا۔۔۔"
اوہ میں بھول گئی بتانا۔۔عینی نے اپنے سر پر ہاتھ مارا
کیا؟۔۔۔
وہ حادی بھیا کی کچھ دیر میں فلائٹ ہے۔۔
فلائٹ؟۔۔ کہاں جا رہا ہے وہ؟۔۔ حورین کو حیرت کا دھچکا لگا
ترکی جا رہے ہیں پھر پتا نہیں کہاں جائیں۔۔۔وہ تو تین ماہ پہلے ہی جانے کی تیاری میں تھے۔۔ لیکن شکر ہے گولیاں لگنے کے باعث ٹھنڈ پڑ گئی انہیں جب ڈاکٹر نے سفر سے منع کردیا تھا۔۔۔ عینی کاندھے اچکا کر بولی
اور تم مجھے اب بتا رہی ہو عینی؟۔۔۔حورین غصہ ہوئی
تو اور۔۔ آپ نے تو خود کو نظر بند کر رکھا تھا۔۔۔
اُف عینی۔۔۔ حورین فوراً اٹھی
کب ہے فلائٹ اس کی؟۔۔۔
گھنٹے میں ہے۔۔ وہ اب تک ائرپورٹ پہنچ چکے ہوں گے۔۔۔ آپ کہاں جا رہی ہیں؟۔۔ اس نے کمرے سے جاتی ہوئی حورین کو پکارا لیکن وہ تو کسی راکٹ کی رفتار سے نکلی
وہ گاڑیوں کو پیچھے چھوڑتی بہت تیزی سے گاڑی چلا رہی تھی دو تین بار کسی سے ٹکراتی بچی لیکن پھر بھی اندھا دھند گاڑی چلاتی گئی دوسری گاڑیوں کو کٹ دیتی بنا خوف کے چلتی گئی اسے تو جیسے اپنی جان کی پرواہ ہی نہ تھی۔۔۔ اسے کسی طرح بھی حادی تک پہنچنا تھا اگر آج حادی چلا گیا تو ایک بار پھر وہ خالی ہاتھ رہ جائے گی گاڑی ایئرپورٹ کے باہر رکی وہ گاڑی سے اتر کر زور سے درازہ بند کر کے اندر بھاگی اندر اتنے لوگوں کو دیکھ اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ حادی کو کیسے ڈھونڈے حورین نے اِدھر اُدھر بھاگتے ہوئے دو تین بار حادی کو پکارا آتے جاتے لوگ اسے دیکھنے لگے مگر کہیں بھی حادی نظر نہیں آیا وہ بھاگتی ہوئی چیکنگ ایریا کی طرف گئی دل میں دعا کر رہی تھی کہ۔۔یا اللہ ایک بار حادی سے ملوا دے بس ایک بار پھر میں اسے کہیں نہیں جانے دوں گی۔۔میں پھر تجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گی ایک بار مجھے حادی دے دیے۔۔ وہ چیکنگ ایریا کی طرف پہنچی تو وہاں چیکنگ لائن میں حادی کو یکھ اسے کسی سکون نے آ گھیرا تھا اور بے اختیار اس نے اللہ کا شکر ادا کیا
حادی!۔۔۔ اس نے پوری قوت سے حادی کو پکارا حادی نے آواز سنتے پلٹ کر نظر گھمائی اور حورین کو دیکھ وہ ٹھٹک گیا وہ پھولی سانس کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی وہ سکیورٹی سے ایکسکیوز کرتا اس کے پاس آیا
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟۔۔ ایک نظر اسے سر تا پاؤں دیکھا
کہاں۔۔جا رہے۔۔ ہو تم ؟۔۔۔وہ پھولے سانس کے ساتھ بمشکل بولی
میں جہاں بھی جا رہا ہوں تم یہاں کیا کر رہی ہو؟۔۔ وہ سرخ فراک اور پجامہ میں ملبوس آج بھی حادی کی دھڑکنوں کو اپنے قابو میں کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی
ایسے کیسے جا سکتے ہو تم؟۔۔ حورین نے اس کی آنکھوں میں دیکھ سوال کیا
میں ایسے ہی نہیں جا رہا۔۔۔ اپنا سب کچھ ہار کر جا رہا ہوں۔۔۔ اور اگر تم مجھ سے پھر کچھ لینے آئی ہو تو یقین کرو اس زندہ لاش میں بس سانسیں چل رہی ہیں کیونکہ جان تو تم ساری کی ساری لے چکی ہو ۔۔۔ حادی کو دل میں کچھ چبتا محسوس ہوا حورین اسے یونہی دیکھتی رہی
مجھے تم سے کچھ چاہیے ۔۔
میرے پاس کچھ نہیں ہے حورین تمہیں دینے کے لیے۔۔ میرے پاس جو تھا وہ دوسروں کے حوالے کر آیا ہوں۔۔۔ " اور وہ اپنا سب کچھ حماد کے حوالے ہی تو کر آیا تھا"
لیکن مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے حادی ۔۔۔
پوچھو۔۔ حادی نے ضبط کرتے اپنی مٹھیاں بنائی
مجھے اپنے گھر کا چاند بناؤ گے؟۔۔
کیا؟۔۔ حادی کو سمجھ نہ آیا
میں عبدالحادی تم سے پوچھ رہی ہوں کہ کیا تم۔۔ مجھے حورین اورنگزیب کو حورین عبدالحادی بناؤ گے؟۔۔ حورین کے سوال پر حادی کی مٹھیاں ڈھیلی پڑ گئیں اور وہ ساکت اپنے سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھتا رہا جو اسے تباہ و برباد کر کے اسے سمیٹنے کا عہد کر رہی تھی ۔۔
رات کا وقت تھا جہاں ہر جگہ خوشیوں کا رقص تھا وہیں غموں نے اپنا دم توڑا تھا حورین پھر ایک بار دلہن بنی تھی لیکن اس بار حادی کی اور قبولیت کا سماع آگیا چاند بھی اس لمحے کو دیکھنے باہر نکل آیا۔۔
قبول ہے۔۔۔ " حورین نے ایک بار پھر اپنے دل پر حادی کے نام کی مہر لگا دی"
قبول ہے۔۔۔ " اس نے دل میں دفن ہوئی محبت کو کھل کر باہر آنے دیا"
قبول ہے۔۔۔ " اس نے آج خود کو پھر حادی کی ملکیت میں سونپ دیا"
اور آج حورین اورنگزیب اور عبدالحادی ایک بار پھر حورین عبدالحادی ہوئے۔۔خوشیاں حورین کے کانوں میں سرگوشی کرتیں اسے مبارکباد دے رہی تھیں حورین کا روم روم پھر سے جی اٹھا تھا اور حادی کو دوبارہ زندگی ملی تھی۔۔ اسے موت بھی حورین کی صورت میں ملی تھی اور زندگی بھی اسی کی صورت میں ملی تھی۔۔ اور آج حادی نے عہد کیا تھا کہ وہ کبھی حورین کو خود سے الگ نہیں کرے گا کیونکہ کوئی بھی تکلیف حورین کی جدائی سے زیادہ دردناک نہ تھی۔۔ حورین نے اپنے دادا کو شکر کے انداز میں دیکھا چونکہ ان کی بات سچی تھی اور حماد واقعی حورین کے لیے کسی مرہم سے کم نہ نکلا۔۔
حادی کمرے میں داخل ہوا تو حورین ڈریسنگ کے سامنے کپڑے چینج کئے اپنے بال سکھا رہی تھی اور حادی کو کتنا سکون ملا تھا اسے اپنے گھر اپنے کمرے اور اپنی ملکیت میں دیکھ کر وہ پھر سے دنیا کا مکمل انسان بن گیا تھا۔۔
تم نے کپڑے چینج کیوں کر لیے؟۔۔ حورین نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا
تو کیا میں دلہن بن کے تمہارا انتظار کر رہی ہوتی؟۔۔ وہ سرد لہجے میں بولی
تو کیا نہیں کرنا چاہئے تھا؟۔۔ حادی اس کے انداز پر حیران ہوا
نہیں مجھے کوئی شوق نہیں تھا۔۔ حورین نے دوسری طرف رخ کر لیا
کیا ہوا ہے تمہیں حورین ؟۔۔ حادی جو سوچ رہا تھا کہ حورین خوش ہوگی لیکن اس کا بدلہ رویہ دیکھ وہ پریشان ہو گیا
کچھ نہیں ہوا۔۔کیا ہونا ہے مجھے؟۔۔ وہ اسی طرح سخت لہجے میں بولی حادی نے آگے بڑھ کر اسے دونوں بازوؤں سے تھام کر اس کا رخ اپنی طرف کیا ٹھوڑی سے پکڑے اس کا چہرہ اوپر کیا تو اس کی آنکھ سے نکلتے موٹے موٹے آنسو گال پر بہہ گئے اور حادی کو اپنا دل چیرتا محسوس ہوا
تم رو کیوں رہی ہو؟۔۔
حادی تم نے مجھ سے محبت کی.. میرا خیال کیا.. میری اتنی پرواہ کی..لیکن..
لیکن؟۔۔ حورین نے اس کے ہاتھ سے اپنا چہرہ ہٹا لیا
لیکن تم نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا۔۔۔ کاش تم نے مجھ پر اعتبار بھی کیا ہوتا تو ہم یوں نہ بچھڑتے۔۔ ایک دوسرے کی یوں بے دردی سے جان نہ لیتے۔۔اور تم تک آنے کے لیے مجھے کسی اور کا سہارا نہ لینا پڑتا۔۔اور مجھ سے زیادہ کسے خوشی ہوتی ی جان کر کے عریشہ زندہ تھی مجھے اس کی جان کی پرواہ تھی حادی۔۔ تم ایک بار مجھے بتا کر تو دیکھتے۔۔
مجھے معاف کر دو حورین میں نہیں جانتا تھا تمہاری جان بچانے کے ارادے سے میں نے تمہیں نہ بتا کہ تمہاری جان ہی لی تھی۔۔میں محبت میں کھڑا نہیں اتر سکا۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔ حادی نے نرمی سے بولا تو حورین لب کاٹے اسے دیکھتی رہی
تم جانتے ہو تم نے مجھے بتایا تھا اگر میرا نام تمہارے نام سے الگ ہو جائے تو کیا ہوگا؟۔۔ حورین نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا
ہاں ایک ایک لفظ یاد ہے اور یقین کرو اس میں سے کوئی بات جھوٹی نہیں تھی۔۔۔میں سب سے گزرا ہوں۔۔۔ میں واقع بن موت مارا گیا تھا۔۔۔
جانتی ہوں میں بھی گزری ہوں اس وقت سے جب تمہارا نام میرے نام سے ہٹ گیا تھا۔۔ تو کوئی فرشتہ نہیں اترا تھا لیکن میری روح قبض کر گیا تھا میں کسی لاش سی اپنے ہونے کا یقین خود کو اور سب کو دلا رہی تھی۔۔ لیکن تب میں نے جان لیا تھا کہ حورین حادی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور اگر رہ سکتی ہے تو وہ حادی کی حورین تو بلکل نہیں ہو سکتی۔۔۔ اور آج دونوں نے اپنے دل کی وہ باتیں کی جو عرصے سے کسی سے بیان نہیں کر سکے تھے۔۔ حادی نے اسے پکڑے گلے سے لگایا
تمہیں کیسا لگا تھا جب میرے اور حماد کے نکاح کا پتا چلا؟۔۔
ہمم۔۔ کیسا لگتا۔۔بیچارے پر ترس آگیا تھا مجھے۔۔۔
کیا؟۔۔حورین پیچھے ہو کر اسے ایک گھوری سے نوازتی لیکن حادی نے اسے ہلنے بھی نہ دیا
ہاں نا کیونکہ تم ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہو۔۔۔حادی مسکرایا
یہ تو ہے۔۔ تب ہی تو اس نے عقلمندی دکھائی۔۔ حورین نے یونہی اس کی باہوں میں کندھے اچکا دیے
ہاں کیونکہ تم صرف میرے بس کی بات ہو۔۔ وہ کھل کر مسکراتے ہوئے اپنا چہرہ حادی کے سینے میں چھپا گئی اور آج چاند نے پھر حادی کے گھر کو پوری قوت سے چمکا دیا تھا۔۔۔
صبح کے وقت حادی ڈریسنگ کے سامنے کھڑا پرفیوم لگا رہا تھا حورین واش روم سے نکلی
تم کہیں جا رہے ہو؟۔۔۔حادی کو تیار ہوتے پوچھا
ہاں ولید بشر کو اریسٹ کر لیا گیا ہے۔۔ اسی سے ملنے۔۔
ولید بشر؟۔۔مگر کیسے؟۔۔
جیسے کہ تم جانتی ہو عریشہ بہت پہلے ہی اپنا بیان دے چکی ہے۔۔ لیکن ولید بشر کو پکڑنا بہت مشکل رہا ہے۔۔ لیکن اب پکڑا گیا ہے۔
لیکن حماد کی ممی نے کچھ کیا نہیں؟۔۔ حورین کو حیرانگی ہوئی
وہ اسے پہلے ہی دودھ سے مکھی کی طرح نکال چکی تھیں۔۔۔انہیں پارٹنر شپ ختم کئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔۔
کب تک آؤ گے؟۔۔
میں بس یوں گیا اور یوں آیا۔۔۔حادی نے حورین کے ماتھے پر بوسہ دیا اور والٹ اور چابی پکڑے نکل گیا
گاڑی ایئرپورٹ کے باہر رکی حادی گاڑی سے باہر نکلا تو سامنے ہی دوسری طرف رخ کیے کوئی کھڑا تھا
تو تم واقعی جا رہے ہو؟۔۔ اس کی آواز پر حماد پلٹا
نہیں۔۔ تمہیں یہاں کی سیر کروانے بلایا ہے ۔۔۔ وہ چلتے ہوئے حادی کے پاس آیا دونوں بغل گیر ہوئے حماد بلیک ٹی شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس تھا
تو کسی سے ملو گے نہیں؟۔۔
نہیں۔۔۔
حورین سے بھی نہیں؟۔۔ حادی نے حیرت سے پوچھا
کبھی نہیں۔۔۔ حماد نے سر دائیں بائیں ہلایا
اور اپنی ممی سے؟۔۔۔
ان کے پاس شروع سے سب کچھ تھا حادی۔۔لیکن کسی کے پاس تا عمر تو کچھ بھی نہیں رہتا اور یہ بات انہیں اب وقت کے ساتھ ہی سمجھ آئے گی۔۔
تو واپس کب آؤ گے؟۔۔
کون کمبخت اب یہاں واپس آئے گا۔۔ چل میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے۔۔حماد نے سر جھٹکا
ایک بات پوچھوں؟۔۔حادی نے سوچتے ہوئے کہا
چل دو پوچھ لے۔۔ کیا یاد کرے گا۔۔۔
تجھے حورین سے محبت ہے؟۔۔۔حادی کے سوال پر حماد مسکرا دیا
تجھے جواب پسند نہیں آئے گا۔۔۔وہ کہتا ہوا پلٹ گیا
تو ایک نمبر کا۔۔ حادی نے پیچھے سے اونچی بولا
ہاں جانتا ہوں۔۔ ہینڈسم ہوں۔۔۔ حماد نے ہاتھ ہلاتے ہوئے اونچی آواز میں جواب دیا تھا
" اور اپنے سفر پر روانہ ہوگیا وہ نہیں جانتا تھا اسے یہ سفر کس منزل پر لے کر جائے اور یا جو مسافر اپنی منزل خود ہی ترک کر دے کیا ان کی کوئی منزل ہوتی بھی ہے؟۔۔"
"ہاں میں وہ بدبخت جو عشق پا کے بھی نہ پا سکا
دل میں بھرے جذبات جو چاہ کے بھی نہ بتا سکا
میرا عشق تک نہ جتا سکا
تیرا ہو کہ تجھ کو گنوا دیا
میں نے تجھ کو خود سے رہا کیا"
عینی بس بھی کرو کتنے میسجز کرو گی؟۔۔۔ نور عینی کو بار بار میسج کرتا دیکھ اکتا کر بولی
جب تک کوئی جواب نہ آئے۔۔وہ حماد کے نمبر پر میسج کر رہی تھی جسے بند ہوئے صدیاں گزر چکی تھیں لیکن پھر بھی وہ ہر روز میسج ضرور کرتی تھی اس آس میں کہ کبھی تو جواب آئے گا
وہ چلے گئے ہیں تو انہیں جانے دو عینی۔۔۔
کیوں چکے گئے ہیں ایسے ہی؟۔۔ہم نے ان پر کیا ظلم کیا؟۔۔۔۔۔ عینی روندھی ہوئی آواز میں بولی
کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ پیچھے پلٹ کر دیکھیں گے تو انہیں پچھتاوا نہ ہو جائے جو وہ کبھی کرنا نہیں چاہیں گے۔۔۔
کس بات کا پچھتاوا؟۔۔۔
اپنی محبت کو حاصل کر کے چھوڑ دینے کا پچھتاوا۔۔۔ کسی کو پا کر کھو دینے کا پچھتاوا۔۔کوئی چھوٹی قربانی نہیں دی انہوں نے عینی ۔۔اپنے دل کو مارنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے تم نے ہی کہا تھا کہ جان چلی جاتی ہے روح بھٹک جاتی ہے۔۔ تو یقین کرلو انہوں نے خوشی خوشی خود کی جان لے لی ہے۔۔۔۔۔ اس کی بات پر عینی کی آنکھ سے آنسو چھلک کر موبائل کی سکرین پر گرا
میری بات مان لو عینی۔۔اور اب اللہ سے اپنے لیے صبر مانگ لو۔۔۔
"اور اب اسے صبر ہی تو مانگنا تھا صبر سے ہمیشہ بھاگنے والی کو صبر چاہیے تھا اور شدت سے چاہیے تھا کیونکہ سب کی قسمت حورین اور حادی کی طرح نہیں ہوتی جو اتنی قربانیوں کے بعد محبت میں مکمل ہو جائیں کچھ لوگوں کی قسمت حماد اور عینی کی طرح ہوتی ہے جو اپنا سب کچھ لٹا کر بھی محبت میں ادھورے رہ جاتے ہیں لیکن حماد ان لوگوں میں سے تھا جو محبت کی خاطر خود کو فنا کر دیتے ہیں اور عینی ان لوگوں میں سے تھی جو اپنی شدتیں اور چاہتیں نچھاور کر کے بھی خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں اور پھر صبر ہی ان کا مقدر بنتا ہے"
"میں تھا سوچتا کہ گمان ہے
یہ تو مشکلوں کا جہان ہے
قربانیوں کا یہ تخت ہے
جو بھی بیٹھے گا بدنام ہے
تیرے اشک تجھ سے چھین کر
یہ رلائے گا، یہ تو عام ہے"
ختم شد۔۔۔۔
This novel is too good 😊
Wajdan or maliha wali konsi novel hai mam please name bole ??